جب مسیحا ہی قاتل ٹھہریں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-02-06

جب مسیحا ہی قاتل ٹھہریں

Killing-innocent-by-caretaker
4؍فروری کے اخبار کا مطالعہ کر رہا تھاکہ جرائم وحادثات کے صفحہ پر ایک خبر پر نظر پڑی ، جس کی سرخی یوں تھی’’ 5سالہ صبا کی موت سے پولیس کے کردار پر سوالیہ نشان!‘‘ جستہ جستہ ساری خبر پڑھ ڈالی تو ششدر اور حیران رہ گیا کہ ، آہ معاشرہ میں جرائم روزں افزوں ، قتل ناحق، زنا بالجبر، ظلم وستم زبردستی ، لوٹ مار ، چوری چکاری، ایک بالشت پیٹ اور اس کے اطراف کی خواہشات کی تکمیل نے انسان کی انسانیت کا جنازہ نکال دیا ہے ، معاشرہ جرائم میں اس قدر آگے بڑھتا جارہا ہے ، پیشہ ور مجرم ہی نہیں سماج میں عزت وعظمت کے ساتھ بلائے جانے والے ، سرکاری ملازم اور زعماء وقائدین کاکردار بھی آئے دن مشکوک ہوتا جارہا ہے ، پیسے کی ہوس، خودساختہ غیر فطری خوشنما اور آرام دہ زندگی کی طلب نے انسان کو انسان کے خول سے نکال کر درندوں اور جانوروں کی فہرست میں لا کھڑا کیا ہے ، انسانیت کے جرائم کو دیکھ کر جنگل کے جانور بھی شرما جائیں اور اپنے معاشرے میں سر اٹھا کر چلنے کے قابل ہی نہ رہیں، لیکن انسان ہے کہ گناہوں پر گناہ کرتاجاتا ہے ، ’’چوری اور سینہ زوری‘‘ کے مصداق اپنے گناہ پر پشیمان ہونے اور اس پر پردہ ڈالنے کے اور اس سے تائب وخائف ہونے کے مزید دلیر ہوجاتا ہے جنگل کے شیر کے مانند کہ انسان کاخون جب اس کے منہ کو لگ جاتا ہے تو وہ مزید آدم خور بن جاتا ہے ، یہی کچھ صورتحال انسانیت میں دیکھنے کو مل رہی ہے ، ہر طرف جرائم ، لوٹ مار ، چوری چکاری، زناکاری، بدکاری،رشوت ستانی کا بازار گرم ہے ، اچھا کیا خراب ہر شخص اس برائی کی بہتی گنگا میں اپنا ہاتھ صاف کرنے پر لگا ہوا ہے۔
بالکل یہ نہیں کہا جاتا ہے کہ اس وقت معاشرہ بالکل انسانیت سے خالی ہوچکا ہے ، اگر معاشرہ سے انسانیت بالکل ختم ہوجائے تو پھر حدیث کے مصداق اللہ کے ماننے اور اللہ کا خوف کرنے والے لوگ نہ ہوں گے تو اس دنیا جہاں کو تہس نہس کیا جائے گا، آج بھی انسانیت اور ہمدری رکھنے والے لوگ موجود ہیں، تصویر ایک رخ وہ ہے جب مظفر نگر فسادات میں ایک ہندو عورت کئی مسلمانوں کی جانوں کی محافظ بن کر کھڑی ہوتی ہے اور درندہ صفت انسانوں کو جو انسانیت کو قتل کرنے چلے تھے اپنے انسانیت نوازی کے ذریعہ ان کی جان کی رکھوالی اور ان کے لئے مسیحا اور دیوتا ثابت ہوتی ہے اور تصویر کا دوسرا رخ یہ خبر ہے ایک پولیس عہدیدار ، ایک مسلم شخص اور اغواء کی یہ واردات بھی ایسے مقام پر انجام دی جاتی ہے جہاں ایک ولی اللہ اور ایک صوفی باصفا انسانیت کے درس دینے والی ہستی آسودہ ہے ، کیا ہمارا معاشرہ بزرگوں اور اللہ والوں کی آرامگاہوں کو اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لئے تو نہیں استعمال کر رہا ہے؟، اس سلسلے میں ٹھوس نگاہ کی ضرورت ہے ، ایسے عوامی جگہوں پر جہاں لوگ انسانیت کے درس دینے ہستیوں کی زیارت ودیدار کے شرف سے مشرف ہونے کے لئے آتے ہیں ، انسانیت کی اس بھیڑ میں کچھ درندہ صفت لوگ بھی اپنے کالے دھندوں اور اپنے سفاکانہ کرتوں کی انجام دہی کے لئے پہنچ جاتے ہیں ۔
اخبار کے بموجب نوشین صبا لڑکی ، محمد محبوب، ریشما بیگم کی تیسری لڑکی تھی، گذشتہ رمضان میں گلبرگہ، کرناٹک میں حضرت خواجہ بندہ نواز کے عرس کے موقعہ عرس میں شرکت کے لئے اپنے خاندان کے ہمراہ گئی ، اور ادھر انہیں دنوں ہیڈ کانسٹبل ذاکر حسین کی اپنی فیملی کے ساتھ گلبرگہ میں موجودگی کے شواہد بولارم پولیس اسٹیشن کے ریکارڈ سے ملتے ہیں ، 31جولائی کو گھر واپسی کے لئے تیار ہیڈ کانسٹبل ذاکر حسین اور ان کے خاندان کو صبا عرس میں اکیلی کھیلتی ہوئی نظر آئی ، چونکہ انہیں گھریلو خادمہ کی سخت ضرورت تھی ، اس لئے بچی کو اغوا کر نے کے بعد کنڈا پور ، ملکاپور میں واقع اپنے مکان پر لڑکی کو منتقل کردیا، یہاں محبوب اور ریشما بیگم صبا کی گمشدگی پر بہت پریشان تھے ، ممکنہ مقامات پر تلاش کے بعد کرناٹک پولیس میں شکایت درج کرائی ، وہاں گھر پر لڑکی کو کام میں سستی کرنے پر اذیتیں دی جاتی تھی ، صبا کے پورے جسم پر سوئی کے نشانات پائے گئے ، جس سے اس پولیس والے اور اس کے گھرانے کی سفاکیت کا اندازہ ہوتاہے ، زخموں کی تاب نہ لا کر یہ بچی بالآخر چل بسی۔
اس واقعہ میں عبرت کے کئی ایک پہلو ہیں ، کیا پولیس کا کردار یہی ہونا چاہئے ؟پولیس تو انسان کی مسیحا ہوتی ہے ، انہیں اسی کی تعلیم دی جاتی ہے ، پھر ایک مسلمان شخص جب اس قسم کی حرکت میں ملوث نظر آتا ہے تو دل خون کے آنسو بہانے پر مجبور ہوجاتاہے کہ اپنے ساتھ اسلام کی نسبت لگاتے ہوئے اس قسم کی گھناؤنی حرکت کرتے ہوئے شرم نہیں آتی؟تیسرے یہ کہ یہ معاملہ بھی ایک معصوم سی بچی کا ہے ، اس کو بے جا اغوا کیا جاتا ہے ، نہ کہ اسے تنخواہ پر رکھا جاتا ہے ، پھر جب وہ اس بچے کو تکلیف دے رہے تھے تو ان کی انسانیت مر چکی تھی، اس بچی کو تکلیف دیتے ہوئے اس گھرانے کے کسی بھی فرد کی انسانیت نہیں جاگی؟کسی نے بھی اس بچی کے بلکنے اور سسکنے کو نہیں دیکھا، کیا ان کو ا س معصوم بچی کو تکلیف دیتے ہوئے اپنے معصوم بچے یاد نہیں آئے ؟ یہ وہ چند ایک سوالات ہیں جو ہر انسان کے ضمیر اور قلب میں اس واقعہ کو پڑھنے کے بعد جاگ اٹھتے ہیں ۔کیا اس گھر میں ماں کا سا نرم گوشہ اور جذبہ رکھنے والی عورتیں نہیں تھیں جو بے اس معصوم پر ظلم ڈھائے جار ہے تھے ۔
ایسا نہیں ہے کہ معاشرہ میں فرض شناس پولیس عہدیدار نہیں ہیں ؛ بلکہ ایسے پولیس والوں کی بھی کثیر تعداد ہے ، لیکن بعض پولیس عہدیدار اس قسم کے گھناؤنی او ر نازیبا حرکات اور اپنے آپ سے انسانیت کا خول نکال کر سفاکیت اور درندے کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ تو بے ساختہ یہ الفاظ زبان سے نکل جاتے ہیں ’’ جب مسیحا ہی قاتل ٹھہریں‘‘ جو انسانوں کی جان کے محافظ، ان کے عزت وآبرو کے نگہبان اور ان کی املاک اور جائیداد کی باز آبادکاری کرنے والے ، انصاف اور قانون کے رکھوالی ہی انصاف کا خون کریں تو پھر انسانیت کو دنیا میں رہنا ہی بیکار ہے ۔ جب امن کے رکھوالی ہی امن شکنی کریں مسیحا ہی قاتل ٹھریں توپھر اللہ ہی محافظ ہے ۔
آج سارے ملک میں رشوت خوری، کالا بازاری کے خلاف مہمیں تیز ہوتی جارہی ہیں ، خود تلنگانہ کے چیف منسٹر نے رشوت خوری اور دھندالیوں کے خلاف قدم اٹھانے کے لئے پر عزم نظر آرہے ہیں ، تمام سرکاری محکمہ جات میں رشوت ستانی اور ہراسانی کے معاملہ پر کڑی نظر رکھی جارہی ہے ، پولیس بھی مستعدی کے ساتھ جرائم پیشہ افراد اور شہر کے امن بگاڑ والوں کی تلاشی مہم میں سرگرم ہے ، ایسے میں اس قسم کے واقعات نہایت چونکا دینے والے ہوتے ہیں ، اس لئے اس پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے ، سب سے بڑھ کر آج انسانیت کے سبق کی ضرورت ہے ، ہر انسان خواہ وہ چھوٹا یا بڑا اس کے پاس بھی وہی اعضاء ہاتھ ، پیر ، ناک ، کان ، پیٹ وغیرہ ہیں اور اس کے بھی وہی خواہش اور تمنائیں ہیں ، دوسروں کی خواہشات اور دوسروں کی زندگی پر ہاتھ ڈال کر اپنی زندگی کو چمکانا اس پر انسانیت کااطلاق نہیں کیا جاسکتا ۔

***
مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی ، وادی مصطفی شاہین نگر ، حیدرآباد۔
rafihaneef90[@]gmail.com
موبائل : 09550081116
رفیع الدین حنیف قاسمی

Killing innocent by caretaker. Article: Mufti Rafiuddin Haneef Qasmi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں