نہیں مصلحت سیخالی یہ جہانِ مرغ وماہی
چھوڑئیے دْنیا جہان کی ‘غیر سماجی حیوان کی ،بات کرتے ہیں اپنے ہندوستان کی۔نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف نیوٹریشن نے کاندھلہ سے کولکاتا اورکشمیر سے کنیاکماری تک خوب چھان بین کی ہے۔اس کے سروے،تجزیے کے مطابق ملک میں چونسٹھ فیصدخاندان گوشت خوری میں مصروف ومشغول ہیں اور بے حد روایتی ومذہبی سمجھے جانے والے جنوبی ہند میں تو92.2فیصدنان ویجی ٹیرین ہیں۔پھر بھی پتلی دال کھانے والے اورآلو شفتالوپرگزربسر کرنیوالے بہتان لگاتے ہیں کہ مسلمان ’جیواورجینے دو‘کے اصول بے فضول کو نہیں مانتے اور’اہنسا پرمودھرم‘کوبھی کچھ نہیں گردانتے۔جیوہیتاکرتے ہیں اور اسی سے اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔چلئے!اس بے بنیاد مفروضے کو اگر سچ بھی مان لیاجائے اور یہ بصد جبر واِکراہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ ہمارے واسطے:
غذائے لحمی ہر طرح ہے اک تمغائے مسلمانی
توپھر ساگ سبزی کا دَم بھرنیو الے اور غذا ئے لحمی سے احترازکرنے والے ہمیں یہ بتائیں کہ مسلمان بے چارہ گوشت کامارا توگھر پر روٹی بوٹی کھالیتاہے مگر ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں میں جوشاندار نان ویج ہوٹل ہیں وہاں کامنوں ٹنوں میٹ کون چٹ کرجاتاہے۔جن بھوت تواتنے بھکمرے نہیں کہ آئیں اورڈشیں صاف کرجائیں۔ کباب،کوفتے،کلیجی،قورمہ،نہاری ،چکن بریانی کی پلیٹیں چیخ چیخ کردْہائی دیتی ہیں کہ
ہم پیار تھے کسی اور کا ہمیں کھا گیا کوئی اور ہے
طرفہ ستم ظریفی نہیں بلکہ سرچ لائٹ کی طرح روشن حقیقت ہے کہ نام نہاد ویجی ٹیرین حضرات نے غذائے لحمی کو ہڑپ کرنے میں مسلمانوں کوکئی کلومیٹر پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ارے صاحب!شرافت کی حد ہو گئی۔گوشت کے دام جو سرچڑھ کر بول رہے ہیں اور اونچا جانے کو پرتول رہے ہیں۔اس کی مبنی برصداقت وجہ یہ ہے کہ غیر مسلموں نے اسے حرزِشکم بنا لیاہے:
کوئی معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں
مسلمان تو غریب الغربا ہے اور غالبِ خستہ کی طرح فاقہ مست ہے یعنی
پڑے اپنے جینے کے ہیں اس کولالے
شامی کباب،نرگسی کوفتے،چانپیں،پسندے اب اس کیلیے قصۂ پارینہ ہوگئے۔ گاہے بگاہے وہ بھلا کیا کھائے گا۔کبا ب وکلچے کے لیے پیسہ کہاں سے لائے گاکہہ دیں کہ
طوطے کی بلا بندر کے سَر ہے
چلئے!ہم نے مان لیاکہ اہنسا پرمودھرم ہے۔جیوہنسامہاپاپ ہے۔دال روٹی کھاؤاور پربھو کے گن گاؤ بکری بھینس کی طرح ساگ سبزی کی جگالی کرواور یوں اپنا پیٹ بھرو۔ مگر ہماری کھوپڑی کہتی ہے کہ اس میں بھی بڑی قباحت ہے اور یہاں بھی ہتیاہنسا کی مصیبت ہے۔ارے بھئی!اب توساری دْنیاجانتی ہے کہ پیڑپودوں میں بھی حیوانوں ، انسانوں کی طرح جان ہوتی ہے وہ بھی دْکھ سکھ محسوس کرتے ہیں اور خیر سے ذِی روح کہلاتے ہیں جانتے ہیں نا! آپ؟یہ دورکی کوڑی لانے وا لے کون ہیں،اجی جناب !ایک ہندوستانی سائنس داں اور سراسر شاکا ہاری سائنس داں جگدیش چندبسو نے اپنے دلائل وبراہین ، ثبوت اور شواہد سے یہ ثابت کیا کہ پیڑپودے اگر چہ ہزار ہا ہزار ہیں مگر وہ بھی جان دار ہیں۔لو آگیا اونٹ پہاڑکے نیچے۔اب ویجی ٹیرین حضرات ذرا ہوش وحواس میں رہ کرمنہ کھولیں اورسچ سچ بولیں کہ زیادہ ہنسا کون کرتا ہے ہم یا وہ؟ویسے
تکا تکا بوٹی بوٹی حال ہمارا جانے ہے
آپ جناب پر واضح ہو کہ مسلمان اگر ایک بکرے کو ذبح کرتے ہیں توبیسیوں لوگ ڈٹ کر کھاتے ہیں مگر ساگ بھات کے متوالے میتھی پالک کی بھجیاکھائیں اور بینگن گوبھی کا بھرتہ پیٹ میں پہنچائیں۔فی الواقع ایک ہانڈی میں بہت سے پو دو ں کی دْھلی دھلائی لاشیں کھدبدکرتی ملیں گی۔اب کس سے کون کہے کہ یہ توقتلِ اناپ شناپ ہے،ہر ایک لقمے میں لکھاپاپ ہے۔ایں چہ بوالعجبی است۔
ارے صاحب!جو اشخاص لحم ناشناس ویج ویج کی رَٹ لگاتے ہیں اور نان ویج والوں کو برا بھلاکہتے ہیں،انہیں ہمارا دانشمندانہ ،مخلصانہ اور دوستانہ مشورہ ہے کہ خور دونوش سے قطعی طور پر توبہ کرلیں ورنہ کیڑے مکوڑوں سے وہ بچ نہیں پائیں گے اورانہیں تاحینِ حیات لقمہ وجرعہ بنائیں گے۔ آپ کہیں گے کہ یہ ہم کیا کہہ رہے ہیں ،کہیں جذبات کے ریلے میں تونہیں بہہ رہے ہیں۔حضور !سچ تویہ ہے کہ انسان اَلابلا کھانے پرمجبور ہیں۔جیتی مکھی انسان نگل نہیں سکتامگر انجانے میں سینکڑوں جرثومے چٹ کر جاتاہے۔اب دیکھئے نا!سبھی ایرے غیرے دَہی کو بڑی رغبت سے کھاتے ہیں اوراسے بصدشوق جزوِغذا بناتے ہیں۔واللہ!وہ اگر خوردبینی آنکھ سے دہی کو دیکھ لیں تومارے کراہیت کے اُبکائیاں لینے پر مجبور ہوجائیں۔دَہی کے ایک قتلے میں ہزاروں جرثومے کلبلاتے نظر آئیں گے اوربالائی کیا ہوگی،مَرے ہوئے جراثیم کی لاشوں کی پَرت ہوگی۔کان کھول کر سن لیں کہ اگر ہم سانس لیتے ہیں توبہت سے ذِی روح ہمارے جسم میں گھس کر رنگ رلیاں مناتے ہیں اور اگر ہم ایک گھونٹ پانی پیتے ہیں توسینکڑوں جرثومے حلق سے شکم تک پہنچ جاتے ہیں۔ ارے جھوٹے کامنہ کالا۔تجربہ کرلیں آزمائش شرط ہے۔سوئی کی نوک پر پانی کی ایک ننھی سی بوند لیں اورپھر خور دبین سے اسکا مشاہدہ کریں۔ آپ کے ہوش فاختہ اور حواس باختہ ہو جائیں گے۔دیکھئے!علامہ اقبال کہہ رہے ہیں :
تو ہما کا ہے شکاری ابھی ابتدا ہے تیری
حضرات!ہمیں یہ بتائیں کہ جنگل کے راجہ کو یہ حق کس نے دِیا کہ وہ دوسرے معصوم جانوروں کی جان لے اور شیر کی خالہ کو یہ اختیارکہاں سے ملا کہ وہ بے چاری چوہوں کو ناشتہ بنائے۔بگلے کویہ اجازت نامہ کس نے دِیا کہ وہ چن چن کر مچھلیاں کھائے؟ سوالات یقیناً اوٹ پٹانگ ہیں مگر آپ کو جواباً کہنا پڑے گا کہ یہِ ان کی غذائے فطری ہے۔ گوشت ان کی جبلت ہے اور مشہور ہے کہ
جبل گرد د جبلت نہ گردد
توہم بھی بیانگِ قلم یہ اعلان عظیم الشان کرتے ہیں کہ غذائے لحمی ہمارے لیے بھی خوراک فطری ہے بلکہ ہم تویہاں تک کہنے کے روادار ہیں کہ خوراکِ ذہنی ہے۔خدا گواہ ہے کہ ہمارے دستر خوان پر اگر ازاشیائے لحم کچھ نہ ہو توہم پوری طرح شکم سیر نہیں ہوپاتے اور جسم وجان کے اندرون میں ایک خلا محسوس کرتے ہیں یعنی ’گوشت ہے تو جہان ہے پیارے‘
گدھاگھاس پھونس کھاتا ہے توجی بھر کے کھائے ہماری بلا سے اور ہاتھی گنے چوستا ہے توچوسے ہمارے ٹھینگے سے۔ہمیں کیا پریشانی ہے۔خدا توشکر خورے کو بھی شکر سپلائی کرتا ہے اورپتھرکے کیڑے کوبھی اس کی من بھاتی غذا فراہم کرتاہے۔اشرف المخلوقات کے لیے بھی کہا گیا ہے کہ’وترزق من تشا بغیر حساب۔‘
گوشت خوروں کے لیے بھی بے شمار بکرے،بھینس،مرغ،مرغابی ،تیتربٹیروغیرہ اس کی نوازشات میں شامل ہیں۔میاں!جو نافرمان قومِِ یہود کی من وسلویٰ سے ضیافت کر سکتا ہے وہ امتِ وسط کے رزق میں کیسے کمی آنے دے گا۔سرِ راہ چلتے چلتے یہ بھی ذہن نشین کرلیں کہ مسلم ولحم لازم وملزوم ہیں۔
اسی ضمن میں یہ لطیفۂ لحم بھی ملاحظہ کرلیں کہ بھوکے پیاسے ایک پٹھان اپنے گھر میں گھسے تواپنی بیوی سے ازراہِ تکلف پوچھا۔’’ارے بھئی!کیاپکایاہے ؟‘‘
بیوی غصے میں بھری بیٹھی تھی جھنجھلا کر مختصرسا جواب دیا’’خاک‘‘
خاتونِ خانہ کایہ جواب سن کر خان صاحب جِزبِز توہوئے مگر فوراًبول اْٹھے:
’’اخاہ!خاک یعنی خاک کا اْلٹا کا خ،کاخ کے معنی محل،محل کا اْلٹا لحم،لحم یعنی گوشت لاؤ دستر خوان بچھاؤ،بہت بھوک لگی ہے۔‘‘
اُردو زبان کے عالمی مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی نیایک جگہ اس صورتِ حال کا اس طرح تجزیہ کیاہے۔
’’میں دال اور سبزی اس لئے کم کھاتا ہوں کہ ہفتے میں تین چا ربار دال یا سبزی کھالوں تونہ جانے کیوں خدا کو بھگوان کہنے کو دل کرنے لگتاہے۔‘‘
یوسفی اپنے اسلوب میں بہت گہری بات کہہ گئے ہیں ہم بھی کہہ دیں کہ:
جانتا ہوں میں دال بھی کھانا
پر طبیعت اِدھر نہیں آتی
No world without meat. Humorous Article: Mukhtar tonki
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں