ممتاز اردو شاعر کلیم عاجز کا انتقال - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-02-16

ممتاز اردو شاعر کلیم عاجز کا انتقال

Kalim-Ajiz
کلاسیکی لب و لہجہ کے عالمی شہرت یافتہ شاعر کلیم عاجز کا آج صبح جھارکھنڈ کے شہر ہزاری باغ میں انتقال ہوگیا۔ ان کی عمر 95 برس تھی۔ان کی آخری رسومات بہار کے دارالحکومت پٹنہ میں ادا کی جائے گی۔
عہد حاضر میں میر تقی میر کی روایت کے امین ڈاکٹر کلیم احمد عاجز بہار کے نالندہ ضلع کے تلہارا گاوں میں 1920میں پیدا ہوئے۔انہوں نے پٹنہ کالج سے گولڈ میڈل کے ساتھ بی اے کیا اور پھر پٹنہ یونیورسٹی سے اردو میں ماسٹرس کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے بہار میں اردو ادب کا ارتقاء کے موضوع پر پٹنہ یونیورسٹی سے ہی ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔انہوں نے پٹنہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں ایک عرصے تک پروفیسر کے طور پر خدمات انجام دیں۔
کلیم عاجز کلاسیکی لب و لہجہ کی شاعری کے لئے جانے جاتے ہیں۔ مشہور شاعر فراق گورکھ پوری بھی ان کے قدردانوں میں شامل تھے۔ فراق نے کلیم عاجز کے پہلے مجموعہ کلام جب فصل بہاراں آئی تھی کے رسم اجراء کے موقع پر اپنے آڈیو پیغام میں کہا تھا کہ کلیم عاجز جس سادگی سے اپنے خیالات کو اشعار کے قلب میں ڈھال دیتے ہیں اسے دیکھ کر انہیں ان کے کلام پر رشک آتا ہے۔فراق نے جو ان دنوں بستر علالت پر تھے ، اپنے پیغام میں مزید کہا تھا کہ وہ جب بھی کلیم عاجز کو کلام پڑھتے ہوئے دیکھتے ہیں تو وہ خود اپنا کلام بھول جاتے ہیں۔
َخیال رہے کہ کلیم عاجز کے پہلے مجموعہ کلام کا اجراء 1976 میں راشٹرپتی بھون میں ہوا تھا۔
کلیم عاجز کو ان کی ادبی خدمات کے لئے 1989میں حکومت ہند نے باوقار پدم شری ایوارڈ سے نوازا تھا۔ اس کے علاوہ بھی انہیں متعدد ایوارڈ اور اعزازات مل چکے ہیں۔ ان میں امتیاز میر ایوارڈلکھنؤ، مولانا مظرالحق ایوارڈحکومت بہار اور بہار اردو اکاڈمی ایوارڈ شامل ہیں۔ انہیں امریکہ کے اوکلاہوما ریاست کی اعزازی شہریت بھی دی گئی تھی۔
کلیم عاجز ایک عرصے تک دنیا بھر میں ہونے والے مشاعروں میں شرکت کرتے رہے تاہم گذشتہ دس پندرہ برس سے انہوں نے مشاعروں میں شرکت کرنا چھوڑ دیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود وہ دنیا بھر کا سفر کرتے رہتے تھے۔وہ بہار میں تبلیغی جماعت کے امیر بھی تھے۔
وہ جو شاعری کا سبب ہوا نام سے انہوں نے اپنی مختصر سوانح حیات لکھی ہے جس میں مختلف واقعات و حادثات کا ذکر ہے۔انہوں نے لکھا ہے کہ 1946کے فرقہ وارانہ فسادات میں انہیں اپنی والدہ ، چھوٹی بہن اور متعدد رشتہ داروں کے قتل کا غم جھیلنا پڑا۔وہ لکھتے ہیں کہ انہوں نے 26 اکتوبر 1946کو اپنی والدہ اور چھوٹی بہن سے آخری بار ملاقات کی تھی اور اس کے صرف دس دنوں بعد5 نومبر 1946 کو عیدالاضحی کے روز ان دونوں کا قتل کردیا گیا ۔
ڈاکٹر کلیم عاجز کی حیات و خدمات پرمتعدد کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں اور ایک درجن سے زائد ریسرچ اسکالر ان پر تحقیق کررہے ہیں۔
ان کی تخلیقات کے نام درج ذیل ہیں۔
وہ جو شاعری کا سبب ہوا
جب فصل بہاراں آئی تھی
پھر ایسا نظارہ نہیں ہوگا
جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی
ابھی سن لو مجھ سے
کوچہ جانان جاناں
مجلس ادب
دیوانے دو
میری زبان میرا قلم
دفتر گم گشتہ
یہاں سے کعبہ، کعبہ سے مدینہ
ایک دیس ایک بدیسی

Urdu poet Kalim Ajiz passes away

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں