بابری مسجد کیس کے اصل فریق ہاشم انصاری اچانک مقدمہ سے دستبردار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-12-04

بابری مسجد کیس کے اصل فریق ہاشم انصاری اچانک مقدمہ سے دستبردار

ایودھیا
یو این آئی
تاریخی بابری مسجد کی شہادت کے22سال کی تکمیل سے عین قبل بابری مسجد تولیت کیس (ایودھیا حق ملکیت کیس) کے اصل فریق ہاشم انصاری نے اپنے موقف سے انحراف کرتے ہوئے(یا یوٹرن لیتے ہوئے) کل رات کیس سے اپنی دستبرداری کا اعلان کیا اور متنازعہ اراضی پر رام مندر کی تعمیر کی وکالت کی۔ قدیم فریق مقدمہ انصاری نے یوپی کے و زیر محمد اعظم خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اعظم خان ، ایودھیا تنازعہ سے سیاسی فائدہ اٹھارہے ہیں ۔ انصاری نے یہ بھی الزام لگایا کہ تمام سیاسی جماعتوں نے مسئلہ ایودھیا کو سیاسی رنگ دیا اور خوب فائدہ اٹھایا ۔ انصاری نے کل رات یہاں اخبار نویسوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ’’میں بحالت موجودہ سپریم کورٹ میں مقدمہ سے دستبردار ہوجاؤں گا۔6دسمبر کو کسی احتجاجی جلسہ میں شرکت نہیں کروں گا اور6دسمبر کو اپنے کمرہ میں خود کو بند کرلوں گا اور کمرہ کو مقفل کردوں گا۔ ‘‘میں نے جاریہ کیس کو آگے نہ بڑھانے کافیصلہ کیا ہے اکیونکہ اعظم خان جیسے سیاستداں، اس معاملہ کو پیچیدہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ یہاں یہ تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ 93سالہ ہاشم انصاری اور پرم ہنس رامچندر داس، کیس کے دو اصل فریق رہے ہیں ۔ انصاری نے اب متنازعہ مقام پر ایک بڑے رام مندر کی پر زور وکالت کی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میں رام للا کو خیموں سے پاک دیکھنا چاہتا ہوں ۔ اس وقت رام للا خیموں تلے ہے ۔ ایک بڑا مندر تعمیر ہونا چاہئے ۔‘‘ انہوں نے کہاکہ’’یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ولگ تولڈو کھائیں اور رام للا شکر پاروں پر گزارا کریں ۔ لوگ تو شاندار مکانات میں رہیں اور بھگوان ایک عارضی خیمے کے تحت رہیں۔‘‘انساری نے یوپی کے کے وزیر اعظم محمد خان پر تنقید کرتے ہوئے الزام لگایا کہ مھض ایودھیا مسئلہ سے سیاسی فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ(اعظم خان) وزیر بن گئے ۔‘‘ اعظم خان کو چاہئے کہ وہ خود کو ایودھیا کیس سے وابستہ کریں کیونکہ انہوں نے اس مسئلہ سے اب تک تمام تر فوائد اٹھالئے ہیں ۔‘‘ انصاری نے بتایا کہ اعظم خان بابری مسجد ایکشن کمیٹی( بی ایم اے سی) کے کنوینر تھے لیکن اس عہدہ کو چھوڑ دیا اور سیاسی فائدوں کے لئے ملائم سنگھ یادو کے ساتھ ہوگئے اور اب وہ اعظم خان ایودھیا حق ملکیت کیس اپنے ہاتھ میں لیں ، انصاری نے یہاں تک کہا کہا گر اعظم خان چترا کوٹ کے چھ مندوروں کا دورہ کرسکتے ہیں تو وہ ایودھیا کا دورہ کرنے سے کیوں شرما رہے ہیں ۔ ہاشم انصاری نے کہا کہ میں ہندوؤں یا مسلمانوں میں سے کسی کو بے وقوف بنانا نہیں چاہتا کیونکہ سیاسی جماعتوں نے مسئلہ کا پورا فائدہ اٹھالی اہے اور اقتدار سے استفادہ کررہے ہیں ۔‘‘ مسئلہ کے دوستانی تصفیہ کے لیے ان کی (انصاری کی) کوششوں کے بارے میں ایک سوال پر انصاری نے جواب دیا کہ ’’2010ء ہی می ہائی کورٹ کے فیصلہ کے بعد میں نے کہا تھا کہ اس معاملہ وک عدالت کے باہر حل کیاجانا چاہئے لیکن سنی وقف بورڈ ، بابری مسجد ایکشن کمیٹی اور دیگر فریقین نے ہائی کورٹ کے حکم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا۔ اعظم خان جیسے قائدین اس مسئلہ کا تصفیہ نہیں چاہتے ۔‘‘ ہاشم انصاری نے اعظم خان کے اس دعویٰ پر بھی ان کی سرزنش کی کہ متنازعہ اراضی پر ایک رام مندر پہلے ہی سے ہے ۔ انہوں نے کہا کہ’جب اعظم خان یہ کہتے ہیں کہ متنازعہ اراضی پر ایک رام مندر پہلے ہی سے ہے ۔تو1950کے کیس کو اب کیوں آگے بڑھائیں اور ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کو کیوں بے وقوف بنائیں ۔‘‘
یہاں یہ تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ ہاشم انصاری کے بیان پر سیاسی جماعتوں کی صفوں میں شدید رد عمل کا اظہار کیا گیا ہے۔ چیف منسٹر یو پی اکھلیش یادو نے کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا اور کہا ہے کہ مسئلہ پر رد عمل کے اظہار کے لئے یہ وقت مناسب نہیں ہے ۔ وی ایچ پی نے ہاشم انصاری کے بیان کا خیر مقدم کیا اور مطالبہ کیا ہے کہ اصل فریق مقدمہ(انصاری) کو چاہئے کہ وہ مقدمہ سے دستبرداری سے متعلق ایک حلف نامہ سپریم کورٹ میں داخل کریں۔ وی ایچ پی کے ترجمان شرد شرما نے یہاں یو این آئی کو بتایا کہ ’’ہم شکر گزار ہیں کہ آخر کار ہاشم انصاری نے ہندوؤں کے جذبات کی تائید کی اور رام مندر ے لئے وکالت کی ۔ ‘‘لیکن چونکہ وہ (انصاری) اپنے بیان پر اکثر یوٹرن لینے کا ریکارڈ رکھتے ہیں ، انہیں انصاری کو چاہئے کہ وہ مقدمہ حق ملکیت سے دستبرداری سے تحریری طور پر عدالت کو مطلع کریں ۔، اسی دوران اتر پردیش بی جے پی نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ انصاری کا بیان ایودھیا میں ایک شاندار رام مندر کی جانب مثبت قدم ہے ۔ پارٹی کے ریاستی ترجمان وجئے بہادر پاٹھک نے لکھنو میں بتایا کہ’’رام مندر لاکھوں ہندوستانیوں کے لئے عقیدہ کا معاملہ ہے ۔‘‘ انہوں نے اس امر کی تردید کی کہ انصاری کے بیان کے پیچھے بی جے پی کی کوئی پس پردہ تحریک تھی ۔ موصولہ اطلاعات میں کہا گیا ہے کہ ہاشم انصاری نے کہا ہے کہ بی جے پی لیڈر ایل کے اڈوانی اور صدر وشوا ہندو پرشید اشوک سنگھل بھی را م مندر کے حامی نہیں ہین۔ انہوں نے کہا کہ رام مندر کا کٹر حامی مجھ سے زیادہ کوئی نہیں ہے لیکن ان قائدین بشمول اڈوانی اور سنگھل نے مذکورہ مسئلہ پر صرف سیاست کرنے کی کوشش کی ہے ۔‘‘ یو این آئی سے بات چیت کرتے ہوئے انصاری نے یہاں تک کہا کہ’’ میں زائد از 55سال سے یہ کیس لڑ رہا ہوں لیکن سیاستداں اس کے ثمرات سے فائدہ اٹھارہے ہیں ۔‘‘ جب مرکز کی نریندر مودی حکومت کے طرز حکمرانی کے بارے میں سوال کیا گیا تو ہاشم انصاری نے جواب دینے سے انکار کردیا تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ سارے مسلمان بابری مسجد چاہتے ہیں لیکن اعظم خان اور دیگر قائدین کے سبب کچھ بھی حاصل نہیں ہوسکا۔
لکھنو سے یو این آئی کی علیحدہ اطلاع کے بموجب ممتا ز عالم دین مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے آج کہا ہے کہ بابری مسجد تولیت کیس( ایودھیا حق ملکیت کیس) سے اصل فریق مقدمہ ہاشم انصاری کے دستبردارہوجانے کے اعلان سے اس مقدمہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔ یہ مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے ۔ مولانا فرنگی محلی نے یہاں اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگر انصاری اس مقدمہ کو آگے بڑھانے سے انکار کردیں تب بھی کیس پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔‘‘ مولانا نے کہا کہ وہ بھی مسئلہ ایودھیا پر سیاست نہیں چاہتے اور اس معاملہ کا دوستانی تصفیہ جلد از جلد چاہتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ’’انصاری کی بیزارگی بھی درست ہے کیونکہ یہ مقدمہ بہت طویل عرصے سے زیر سماعت ہے اور اس سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان انتشار پیدا ہوا ہے ۔ مولانا فرنگی محلی نے تاہم یوپی اے کے وزیر اوعظم محمد اعظم خان پر ہاشم انصاری کی تنقید پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا ۔

Petitioner in Babri Masjid case Hashim Ansari announces withdrawal

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں