میری دعا ہے تیری آرزو بدل جائے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-02-20

میری دعا ہے تیری آرزو بدل جائے

help-yourself-by-helping-others
10 فبروری 2015 صبح سے ہی نظریں ٹیلی ویژن پر جمی ہوئی تھی ۔ یکے بعد دیگرے دہلی اسمبلی الیکشن کے نتائج آنا شروع ہوگئے ۔ ابتدائی رجحان سے ہی پتہ لگ رہا تھا کہ عام آدمی پارٹی کو سبقت مل رہی ہے ۔ اور وہ اپنے بل پر اکثریت حاصل کرلے گی ۔ دوپہر کے آتے آتے نتائج واضح ہوچکے تھے کہ دہلی اسمبلی انتخابات میں اروند کجریوال نے بی جے پی کو چاروں خانے چت کرتے ہوئے شاندار تاریخ رقم کی ۔
عام آدمی پارٹی کی جیت پر ہر کوئی تبصرہ کررہا تھا ، کسی نے کہا کہ بی جے پی حکومت کا 9 مہینے میں ہی زوال شروع ہوگیا ، کسی نے مودی پر طنز کرتے ہوئے لکھا کہ بی جے پی کا ہنی مون اپنے اختتام کو پہنچ گیا ، کسی نے مودی کا کارٹون بنادیا اور کسی نے طنزیہ اشعار لکھ کر اپنی بھڑاس نکالی اور مسلمان بہت سارے ایسے تھے جنہوں نے اطمینان کی سانس لی کہ چلو ہماری دعائیں اثر کرنے لگی ہیں اور اب مودی کا زور ٹوٹنے لگا ہے ۔ کیا واقعی اب ملک کے مسلمانوں کو اطمینان سے آرام کرنا چاہئے ؟
میری دانست میں دہلی اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی شکست سے اس بات کا ثبوت ملا ہے کہ اگر مسلمان اور سیکولر ہندوستانی دانشمندی کا ثبوت دیں تو بی جے پی جیسی جماعت کو شکست دی جاسکتی ہے ۔ اروند کجریوال نے 9 مہینوں میں ثابت کیا کہ بی جے پی ناقابل شکست نہیں ہے ۔
لیکن جو مسلمان یہ سوچ کر ہی خوش ہیں کہ بی جے پی ایک سیاسی جماعت ہے اور سیاست میں سیاسی جماعتیں بی جے پی کو شکست سے دوچار کرسکتی ہیں تو یہ دور حاضر کی سب سے بڑی اور سب سے فاش غلطی ہوگی ۔
بی جے پی بھی خود وقتاً فوقتاً اس بات کا اعتراف کرتی رہتی ہے کہ اس کا تعلق ایک ایسی تنظیم سے ہے جو ملک کو ہندو راشٹرا بنانا چاہتی ہے اور ہندوستان میں رہنے والے سبھی شہریوں کو ہندو متصور کرتی ہے ۔
جی ہاں ، آر ایس ایس اپنے ایجنڈے پرعمل کرنے کے لئے کئی سطحوں پر کام کررہی ہے اور بی جے پی اس کا سیاسی بازو ہے ۔ اب بھی اگر ہم بی جے پی کو صرف ایک سیاسی جماعت سمجھیں تو یہ ایک غلطی ہے جیسے کسی چیز کو جب آپ بیماری اور مسئلہ سمجھتے ہیں اس کی صحیح تشخیص ہی اس کے علاج کی سمت اٹھایا جانے والا پہلا قدم ہے اور علاج کے نام پر اٹھایا جانے والا پہلا قدم ہی غلط ہو تو علاج سے فائدے کی توقع تو فضول ہے ساتھ ہی مرض میں مزید شدت پیدا ہونے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں ۔
آر ایس ایس کے خطرے سے نمٹنے کے لئے تو اروند کجریوال نے صرف طریقہ بتلایا ہے کہ میدان سیاست میں آر ایس ایس کے بازو کو شسکت دی جاسکتی ہے ۔ اب زندگی کے تمام شعبہ حیات میں تو سیاسی جماعتیں دخل نہیں کرسکتی اور وہ ان کے دائرے کار کی بات نہیں ہے ۔
ہندوستان کی دوسری بڑی اکثریت (یعنی مسلمانوں) کو اپنا احتساب کرنا اس لئے ضروری ہے کہ دہلی اسمبلی انتخابات میں مسلمان اگر سیاسی دانشمندی کا ثبوت دیتے تو بی جے پی کو دہلی اسمبلی میں تین سیٹس بھی نہیں ملتی ۔
بی جے پی نے دہلی میں جو تین اسمبلی حلقوں میں کامیابی حاصل کی ہے اس میں سے ایک حلقہ مصطفی آباد کا ہے جہاں مسلم رائے دہندوں کی اکثریت ہے ۔ اس حلقہ میں مسلم ووٹ اس بری طریقے سے تقسیم ہوگیا کہ بی جے پی کے امیدوار جگدیش پردھان کو کامیابی مل گئی ۔ ووٹوں کا تفصیلی تجزیہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس حلقہ میں کانگریس نے بھی مسلمان امیدوار حسن احمد کو میدان میں اتارا اور عام آدمی پارٹی نے بھی محمد یونس کو ٹکٹ دیا ۔ مسلمان رائے دہندے متعلقہ فیصلہ نہیں کرسکے ، کانگریس اور عاپ کے درمیان ووٹوں کی تقسیم کا فائدہ بی جے پی کو ہوا ، یوں دہلی اسمبلی میں بی جے پی کو ایک سیٹ کا فائدہ ہوگیا ورنہ وہ صرف دو حلقوں تک محدود ہوجاتی ۔
صرف میدان سیاست میں ہی نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبہ میں مسلمانوں کو حد درجہ احتیاط کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ اور یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ ہندوستانی مسلمان سیکولر ہندوستانی شہریوں کے ساتھ ہی مل کر آگے بڑھ سکتا ہے۔
محمد فاروق شبلی وجئے واڑہ کے رہنے والے ہیں ،فیس بک کے ذریعہ ان سے تعارف ہوا اور ان کی سرگرمیوں سے واقفیت ہوئی ۔ جب میں نے فون پر ان سے بات کی تو اس نوجوان نے اپنے تجربات کی بنیاد پر ملک کے مسلمانوں کے لئے بڑے پتے کی بات کہی ۔ ان کا کہنا تھاکہ بی جے پی جیسی فرقہ پرست جماعت کوشکست دینے کے لئے صرف سیاسی شعور نہیں بلکہ سماجی طور پر مسلمانوں کو متحد اور باشعور ہونے کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔ فاروق شبلی کے مطابق مسلمان جانے انجانے میں غیر مسلموں کو تکلیف دے کر ان کے دلوں میں غیر ضروری طور پر بی جے پی کے لئے ہمدردی کے جذبات پیدا کررہے ہیں ۔
ان سے جب دریافت کیا گیا آخر کس طرح وہ مسلمانوں پر اس بات کا الزام عائد کرسکتے ہیں کہ وہ لوگ انجانے میں غیر مسلموں کو تکلیف دے رہے ہیں اور بی جے پی کے لئے ہمدردی پیدا کررہے ہیں ۔ محمد فاروق شبلی جو کہ وجئے واڑہ میں ایک غیر سرکاری تنظیم یوتھ ویلفیر کے نام سے چلاتے ہیں کہا کہ رمضان المبارک کے دوران کچھ عرصہ سے مسلم انجمنیں اور مخیر افراد غریب مسلمانوں کو راشن اور ضروری اشیاء مفت تقسیم کرنے کا سلسلہ شروع کررکھے ہیں اور عام طور پر غریب لوگ غریبوں کی بستی میں رہتے ۔ امیروں کی طرح ان کے مسلم محلے یا غیر مسلم محلے نہیں ہوتے ۔ ایسے میں غریب مسلمان کی تلاش میں مسلمان مخیر حضرات اور ولنٹیرس غریب بستیوں کا رخ کرتے ہیں اور وہاں پر مسلمانوں کو ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر ان لوگوں کو راشن اور اشیائے ضروریہ پہنچائی جاتی اس ریلیف کے دوران تصاویر بھی کھینچی جاتی ہیں ، یوں مسلمانوں کا وہ پڑوسی جو غریب تو ہے مگر مسلمان نہیں حسرت و افسوس کی تصویر بن جاتا ہے اور غیر ضروری طور پر غریب غیر مسلموں کے دلوں میں مسلمانوں کے تئیں ناخوشگوار جذبات کروٹ لینے لگتے ہیں اور غلط فہمیوں کی دیوار کھڑی ہونے لگتی ہے۔
محمد فاروق شبلی کے مطابق غریب مسلمان بعض اوقات تقسیم کرنے والے مسلم والنٹیئرس کو بتاتے ہیں ہمارے پڑوسی غریب ہیں مگر مسلمان نہیں ، ان کو اگر امداد یا کھانا دے دیا جائے تو ہماری طرح ان کی بھوک بھی مٹ سکتی ہے تو کوئی بھی تنظیم اپنی رمضان کی امداد اور غریبوں کے کھانا کھلانے کے پروگرام میں غیر مسلم کو شامل ہی نہیں کرنا چاہتا ۔ یوں مسلمانوں کی جانب سے کیا جانے والا ایک فلاحی کام بھی پوری مسلم قوم کے متعلق ہندوؤں کے دلوں میں نفرت اور دوری پیدا کرنے کا سبب بن جاتا ہے ۔
محمد فاروق شبلی سے جب یہ سوال کیا گیا کہ جناب یہ تو آپ کا الزام تھا ، شکایت تھی جو آپ کو مسلمانوں سے ہے ، آپ جب مسلمانوں کے درمیان ایک خرابی کو دیکھ رہے ہیں تو اس خرابی کو دور کرنے کے لئے آپ خود کیا کررہے ہیں ، اس سوال کے جواب میں فاروق شبلی نے بتایا کہ اول تو انھوں نے ہندو مسلم نوجوانوں کی ایک این جی او بنائی اور ایک دوسرے قوم کی تکالیف اور خوشیوں کو بانٹنے کا پلیٹ فارم تشکیل دیا ۔
اب رمضان المبارک کے دوران راشن کے پیکٹس تقسیم کئے جاتے ہیں تو صرف غریب مسلمانوں کو ہی نہیں انکے غریب ہندو پڑوسیوں کو بھی دیئے جانے لگے ۔ مسلمان اپنی عیدوں پر غیر مسلموں کی تواضع کرنے لگے اور غیر مسلم اپنی عیدوں پر مسلمانوں کو خوشی سے مدعو کرنے لگے ۔
محمد فاروق شبلی کی باتیں تو سننے میں بڑی بھلی لگ رہی تھی ان کی بات کو درمیان میں ٹوکتے ہوئے جب میں نے پوچھا کہ ان کے اس سماجی خدمت کے پروگرام میں کیا ہندو بھی شریک ہیں یا وہ صرف مسلمانوں سے چندہ کرکے غیروں کی مدد کرتے ہیں اور اپنی تصویر شائع کرتے ہیں ؟ اس سوال پر محمد فاروق شبلی نے بتایا کہ ابھی پچھلے دنوں انھوں نے گنٹور کے دینی مدرسہ جامعہ مصباح الھدی میں زیر تعلیم بچوں کو 25 ہزار کے مالیتی کپڑے حوالے کئے اور مدرسہ کے غریب بچوں کو کپڑوں کا تحفہ کسی مسلمان نے نہیں بلکہ وجئے واڑہ شہر کے ایک بینک منیجر نے دیا ۔ سرینواس شرما نامی صاحب نے اپنے پوتے کی سالگرہ کے موقع پر فاروق شبلی سے رابطہ کیا اور کہا کہ وہ غریب مسلمانوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں انھیں جب دینی مدرسہ کے بچوں کے لئے کپڑے دینے کی تجویز پیش کی گئی تو انھوں نے اس کو بخوشی قبول کرلیا ۔
فاروق شبلی کے مطابق عید میلاد النبی کے موقع پر ان کی تنظیم نے وجئے واڑہ شہر میں خون کے عطیہ کا ایک کیمپ منعقد کیا اور اس موقع پر مسلمانوں کی خاصی تعداد نے اپنے خون کا ضرورت مند مریضوں کو عطیہ دیا ۔ اس پروگرام کا کیا مقصد تھا اس سوال پر انھوں نے بتایا کہ مسلمانوں کی غفلت کے سبب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی شخصیت کے متعلق غیر مسلمین میں معلومات ہی نہیں ہیں ۔ عید میلاد النبیؐ کے موقع پر خون کا عطیہ دیتے ہوئے مسلمانوں نے دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو یہ سبق دینے کی کوشش کی کہ مسلمان ضرورت مند لوگوں کی مدد کے لئے ہمیشہ آگے ہوتا ہے ۔ مسلمان صرف مسلمان کی ہی نہیں بوقت ضرورت ہر ایک کی مدد کرتا اور اس کا خیال رکھتا ہے ۔
شہر وجئے واڑہ میں 2 فبروری 2015 کو ایک مسلمان لڑکی کی شادی کی تقریب منعقد ہوئی ۔ شادی کی اس تقریب میں اندازاً ڈھائی ہزار لوگ شریک تھے اور ان ڈھائی ہزار دعوتیوں میں سے بیشتر دعوتی غیر مسلم تھے ۔ کسی نے جب لڑکی کے والد سے پوچھا کہ ارے کیا جناب آپ کی لڑکی کی شادی میں اتنے غیر مسلم تو انھوں نے جواب دیا کہ بھیا آپ تو جانتے ہیں کہ یہ لوگ میرے پڑوسی ہیں ۔ تو کیا میں اپنے پڑوسیوں کو صرف اس لئے دعوت نہیں دوں کہ وہ ہند ہیں ، میں تو ہندو پڑوسی کے بغیر اپنی کسی دعوت کا تصور نہیں کرسکتا ہوں ۔ صرف وجئے واڑہ شہر میں ہی نہیں بلکہ جہاں جہاں آر ایس ایس اور بی جے پی کے جراثیم نہیں پھیلے وہاں ہندو اور مسلمان مل جل کر رہتے ہیں ۔
اخبار ٹائمز آف انڈیا نے 4 فبروری 2015 کو ایک خبر دی کہ میرٹھ شہر میں ایک مسلم رکشہ چلانے والے نے ایک 3 برس کی ہندو لڑکی کی جان بچانے کے لئے اپنے ایک گردے کا عطیہ دینے کی پیشکش کی ۔ حسب روایت اخبار والوں نے پوچھ بھی لیا کہ انور خان (رکشہ چلانے والے کا نام) آپ تو مسلمان ہیں اور وہ لڑکی ہندو تو پھر آپ کیوں اس لڑکی کو اپنے گردے کا عطیہ دے رہے ہیں تو انور خان کہتا ہے کہ لڑکی مسلمان نہیں ہوئی تو کیا ہوا ، تین سال کی عمر میں اس نے گناہ بھی کونسا کیا ہوگا ۔ میں تو ضرورت مند کی مدد کرنا چاہتا ہوں ، مذہب مجھے اس طرح کے کام سے روکتا بھی نہیں ۔
مسلمانوں کی اہم ضرورت یہ ہے کہ وہ عام ہندوؤں سے بلکہ اپنے پڑوسیوں سے بات کریں پھر چاہے ان کا مذہب کچھ بھی ہو ۔ صرف آپ کا اپنے آپ کو اچھا سمجھ لینا اور اپنے آپ کو اپنی ہی بنائی ہوئی چار دیواری میں قید کرلینا دانشمندی نہیں ۔ پھر آپ مسلمان ہیں تو آپ پر امت محمدیؐ ہونے کے ناطے یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پیغام اور اللہ کی کتاب کو دوسروں تک پہنچانے کی بھی تو ذمہ داری ہے ۔ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے ؟
صرف جلسے جلوسوں پوسٹرس اور رسمی ملاقاتیں نتیجہ خیز نہیں ہوتی ۔ عمل سے خیر کی تبلیغ اور اسلام کی دعوت آج بھی ضرورت ہے ۔ میدان سیاست میں سرگرم عمل حضرات اپنی ذمہ داریاں بخوبی جانتے ہیں ۔ ہمیں بھی یہ جان لینا ضروری ہے کہ آر ایس ایس کے خلاف جو نظریاتی جنگ ہے تو اس میں زندگی کے ہر شعبے میں مقابلہ کرنا ہوگا ۔ فرشتوں کی جماعت کا انتظار وقت کا ضیاع ہوگا ۔ آر ایس ایس اور بی جے پی نے ہندوؤں سے ان کے مذہب کی دہائی دے کر ووٹ مانگا اور ہندوؤں کی اکثریت نے انھیں مسترد کردیا ۔ اب مسلمانوں کو سوچنا ہوگا کہ وہ اپنا ووٹ کس کو دیتے ہیں ۔ صرف ووٹ ہی نہیں بلکہ اپنے ہر عمل سے اپنی دانشمندی کا ثبوت دینا ہوگا ۔ ہم تو اپنے لئے اور امت مسلمہ کے ہر فرد کے لئے دعاگو ہیں کہ اے مالک تو بدل دے ہماری تقدیر کو مگر علامہ اقبال کا یہ شعر ہمیں سبق دے رہا ہے ۔ ہماری دعائیں صرف آرزوؤں کیلئے ہی نہ ہو ۔
تری دعا ہے کہ ہو تیری آرزو پوری
میری دعا ہے تیری آرزو بدل جائے

***
پروفیسر مصطفیٰ علی سروری
اسوسی ایٹ پروفیسر ، ڈپارٹمنٹ آف ماس کمیونکیشن اور جرنلزم ، مولانا آزاد اردو یونیورسٹی ، حیدرآباد۔
sarwari829[@]yahoo.com
موبائل : 9848023752
مصطفیٰ علی سروری

Helping the needy irrespective of their religion. Article: Prof. Mustafa Ali Sarwari

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں