کسب و معاش اور اسوۂ نبوی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-02-13

کسب و معاش اور اسوۂ نبوی

Livelihood-Economics
اللہ عزوجل نے اپنے تمامی انبیاء ورسل کو حکم دیا کہ وہ پاکیزہ اور حلال رزق کے کھانے کا اہتمام کریں، " یا أیھا الرسل کلوا من الطیبات " (المؤمنون : 51)اس لئے ہر عہد میں ہر نبی نے کسب حلال سے اپنے رزق روٹی کا نظم کیااور اس کے مختلف قسم کے طریقے اپنائے ، نبی آخر الزمان ، احمد مجتبی ، محمد مصطفی ا نے بھی مذکور ہ ارشادِ ربانی اور دستورِ خداوندی کے بموجب حلال او راطیب رزق کو اختیار کیا، یہی وجہ ہے کہ کبھی آپ دایہ حلیمہ کے بکریاں چراتے نظر آتے ہیں کبھی اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ بغرضِ تجارت ملک شام کے اسفار پر رواں دواں ہیں، کبھی حضرت خدیجۃ الکبری کا مال بطور مضاربت لے ملک شام رخصت سفر باندھ رہے ہیں تو کبھی چند قیراط کے عوض اہل مکہ کی بکریاں بھی چرا رہے ہیں ،رزق حلال کے حصول کے لئے حضور اکرم ا کا یہ طریقِ عمل ہے ، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ : آدمی اپنے ہاتھوں کی کمائی سے بہتر کوئی چیز نہیں کھاتااور اللہ کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھوں کی کمائی سے کھاتے تھے (السنن الکبری للبیہقی: باب کسب الرجل وعملہ بیدیہ،حدیث:12025)

آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا شغل تجارت
آپ (صلی اللہ علیہ وسلم)نے پیشہ تجارت کو اپنایااور دوسروں کے ساتھ شریکِ تجارت بھی رہے، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) شریک لوگوں کے ساتھ بہترین رویہ رکھا، ہر وعدہ اور عمل کی تکمیل فرمائی ۔
*حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ بن ابی الحمسا فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آپ کی بعثت سے قبل کوئی چیز خریدی اس کی کچھ قیمت میرے ذمہ واجب الادا تھی تو میں نے آپ سے وعدہ کرلیا کہ کل آپ کو یہیں اسی جگہ لا کردوں گا پھر میں بھول گیا تین روز کے بعد مجھے یاد آیا تو میں دوڑ کر آیا تو دیکھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم)پنی اسی جگہ(موعد) پر موجود ہیں آپ نے فرمایا کہ اے جوان تو نے مجھ پر بڑی مشقت ڈال دی میں یہاں پر تین روز سے تیرے انتظار میں ہوں(ابوداؤد: باب فی العدۃ، حدیث:4998)
*حضرت سائب نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا زمانہ جاہلیت میں آپ (صلی اللہ علیہ وسلم)میرے شریک تھے۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم)بہترین شریک تھے نہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم)مجھ سے مقابلہ کرتے تھے نہ جھگڑتے تھے۔(سنن ابن ماجۃ: باب الشرکۃ والمضاربۃ، حدیث:2287)
*آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے حضرت قیس بن سائب رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی تجارت میں شرکت فرمائی ، وہ بھی فرماتے ہیں کہ: آپ بہترین شریک تھے ، نہ جھگڑتے تھے ، نہ کسی قسم کا مناقشہ کرتے تھے (شعب الایمان، حدیث:6836)
*حضرت خدیجہ بنت خویلد کے ساتھ بھی آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) عقد مضاربت پر تجارت فرمائی، سفرِ تجارت میں حضرت خدیجہ کے غلام میسرہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ہم رکاب تھے ، انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اوصاف حمیدہ اور بلند اخلاق وکردار کا مشاہدہ فرمایا اور واپسی پر وہ روداد سفر بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: ایک صاحب نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے کہا: لات وعزي کی قسم کھاؤ! تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم)نے فرمایا :میں نے لات وعزی کی قسم کبھی نہیں کھائی، یہ سن کر وہ صاحب کہنے لگے: یہ نبی آخر الزمان کی نشانی اور علامت ہے اور یہی سفر عقد مسنو کا سبب ہوا۔

تاجر کن اوصاف کے حامل ہوں؟
آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے نہ صرف یہ کہ پیشۂ تجارت کو اختیار کیاہے ؛ بلکہ اپنی امت کے تاجروں کے لئے تجارت کے رہنما اصول بھی بتلائے ہیں :
* تقوی :اسماعیل بن عبید بن رفاعہ اپنے والد اور وہ ان کے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ عیدگاہ کی طرف نکلے تو دیکھا کہ لوگ خرید وفروخت کر رہے ہیں آپ نے فرمایا اے تاجر وہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف متوجہ ہوئے اپنی گردنیں اٹھالیں اور آپ کی طرف دیکھنے لگے فرمایا تاجر قیامت کے دن نافرمان اٹھائے جائیں گے البتہ جو اللہ سے ڈرے نیکی کرے اور سچ بولے(ترمذی: والتجار وتسمیۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، حدیث:1210)
*سچائی ودیانت داری :حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا سچا اور امانت دار تاجر قیامت کے دن انبیا، صدیقین اور شہدا کے ساتھ ہوگا۔(ترمذی: التجار وتسمیۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ،حدیث:1209)دونوں روایتوں میں تاجرو ں کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ امانت داری اور سچائی کو اختیاری کریں اور ایسے تاجروں کو آخرت کی وعیدوں سے خارج کر کے انبیاء صدیقین وشہداء کی فہرست میں شمار کیا گیا ہے
*نرمی اور حسن اخلاق : حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزارعت سے منع نہیں کیا بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ نرمی کا حکم دیا (سنن الترمذی: باب من المزارعۃ،حدیث:1385)
*ادائیگی میں بہتری: ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تقاضا کرنے کے لئے آیا، اور شدت اختیار کی، صحابہ نے اسے مارنا چاہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس کو چھوڑ دو، جس کا حق ہوتا ہے وہ اسی طرح گفتگو کرتا ہے، پھر فرمایا: کہ اس کی عمر کا اونٹ دیدو، لوگوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی عمر کا تو نہیں لیکن اس سے زیادہ کا ہے آپ نے فرمایا وہی اس کو دے دو، تم میں بہتر وہی شخص ہے جو اچھے طور پر قرض کو ادا کرے۔(بخاری: باب الہبۃ المقبوضۃ، حدیث:2465)
*تول میں جھکاؤ:حضرت سوید بن قیس سے روایت ہے کہ میں نے اور مخرفہ عبدی نے ہجر (ایک مقام کا نام) سے بیچنے کے لیے کپڑا خریدا پھر ہم اس کو مکہ میں لائے اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پاپیادہ تشریف لائے آپ نے ہم سے ایک پاجامہ کا سودا کیا تو ہم نے اس کو آپ کے ہاتھ فروخت کر دیا اس جگہ ایک شخص مزدوری پر تول رہا تھا۔ آپ نے اس سے فرمایا تو تول لیکن ذرا جھکتا ہوا تول۔(سنن الترمذی: الرجحان فی الوزن، حدیث:1305)۔
* صبح سویرے بیداری: حضرت صخر غامدی بیان کرتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا فرمائی اے اللہ میری امت کے صبح کے کاموں میں برکت عطا فرما۔ (راوی کہتے ہیں) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کوئی مہم روانہ کرتے تھے تو اسے دن کے ابتدائی حصے میں روانہ کیا کرتے تھے۔ راوی کہتے ہیں یہ صاحب یعنی اس حدیث کے راوی حضرت صخر غامدی تاجر آدمی تھے وہ اپنے ملازمین کو دن کے ابتدائی حصے میں تجارت کے لیے بھیجا کرتے تھے۔ تو ان کا مال بہت زیادہ ہوگیا تھا۔(سنن الترمذی: التکبیر فی التجارۃ، حدیث:1212)
*صدقہ :حضرت قیس بن ابی غرزہ سے روایت ہے کہ عہد رسالت میں ہم لوگوں (سوداگروں) کو سماسرہ (یعنی دلال) کہا جاتا تھا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے تو آپ نے ہمارا پہلے سے بہتر نام تجویز فرمایا۔ (آپ نے ہمیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا) اے تاجرو! تجارت میں بیکار باتیں اور قسما قسمی ہوتی ہے ؛لہٰذا اپنی تجارت کو صدقہ کے ساتھ ملا۔(ابوداؤد: باب فی التجارۃ یخالطھا الحلف،حدیث:3328)
*سخاوت:جابر بن عبداللہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ اس شخص پر رحم کرے جو فیاض اور سخی ہے جب کہ بیچے اور جب کہ خریدے اور جب اپنے حق کا تقاضا کرے۔(بخاری: باب السھولۃ والسماحۃ،حدیث:1970)
* تنگ دست کی رعایت: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے تنگ دست کو مہلت دی یا اس کا قرض معاف کر دیا تو اللہ قیامت کے دن اسے عرش کے سائے میں رکھے گا جب کہ اس کے سوا کوئی سایہ نہیں ہوگا(ترمذی: إنظار المعسر والرفق بہ، حدیث:1306)۔
ایک مسلمان اور مومن تاجر میں یہ اوصاف ہونا چاہئے ، جس کی تاکید نبی کریم ا فرمارہے ہیں ، نہ صرف آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ان اوصاف کو اختیار کرنے کی تاکید ہے ؛ اور اس کے بے شمار فوائد ارشا د فرمائے اور دنیا وآخرت کے اس حوالے سے منافع بھی ذکر کئے ہیں ، ایک تاجر جو ان خوبیوں اور صفات کا حامل ہوگا وہ دنیا وآخرت دونوں جہاں میں سرخرو اور کامیاب وکامراں ہوگا۔

وہ امور جن سے بچنا چاہئے
*ناپ تول میں کمی:ارشاد باری عزوجل ہے : ناپ اور تول میں کمی کرنے والوں کے لئے خرابی ہے، جو لوگوں سے ناپ کرلیں تو پورا لیں،اور جب ان کو ناپ کر یا تول کر دیں تو کم دیں(سورۃ المطففین:123622363)
* وعدہ خلافی:اوپر عبد اللہ ابی الحمساء کی روایت میں گذرچکا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) حسبِ وعدہ تین روز تک انتظار فرماتے رہے اور بعد میں کوئی جھگڑا نہیں اورنہ برا بھلا کہا۔
*دھوکا دہی سے اجتناب:آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا ارشاد گرامی ہے :ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غلہ کے ایک ڈھیر پر سے گزرے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس میں اپنا مبارک ہاتھ ڈالا تو انگلیاں تر ہوگئیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غلہ کے مالک سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ بارش کی وجہ سے بھیگ گیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا تم یہ تر حصہ اوپر نہیں کر سکتے تھے کہ لوگ اس کو دیکھ لیتے پھر فرمایا جس نے دھوکہ دیا ہو مجھ سے نہیں۔(مسلم: باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم ،حدیث:102)
*جھوٹ اور دروغ گوئی سے پرہیز کرے:واثلہ بن اسقع سے روایت ہے کہ رسول اللہ ا ہم تاجروں کے پاس آئے اور فرمایا:" یا معشر التجار إیاکم والکذب" (اے تاجروں کی جماعت! تم جھوٹ سے پرہیز کرو)(المعجم الکبیر، من اسمہ واثلۃ، حدیث:132)
اور ایک روایت میں ہے :
حضرت عبدالرحمن رضی اللہ تعالی عنہ مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اکثر تجار فاسق وفجار ہوتے ہیں کسی نے پوچھا یا رسول اللہ کیا اللہ نے بیع کو حلال نہیں کیا ہے فرمایا کیوں نہیں لیکن جب یہ لوگ بات کرتے ہیں تو جھوٹ بولتے ہیں اور قسم اٹھا کر گناہگار ہوتے ہیں۔(مسند احمد: حدیث عبد الرحمن بن شبل ، حدیث:15569)
*جھوٹی قسمیں نہ کھائیں: عموما یوں ہوتا ہے کہ تاجر اپنے اشیاء کے فروخت کے لئے گاہک کو اپنی بات درست باور کرانے کے لئے قسمیں کھاتے ہیں ،آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس سے منع فرمایا:اے تاجرو! تجارت میں بیکار باتیں اور قسما قسمی ہوتی ہے ؛لہٰذا اپنی تجارت کو صدقہ کے ساتھ ملا۔(ابوداؤد: باب فی التجارۃ یخالطھا الحلف،حدیث:3328)

نبی کریم ا کابکریاں چرانا
نبی کریم ﷺ نے جب ذرا ہوش سنبھالا تو اپنی رضاعی والدۂ محترمہ حلیمہ سعدیہ سے پوچھا کہ رضاعی بھائی عبد اللہ نظر نہیں آتے ؟ حضرت سعدیہ نے عرض کیا کہ وہ بکریاں چرانے جاتے ہیں ، اسی وقت فرمایا: کل سے میں بھی بھائی عبد اللہ کے ساتھ بکریاں چرانے جاؤں گا ، گویا اسی وقت یہ احساس ہوگیا کہ اپنا بار اور بوجھ دوسروں پر نہیں ڈالنے کے بجائے خود اٹھانا چاہئے، اسی طرح اہل مکہ کی بکریاں بھی آپ (صلی اللہ علیہ وسلم)نے چند قیرط کے عوض چرائیں۔
*حضرت ابوہریرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے ایسا کوئی نبی مبعوث نہیں کیا ہے جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے پوچھا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بکریاں چرائی ہیں فرمایا ہاں میں چند قیراط کی اجرت پر اہل مکہ کی بکریاں چراتا تھا(بخاری:باب رعی الغنم، حدیث:2143)
*حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کچھ اونٹ والے اپنے اوپر فخر کرنے لگے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سکون اور وقار بکریوں والوں میں ہوتا ہے اور فخر و تکبر اونٹ والوں میں ہوتا ہے۔اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت موسی علیہ السلام کو جس وقت مبعوث کیا گیا اس وقت وہ اپنے اہل خانہ کے لئے بکریاں چراتے تھے، اور مجھے بھی جس وقت مبعوث کیا گیا تو میں بھی ا پنے اہل خانہ کے لئے مقامِ جیاد پر بکریاں چرایا کرتا تھا۔(مسند احمد: حدیث أبی سعید الخدری، حدیث:11937)
* حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیلو چن رہے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کے سیاہ دانے اکٹھے کرو کہ وہ بہت عمدہ ہوتا ہے ہم نے عرض کی کہ کیا آپ بھی بکریاں چراتے رہے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اور ہر نبی نے بکریاں چرائیں ہیں۔(مسند احمد: مسند جابر بن عبد اللہ، حدیث:14537)

دیگر انبیاء کا بکریاں چرانا
منصب نبوت کے فریضہ کی ادائیگی جن اوصاف وخصوصیات کی حامل ہوتی ہے یا یوں کہئے کہ نبی کو اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہونے کے لیے معاشرہ اور سماج سے جو قریبی ربط وتعلق رکھنا پڑتا تھا اس کے لئے چونکہ یہ ضروری تھا کہ دعوت وتبلیغ اور اصلاح اور رہنمائی کے کسی بھی موڑ پر پورے معاشرے کے افراد اور نبی کے درمیان اجنبیت اور غیریت کی دیوار حائل نہ رہے اس لئے قدرت کی طرف سے ابتدا میں نبی کو ایک ایسے تربیتی اور آزمائشی دور سے گزارا جاتا تھا جس کے بعض مرحلے بظاہر تو بہت نچلی سطح کے معلوم ہوتے تھے لیکن نتائج واثرات کے اعتبار سے وہی مرحلے بہت ہی دور رس اور کار آمد ثابت ہوتے تھے۔ ایسا ہی ایک مرحلہ بکریوں کا چرانا بھی ہے جو اگرچہ بہت معمولی درجہ کی چیز معلوم ہوتی ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہی بکریوں کا چرانا محبت وشفقت محنت ومشقت باہمی ربط وتعلق اور عام خیر خواہی ونگہداشت کا ایک بہترین سبق ہے جو کسی رہبرومصلح کی حیات کا ایک بنیادی وصف ہے چنانچہ ہر نبی اسی لئے بکریاں چراتا تھا تاکہ اس تجربہ سے گزرنے کے بعد امت کی نگہبانی وشفقت اور معاشرے سے ربط وتعلق کا حقیقی جذبہ پوری زندگی میں سرایت کئے رہے اور قوم کی طرف سے پیش آنیوالی ہر سختی ومشقت پر صبر وتحمل کی قوت حاصل رہے نیز اس ذریعے سے وہ حقیقی خلوت وتنہائی بھی حاصل ہو جاتی تھی جو نبی کی ابتدائی زندگی کا ایک مطلوب ہوتی تھی۔ مذکورہ بالا نکتہ زیادہ واضح ہو جاتا ہے اگر یہ تجزیہ پیش نظر ہو کہ ایک رہبر اور ایک بادشاہ اپنی قوم یا اپنی رعایا کے ساتھ وہی نسبت وتعلق رکھتا ہے جو ایک چرواہا اپنی بکریوں کے ساتھ رکھتا ہے۔
چنانچہ عبید بن عمیر فرماتے ہیں: رسول اللہ ا نے فرمایا: ہرنبی نے بکریاں چرائی ہیں ، صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول آپ نے بھی ، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم)نے فرمایا: میں نے بھی (الطبقات الکبری لابن سعد)۔
خلاصہ یہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی حیاتِ طیبہ میں ہمارے لئے کسب ومعاش اور تجارت اور پیشہ کے اختیار کرنے کے اعتبار سے بھی اسوہ اور نمونہ ہے ، کسی بھی پیشہ کے اختیار کرنے میں امت کے رحیم وکریم ، ان کی دنیاوی واخروی فلاح وبہبود کے خواہاں نبی نے اصول وہدایات سے سرفراز فرمایا ہے ۔

***
مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی ، وادی مصطفی شاہین نگر ، حیدرآباد۔
rafihaneef90[@]gmail.com
موبائل : 09550081116
رفیع الدین حنیف قاسمی

Livelihood Economics of Prophet(s.a.w). Article: Mufti Rafiuddin Haneef Qasmi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں