آگرہ میں مسلمانوں کے مشتبہ تبدیلئ مذہب واقعہ کی پارلیمنٹ میں گونج - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-12-11

آگرہ میں مسلمانوں کے مشتبہ تبدیلئ مذہب واقعہ کی پارلیمنٹ میں گونج

نئی دہلی
آئی اے این ایس
آگرہ میں لگ بھگ300مسلمانوں کے ’’تبدیل مذہب ‘‘یعنی ہندو ازم مبینہ طور پر قبول کرنے کے واقعہ کی گونج آج پارلیمنٹ میں سنائی دی۔ اپوزیشن ارکان نے دونوں ایوانوں میں یہ مسئلہ اٹھایا ۔ ایوان بالا کا اجلاس آج جیسے ہی شروع ہوا ، صفر وقفہ کے دوران صدر بہوجن سماج پارٹی( ی ایس پ ی) مایاوتی نے اس واقعہ کو ملک کے سیکولر تانے بانے پر حملہ قرار دیا ۔ کئی اپوزیشن جماعتوں نے مایاوتی کی تائید کی ۔ ان اپوزیشن پارٹیوں کے ارکان اور مایاوتی نے مل کر وزیر اعظم سے مسئلہ پر بیان دینے کی خواہش کی ۔ لوک سبھا میں ترنمول کانگریس کے رکن سلطان احمد نے یہ مسئلہ اٹھایا ۔ ایوان بالا میں مایاوتی نے کہا کہ’’ہمارا ملک ایک دستور کے ذریعہ چلتا ہے جو سیکولر ازم کا ستون ہے۔ جو کوئی پارٹی بر سر اقتدار ہے وہ عوام کی زندگی اور مذہبی عقائد کے تحفط کی نگرانی کی ذمہ دار ہے ۔‘‘موصولہ اطلاعات میں کہا گیا ہے کہ آگرہ کے مضافات میں ایک جھونپڑی علاقہ میں رہنے والے لگ بھگ60مسلم خاندانوں کے تقریباً300ارکان نے مبینہ طور پر ہندواز قبول کیا تھا۔ بجرنگ دل کا کہنا ہے کہ اس تقریب کا اہتمام اس نے کیا تھا۔ مایاوتی نے ایوان بالا میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ’’دستور میں ایک دفعہ ہے جس کے تحت جبراً تبدیلی مذہب نہیں کیاجاسکتا ۔ ہمیں میڈیا کے ذریعہ یہ معلوم ہوا ہے کہ آر ایس ایس کی ہم خیال تنظیم بجرنگ دل نے آگرہ میں مسلمانوں کا مذہب ، جبراً تبدیل کرایا ہے۔ مایاوتی نے یہ بھی الزام لگایا کہ’’مسلمانوں کو لالچ دی گئی تھی ۔ بجرنگ دل نے تبدیلی مذہب کے لئے ان مسلمانوں کی قربت کا فائدہ اٹحایا ۔ ‘‘اس مسئلہ کو سنجیدگی کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ میں اگر چہ یہ جانتی ہوں کہ مرکزی حکومت یہ کہے گی کہ یہ ایک ریاستی موضوع ہے ۔‘‘ انہوں نے وارننگ دی کہ اگر اس کو تبدیلی مذہب کو نہیں روکا گیا تو سارے ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی پیداہوجائے گی ۔ حکومت کو سخت کارروائی کرنی چاہئے۔‘‘مملکتی وزیر پارلیمانی امور مختار عباس نقوی نے کہا کہ حکومت ، سیکولر اقدار کی پابند ہے ۔میں یہ وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ ہم ، ہم آہنگی اور سیکولر ازم کے لئے وقف ہیں ۔ سیکولرازم پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے۔ جہاں تک واقعہ کا تعلق ہے، ایک ایف آئی آر درج کیاجاچکا ہے ۔ سیاسی وجوہات کے لئے کسی مخصوص تنظیم پر الزام لگانا ٹھیک نہیں ہے ۔ میں (کرسی صدارت سے) درخواست کرتا ہوں کہ بعض تنظیموں بالخصوص آر ایس ایس کا نام(کارروائی سے)حذ ف کردیاجائے ۔ جو کچھ کارروائی کرنا ہے وہ کارروائی ریاستی حکومت کرے گی۔‘‘اپوزیشن ارکان نے وزیر اعظم نریندر مودی سے وضاحت طلب کی ۔ مارکسی لیڈر سیتا رام یچوری نے کہا ہے کہ’’آر ایس ایس نے تو یہ کہا ہے کہ 90سال بعد( دہلی میں ) ان کی حکومت ہوگی۔ وہ آر ایس ایس قائدین یہ کہتے ہیں کہ وہ اس ملک کو ایک ہندو ملک میں تبدیل کردیں گے ۔‘‘ ’’عوام کو گمراہ کیا گیا ہے ، حکومت کو ایک بیان دینا ہی چاہئے ۔ کانگریسی رہنما آنند شرما نے نائب صدر نشین ایوان بی جے پی کورین سے خواہش کی کہ وہ حکومت کو ہدایت دیں کہ وزیر اعظم کے نظریات معلوم کیے جائیں جبکہ ان (وزیر اعظم) کے ایک پارٹی رفیق نے کہا ہے کہ تبدیلی مذہب کے لئے کسی شخص کو لالچ دینا ایک جرم ہے اور واقعہ کی روشنی میں حکومت کو جواب دینا ہی چاہئے ۔
تاہم کورین نے کہا کہ’’اگر آپ یہ مسئلہ اٹھانا چاہتے ہیں تو اس کے قواعد بھی ہیں۔ وقفہ سوالات کے لئے لوک سبھا کا اجلاس جیسے ہی شروع ہوا ترنمول کانگریس کے سلطان احمد نے ایک اخبار لہراتے ہوئے پوچھا کہ’’آگرہ میں کیا ہورہا ہے ۔‘‘ اسپیکر سمترا مہاجن نے کہا کہ انہوں نے تحریک التو کی احمد کی نوٹس مسترد کردی ہے اور بحث کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ تاہم وزیر پارلیمانیا مور ایم وینکیا نائیڈو نے ارکان پر زور دیا کہ وہ وقفہ سوالات کے بعد یہ مسئلہ اٹھائیں ۔
آگرہ
یو این آئی
آگرہ میں گزشتہ اتوار کو57مسلم خاندانوں کے تبدیل مذہب کرنے اور ہندو مت قبول کرنے کے مبینہ واقعہ پر ضلع حکام نے کل رات ایک ایف آئی آر درج کرلیا۔ پولیس ذرائع نے بتایا کہ یہ ایف آئی آر ، کسی تنظیم کے نام پر نہیں بلکہ ایک فرد کے نام پر درج کیا گیا ۔ تاج محل کے شہر آگرہ کے صدر پولیس اسٹیشن میں یہ ایف آئی آر، قانون تعزیرات ہند کی دفعات153-Aاور415کے تحت درج کیا گیا ہے ۔ بتایاجاتا ہے کہ ایف آئی آر میں درج مبینہ ملزم کشوروالمیکی ، دھرم جاگرن منچ سے تعلق رکھتا ہے اور اس منچ نے تبدیلی مذہب کا پروگرام منعقد کیا تھا ۔ دفعہ153-Aمذہب، نسل مقام پیدائش مقام رہائش، زبان کی بنیاد پر مختلف گروپوں کے درمیان مخاصمت کو فروغ دینے کے جرم سے متعلق ہے جب کہ دفعہ415دھوکہ دہی کے جرم سے متعلق ہے ۔ اسی دوران دھرم جا گرن منچ کے علاقائی صدر راجیشور سنگھ نے تبدیلی مذہب کی تقریب کے انعقاد میں اپنی تنظیم کے رول کو قبول کرلیا ہے اور دعویٰ کیا ہے ۔ کہ ماضی میں بھی ایسی تقاریب کا اہتمام کیا گیا تھا ۔ راجیشور سنگھ نے بتایا کہ وہ آئندہ25دسمبر کو کرسمس کے موقع پر علی گڑھ میں تبدیلی مذہب کا ایک گڑاپروگرام منعقد کرنے کے منصوبے رکھتے ہیں جہاں بقول ان کے لگ بھگ5ہزار مسلمان عیسائی ہندو ازم قبول کریں گے ۔ تاہم کئی مسلمانوں نے جنہوں نے مبینہ طور پر ہندو از قبول کرلیا ہے ، انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے راشن کارڈس اور مکانات کے مفت حصول کے لئے ’’گھر واپسی‘‘تقریب میں شرکت کی تھی لیکن زعفرانی تنظیموں نے اس دعویٰ کو مسترد کردیا اور کہا ہے کہ ’’دوبارہ تبدیلی مذہب‘‘ کے لئے کوئی ترغیب نہیں دی گئی تھی ۔
نئی دہلی
یو این آئی
صدر کل ہند مجلس اتحاد المسلمین و رکن پارلیمنٹ حیدرآباد بیرسٹر اسد الدین اویسی نے آگرہ میں مبینہ تبدیلی مذہب کے واقعہ کے لئے مرکز کی بی جے پی حکومت کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے آج کہاکہ اس نے ایسی سر گرمیوں کا ٹھیکہ راشٹریہ سیوک سنگھ( آر ایس ایس) سے منسلک تنظیموں کو دے دیا ہے ۔ بیرسٹر اویسی نے پارلیمنٹ کے احاطہ میں صھافیوں سے کہا کہ دستور میں ہندوستان کو ایک سیکولر ملک قرار دیا گیا ہے اور ملک کی اس شکل کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری مرکز ی حکومت کی ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اس موضوع پر ایک لفظ بھی نہیں کہا ۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم سب کا ساتھ سب کا وکاس کی بات کرتے ہیں۔ لال قلعہ کی فصیل سے انہوں اہل وطن سے گزارش کی تھی کہ وہ دس سال تک اپنی پوری توجہ ترقی پر دیں۔ لیکن آر ایس ایس سے منسلک تنظیمیں ملک میں فرقہ پرستی کو ہوا دے رہی ہیں اور وزیر اعظم خاموش ہیں ۔ بیرسٹر اویسی نے کہا کہ سپریم کورٹ کئی بار کہہ چکا ہے کہ جبراً تبدیلی مذہب غیر قانونی ہے اور اس میں شامل لوگوں کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کی غریبی کا مذاق اڑایاجارہا ہے اور انہیں لالچ دے کر مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیاجارہا ہے ۔اتر پردیش کی حکمراں سماج وادی پارٹی کا چہرہ بھی اس سلسلہ میں سامنے آچکا ہے ۔ اس وقت اس کا رویہ اس معاملہ میں ڈھیلا رہا ہے۔ بیرسٹر اویسی نے کہا کہ ملک میں کسان خود کشی کررہے ہیں، عوام مہنگائی سے پریشان ہیں، عورتوں کی عصمت ریزہ ریزہ کی جارہی ہے ۔ لیکن حکمراں پارٹی کے لوگ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ماحول کو بگاڑنے میں مصروف ہیں ۔ اس سے ان لوگوں کا اصلی چہرہ ملک کے عوام کے سامنے آجائے گا۔
جبری تبدیلی مذہب معاملہ
تحقیقات کروانے دارالعلوم دیوبند کا مطالبہ
دیوبند
یواین آئی
ملک کے سب سے بڑی اور اہم دینی درسگاہ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی نے آگرہ میں مسلمانوں کا مذہب تبدیل کرنے ہندو بنائے جانے کے معاملے کی تحقیقات کروانے اور ضروری کارروائی کرنے کا ریاستی حکومت سے مطالبہ کیا ہے ۔ ادارہ کے ترجمان عارف عثمانی نے مہتمم کی طرف سے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا کے حوالے سے ایسی اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ آگرہ میں60مسلم خاندانوں کا مذہب تبدیل کرایا گیا ہے ۔ معروف عالم دین مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے واقعہ کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر تبدیلی مذہب جبراً ہوا ہے یا اس کے لئے کوئی رشوت دی گئی ہے تو مرکز کے ساتھ ساتھ ریاستی حکومت کو بھی اس میں مداخلت کرتے ہوئے اقدام کرنا چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ25دسمبر کو بڑے پیمانہ پر تبدیلی مذہب کے لئے آر ایس ایس کے منصوبہ کی اطلاع ہے حکومت کو چاہئے کہ ملک میں کہیں بھی جبراً یہ کام ہونے سے روکے ۔ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود مدنی نے بھی واقعہ پر تنقید کی اور اس میں ملوث افراد اور تنظیموں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے25دسمبر کے پروگرام پر امتناع عائد کرنے کا مطالبہ کیا ۔

Conversion of Muslims in Agra echoes in Parliament

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں