دہلی میں جشن ریختہ - ہندوستانی سامعین کے شعری ذوق کو داد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-03-16

دہلی میں جشن ریختہ - ہندوستانی سامعین کے شعری ذوق کو داد

Jashn-e-Rekhta-Urdu-Festival-in-Delhi
نئی دہلی
پی ٹی آئی
اردو کے ممتاز شاعر ساہیتہ اکیڈیمی ایوارڈ یافتہ سید منور علی رانا نے کہا ہے کہ مشاعروں کو جو کبھی مغلیہ تہذیب کا لازمی حصہ ہوا کرتے تھے اب سیاسی رنگ دے دیا گیا ہے اور ووٹس حاصل کرنے کے لئے مشاعروں کو استعمال کیاجارہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اب وزراء صاحبان مشاعرے منعقد کررہے ہیں تاکہ اپنی جھولی میں ووٹ سمیٹیں ۔ اس طرح شاعری سختی گیری کی مظہر ہوگئی ہے اور اب وہ معیار باقی نہیں رہا۔63سالہ رانا یہاں’’جشن ریختہ‘‘ میں شرکت کے لئے آئے ہین ۔ زبان اردو سے متعلق یہ دو روزہ جشن کل شروع ہوا ۔ رانا، اپنی غزلوں کے لئے اور بالخصوص اپنی نظموں میں ماں کی تعریف کے لئے جانے جاتے ہیں ۔ ساہتیہ اکیڈمی نے اردو شاعری کے لئے ان کی خدمات پر انہیں ایوارڈ سے نوازا ہے ۔ جشن ریختہ میں صحافی رویش کمار نے مشاعروں کی بدلتی ہوئی اشکال پر توجہ مرکوز کی اور اور گزشتہ برسوں کے دوران ان کے ارتقاء پر سنجیدہ انداز میں اظہار خیال کیا۔ مذاکراہ میں پاکستانی شاعر علی اکبر ناطق نے حصہ لیتے ہوئے پاکستان کے مشاعروں اور ہندوستان کے مشاعروں کے درمیان بین فرق کی نشاندہی کی اور کہا کہ’’ہندوستان میں مشاعروں کے بارے میں جب لوگوں (اہل ذوق) کو علم ہوتا ہے تو وہ کھنچے کھنچے چلے آتے ہیں تاہم اگر پاکستان میں لوگوں کو مشاعروں کے بارے میں علم ہو تو وہ راہ فرار اختیار کرتے ہیں یا باالفاظ دیگر بھاگ جاتے ہیں ۔(گویا) مشاعروں میں شامل ہونا نہیں چاہتے۔‘‘ منور رانا نے بھی وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ مشاعروں کی بدلتی معیشت کا تذکرہ کیا اور کہا کہ مشاعرے اب ایک پیشہ بن گئے ہیں۔ مارکٹنگ کے سبب مشاعروں کے معیار میں انحطاط آگیا ہے ۔ حکومت اگر آج مشاعروں کے انعقاد پر امتناع عائد کردے تو تمام شعراء بیروزگار ہوجائیں گے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ مشاعرے ایک پیشہ بن گئے ہیں ۔ جشن ریختہ کے حصہ کے طور پر منعقدہ مشاعرے مین ہال، سامعین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا ۔ معروف شاعر ستیہ پال آنند نے بھی شرکت کی اور ایک نیلامی کارروائی پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ ٹورنٹو ، لندن، لاس اینجلس اور نیویارک جیسے شہروں میں کلام سنانے سے قبل شعراء کی گویا جانچ کی جاتی ہے ۔ کسی شاعر کے دورے سے قبل ہی اس کی کارکردگی کے معیار کا تعین کیاجاتا ہے ۔ وہ شاعر کم اور گلوکار زیادہ ہوتے ہیں اور بیرون ملک مجھے یہ صورتحال دیکھ کر دلی تکلیف ہوئی ۔ ستیہ پال آنند اپنی آنجہانی بیوی کی یاد میں کلام سناتے ہوئے رو پڑے۔

Jashn-e-Rekhta begins celebration of Urdu in Delhi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں