شام کے پناہ گزیں اور عرب ممالک کی مجرمانہ بےحسی و بےزاری - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-01-15

شام کے پناہ گزیں اور عرب ممالک کی مجرمانہ بےحسی و بےزاری

syrian-refugee-crisis
دنیا میں ایک بڑی آبادی خا نمابرباد لوگوں کی ہے۔ سیاسی، فوجی اور قدرتی اسبا ب کی بنا پر وطن سے ہجرت کرنے پر مجبور افراد کی موجودہ تعدا داقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پانچ کروڑ ہے۔ سیاسی ،مذہبی تشدد اور خاجنگی کے نتیجے میں اجڑے ہوئے لوگوں کی تعداد دنیا کے مختلف خطوں میں پھیلی ہوئی ہے۔برما، افغانستان،بنگلہ دیش ،اور افریقی اور عرب ممالک میں مہاجرین اور پناہ گزینوں کی ایک بڑی آبادی رہتی ہے ۔ گزشتہ پانچ برسوں سے جاری شام کی عسکری و فرقہ وارانہ خانہ جنگی نے اس خطے میں خصوصاً اور پوری دنیا میں عموماً ایک سنگین بحران پیدا کردیا ہے ۔ شام کے پناہ گزینوں کا مسئلہ اس صدی کا سب سے بڑا بحران ہے جس نے تمام انسانیت کو شرمسار کر دیاہے۔شام کی خانہ جنگی جو پانچ سال قبل عرب بہاریہ کے نتیجے میں شروع ہوئی تھی ایک انتہائی پیچیدہ شکل اختیار کرچکی ہے جس کا کوئی حل عالمی سیاسی برادری کے پاس غالباً نہیں ہے اور کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ خانہ جنگی کب ختم ہوگی اور کس انجام کو پہنچے گی اور اس کے نتیجے میں عالمی صورت حا ل کیا ہوگی۔
شام کی خانہ جنگی عرب حکمرانوں کے خلاف عوامی اضطراب کے پر تشدد اظہار کی شکل میں شروع ہوئی تھی اور یہ کلی طور پر عوامی تحریک تھی۔ بعد میں اس خطے میں موجود مسلکی اعتقادات رکھنے والی عسکری تنظیمیں دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ کود پڑیں اور عوامی بغاوت کو شیعہ سنی جنگ کی شکل دے دی۔ پوری اسلامی دنیا دو مسلکی بلاکوں میں بٹ گئی جس کی وجہ سے شام کے صدر بشارالاسد کو سیاسی حمایت حاصل ہوگئی اور دیگر عرب حکمرانوں کے برعکس وہ اپنے اقتدار کو قائم رکھنے میں کامیاب ہوگئے۔ ایک طرف جہاں باغی تنظیموں نے شام کی شیعہ برادری کا بدترین قتل عام کیا وہیں بشار الاسدکی فوج اور ریاستی مشینری نے بھی مقامی سنی مسلمانوں سے بہیمانہ انتقام لیا اور ایسے ایسے رونگٹے کھڑے کرنے والے مظالم ڈھائے جس پر انسانیت رہتی دنیا تک ماتم کناں رہے گی پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اب تک تیس لاکھ شامی شہری ملک سے ہجرت کرچکے ہیں۔اس لحاظ سے شام افغانستان پر سبقت لے گیاہے۔
اس خانہ جنگی میں اب تک دولاکھ شامی شہری مارے جاچکے ہیں۔اوراتنی بڑی تعداد میں ہلاکتوں کے لئے وہ مسلم تنظیمیں ذمے دار ہیں جو امریکہ اور یوروپی ممالک کو لاکھوں مسلمانوں کو ہلا ک کرنے کا ذمے دار ٹھہراتی ہیں۔
اس خانہ جنگی میں حکومت بچانے پر کمر بستہ بشارالاسد اوراسلامی خلافت کے پرفریب نظام کے قیام کے لئے انسانوں کا خون بے دریغ بہانے والی عسکری ، نیم عسکری اور دہشت گردتنظیمیں آپس میں سربگریباں تھیں اور ان دونوں کے درمیان معصوم انسان قتل کئے جارہے تھے ، اذیتیں جھیل رہے تھے اور باقی لوگ کسی محفوظ مقام کی تلاش میں اپنے وطن شام کو خیر باد کہہ رہے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق شام کی نصف آبادی اجڑ چکی ہے۔ ان کا بڑا حصہ تو ترک وطن کرکے دوسرے ہمسایہ ملکوں میں پناہ لے چکاہے تو دوسرا طبقہ اپنے ہی وطن کے دوسرے خطوں میں منتقل ہوگیاہے۔ اس طرح شام کا ہر دوسرا شہری مہاجر ہے۔
شام سے ہجرت کرنے والے افراد خاص طور پر پانچ ہمسایہ ممالک میں پناہ گزیں ہوئے ہیں ۔ وہ ممالک ہیں ترکی ، اردن ،مصر، لبنان اور عراق ۔ان میں بڑی تعداد ترکی میں پناہ گزیں ہیجہاں شام کے آٹھ لاکھ پناہ گزیں ہیں اور ہر ماہ اس میں ایک لاکھ کا اضافہ ہورہاہے۔ ۔ان پانچ ملکوں کی حکومتوں نے کم از کم اس صبر آزما مرحلے میں مسلم قوم کے لئے اپنی بساط بھر سہولتیں میسر کرائی ہیں انہیں رہائش ، طبی اورغذائی سہولتیں بہم پہنچائی ہیں اگرچہ اس کے بوجھ تلے ان کا اپنا معاشی اور سماجی نظام لڑکھڑاگیاہے۔ لبنان نے بھی شام کے پناہ گزینوں کو پناہ دینے میں فراخدلی دکھائی ہے حالانکہ ان پناہ گزینوں کے بوجھ نے اس کے معاشی توازن کو بگاڑ دیاہے۔ لہٰذا ، لبنان نے مزید پناہ گزینوں کو قبول کرنے سے انکار کردیاہے اور دیگر ممالک سے درخواست کی ہے کہ وہ ان مہاجرین کو بوجھ اٹھالیں۔لبنان میں تقریباً بارہ لاکھ شامی پناہ گزیں ہیں جبکہ خود اس کی آبای پینتالیس لاکھ ہے۔یعنی ہر چار میں سے ایک فرد مہاجر ہے۔لبنان میں جو ایک شیعہ اکثریتی ملک ہے وہاں اتنے بڑے پیمانے پر سنی پناہ گزینوں کی م آمد سے ملک کے مسلکی توازن کے بگڑنے کا خطرہ ہے جس پر وہاں کا ایک دانشور طبقہ تشویش کااظہار کررہاہے۔ ان ممالک کے علاوہ ترکی کے ہمسایہ ملک بلغاریہ میں بھی کم تعداد میں پناہ گزین ہیں جن کو حکومت کی طرف سے سہولتیں مہیا کیجارہی ہیں۔
پناہ گزینوں کے تعلق سے اتنے بڑے بحران کونظر انداز کرنا عالمی برادری کے لئے ناممکن تھا حالانکہ عرب ممالک نے اس سنگین انسانی اور اسلامی دنیا کے بحران سے پہلو تہی کی ہے مگر اقوام متحدہ کی عالمی حقوق انسانی کونسل نے اس مسئلے کے حل کی سمت مثبت قدم اٹھایا ہے۔ اس نے شام کے پناہ گرزینوں کی راحت کاری اور باز آبادکاری کے لئے علاقائی پناہ گزیں پلان (۳ آر پی )جاری کیاہے جس میں تمام ممالک سے تعاون کرنے کی اپیل کی ہے۔ اس پلان کے تحت شام کے پناہ گزینوں کے لئے متعلقہ ممالک سے ایسے اقدام کرنے کی گذارش کی گئی ہے جس سے پناہ گزینوں کو رہائشی، غذائی، طبی ، تعلیمی اور ملازمتی سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جاسکے ۔ اس پلان کو کامیاب بنانے کے لئے اقوام متھدہ نے تمام دنیا کے ممالک سے مالی تعاون اوردیگر سہولیات فراہم کرنے کی گذارش کی ہے۔ نیز این جی او سے بھی اپنی اپنی سطح پر پناہ گزینوں کے لئے پلان کو کامیاب بنانے کے لئے مدد کرنے کی ضرورت پر زور دیاہے۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ ترکی نے پناہ گزینوں کی راحت رسانی اور باز آبادکاری کے لئے قابل ستائش اقدامات کئے ہیں ا سلئے پناہ گزیں ترکی میں پناہ لینے کو ترجیہ دیتے ہیں۔ اس کے لئے اقوام متحدہ نے اس کی ستائش کی ہے۔ترکی کی حکومت نے پناہ گرزینوں پر اب تک ۴ ارب ڈالر خرچ کردئیے ہیں اور تمام شامی پناہ گزینوں کو مفت طبی سہولیا ت مہیا کرتاہے۔
اردن میں پناہ گزیں افراد کی تعداد دس لاکھ سے زیادہ ہے جس کی وجہ سے وہاں معاشی اور سماجی تناؤ بھی دیکھنے میں آیا ہے۔ کچھ میونسپلٹیوں میں تو مہاجرین کی تعداد انصارسے زیادہ ہوگئی ہے جس کی وجہ سے ایک تناؤ کی کیفیت ہے اور اندیشہ ہے کہ اس سے تشدد اور تصادم پھوٹ پڑسکتاہے ۔
اسی طرح عراق میں دو لاکھ سے زائد پناہ گزین ہیں اور انکی بڑی تعداد کردستان خطے میں سکونت پذیر ہے۔ان پناہ گزینوں میں شام کے مہاجرین بھی ہیں اور عراق کے ہی اجڑے ہوئے شہری ہیں جو دوسرے علاقوں سے ہجرت کرکے یہاں پناہ گزیں ہوئے ہیں ۔ ان میں ساٹھ فی صد سے زائد عورتیں اور بچے ہیں اور بائیس فی صد نوجوان ہیں جنہیں ملازمت اور تعلیم کی ضرورت ہے اور جن کے مستقبل کی حفاظت کی بڑی ذمے داری عالمی برادری پر ہے۔اسی طرح مصر میں شامی پناہ گزینوں کی تعداد لگ بھگ ایک لاکھ بیس ہزار ہے۔ مصر میں پناہ گزینوں کی اکثریت قاہرہ اور اسکندریہ میں موجود ہے اور ان پناہ گزینوں کی وجہ سے مصر کو بھی اضافی معاشی بار اٹھانا پڑرہاہے۔
اس تمام المیے کا سب سے افسوسناک پہلو عرب ممالک کی بے حسی اور مسلم قوم کی پریشانیوں اور تکلیفوں سے ان کی بے زاری ہے۔ عرب ریاستوں کی تنظیم جی سی سی نے شامی مہاجرین کو لینے سے انکار کردیا ہے۔بحرین ، کویت ، عمان ، قطر ، سعودی عربیہاور متحدہ عرب امارات اس تنظیم کے ممبر ہیں۔قطر اور سعودی عرب دو ایسے ممالک ہیں جنہوں نے شام کی خانہ جنگی میں سرگرم حصہ لیا اور مبینہ طور پر شام کے باغیوں کو بشارالاسد حکومت کا تختہ پلٹنے کے لئے مالی اور افرادی وسائل مہیا کئے ۔ مگر مسلمانوں ، جن میں شیعہ اور سنی دونوں فرقوں کے لوگ ہیں کے لئے ان کے دل میں ہمدردی کا جذبہ محض رسمی خانہ پری تک محدود ہے۔ مثال کے طور پر سعودی عرب نے اردن کو دس ملیں ڈالر کی امداد پناہ گزینوں کی راحت رسانی کے لئے دینے کا وعدہ کیاہے اور قطر نے صرف ۴۲ شامی پناہ گزینوں کو امیر کے مہمان کی حیثئیت سے پناہ دی ہے۔گویا اس نے دنیا کو دکھانے کے لئے ایک رسم پوری کردی۔سعودی عرب اپنے ملک میں پناہ گزینوں کو جگہ دینے کے لئے راضی نہیں ہے۔ یہی رویہ خلیج کے دیگر دولت مند ممالک کا ہے جو شام میں مسلکی جنگ کو ہوا دیتے رہے ہیں ۔
اس کے برعکس امریکہ اور یوروپی ممالک نے اس بحران کے وقت اسلامی ممالک کے اجڑے ہوئے لوگوں کی طرف انسانی ہمدردی کا ہاتھ بڑھایا ہے اور مہاجرین کو اپنے ملک میں بسانے کے لئے اقدامات کئے ہیں۔امریکہ کے علاوہ کناڈا ، جرمنی، سویڈن و دیگر یوروپی ممالک نے اپنے یہاں شامی پناہ گزینوں کو آنے اور رہائش اختیار کرنے کی سہولت دی ہے۔
امریکہ نے اقوام متحدہ کی سفارش پراس سال صرف دوہزار شامی پناہ گزیں قبول کئے مگرہر سال دس ہزار پناہ گزینوں کو اپنے یہاں آباد کرنے کا عزم رکھتاہے۔جرمنی نے تیس ہزار شامی پناہ گزینوں کو اپنے یہاں پناہ دینے اور انہیں آباد کرنے کا عزم رکھتاہے۔گذشتہ شال امریکہ نے بیس ہزار عراقی پناہ گزینوں اور سولہ ہزار برمی پناہ گزینوں کو پناہ دی۔اٹلی نے ساڑھے چار ہزار فیوجیوں کا پناہ دی ہے۔ترکی کی سرحد سے لگاہوا ملک بلغاریہ بھی مہاجریں کی جائے پناہ ہے۔ یہان لگ بھگ دس ہزار شامی پناہ گزیں مختلف کیمپوں میں سکونت پذیر ہیں۔جرمنی اور سویڈن نے بالترتیب ۲۹ ہزار اور ۱۸ ہزار پناہ گزینوں کو جگہ دی ہے۔کناڈانے اگلے دو برسوں میں دس ہزار شامی پناہ گزینوں کی اپنے یہاں بازآبادکاری کا وعدہ کیاہے مگر اس نے سنیوں سے بے زاری کا مظاہر ہ کیا ہے اور صرف مظلوم اقلیتوں یعنی یزیدیوں، عیسائیوں اور کردوں اور دیگر اقلیتی افراد کو ہی پناہ دینے کا فیصلہ کیاہے۔ اس کی نگاہ میں سنی انتہا پسند ہوتے ہیں اور خطے میں تشدد کے زیادہ تر وہی لوگ ذمے دار ہیں۔حالانکہ شام کی خانہ جنگی میں سنی ہی زیادہ معتوب ہوئے ہیں۔مریکہ میں کیتھولک پادریوں کی کانفرنس نے مذہبی تعصب سے بالاترہوکر شامی مہاجرین کے لئے کچھ کرنے کی اپیل کی ہے۔
مندرجہ بالا حقائق اور اعداد و شمارسے یہ واضح ہوتاہے کہ مسلمانوں پر پڑنے والی اس مصیبت میں خود اسلامی ہونے کا دعوی کرنے والی حکومتیں اور خود کو مسلمانوں کا قائد اور رہنماہونے کا دعوی کرنے والے شاہان اور امیرمسلمانوں کی مسائل ، ان کی ہلاکتوں، ان کی فاقہ کشی اور بے سرو سانی سے یکسر بے پروا ہیں اوریہ مہاجرین ان کے لئے اچھوتوں کی حیثیت رکھتے ہیں جن کی آمد ان کے ملک کے لئے مختلف طرح کی مسلکی ، معاشی اور سماجی نجوستیں لے کر آئے گی۔لہذاوہ ان کے ساتھ زبانی ہمدردی اور دور سے کچھ خیرات کردینے ہی میں عافیت سمجھتے ہیں۔
اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والی انسانوں کی ہجرت پوری اسلامی دنیا کے لئے ایک بہت المیہ ہے۔ لاکھوں کی تعداد مین عورتوں اور بچوں کی جانیں خطرے میں ہیں۔ ان کا مستقبل خطرے میں ہے۔ مہاجرنوجوانوں کا کیریر اور ان کا تعلیمی سفر غیریقینی صورت حال سے دوچار ہے۔ اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہی نے پوری عرب دنیا کو صدیوں پیچھے دکھیل دیاہے۔ ان افراد کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔اسلامی خلافت آئے یا صدارتی حکومت اب کوئی بھی حکومت سوائے ماتم کرنے کے کچھ نہیں کرسکتی۔ ان کام صرف بکھرے ہوئے ملبے کو سمیٹنا رہ جائے گا۔ اس خانہ جنگی میں جن ممالک نے تیل میں آگ ڈالنے کا کام کیا وہ محفوظ ہیں ، ان کے عوام بھی محفوظ ہیں اور ان کی شاہی بھی محفوظ ہے مگر اسلامی خلافت کے نام پرانہوں نے دوسرے ممالک اور ان کے پر امن عوام کی زندگی اوران کے مستقبل کو وپتھر کے دور میں پیچھے دھکیل دیاہے۔یہ شاہ اور یہ امیر اب تباہ شدہ ممالک عراق اور شام کے لٹے پٹے افراد کو بھی اپنے یہاں جگہ نہیں دینا چاہتے جسیے کہ ان کے لئے اچھو ت ہوں۔ ہاں دور سے انہیں خیرات دے کر اپنی قومی و ملی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کا دعوی ضرور کرسکتے ہیں۔

***
Sohail Arshad
Mob.: 09002921778
s_arshad7[@]rediffmail.com

syrian refugee crisis. Article: Sohail Arshad

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں