مغرب پرستی اور مسلمان - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-11-10

مغرب پرستی اور مسلمان

Muslims-and-the-west
فی زماننا ہر جانب ملتِ اسلامیہ داخلی وخارجی مسائل سے دوچار ہے، ہر نیا سورج اپنے دامن میں ہمارا لہو لے کر روشن ہوتا ہے۔ صیہونی اور دجالی قوتیں ہر آن پینترے بدل بدل کر ہم پر حملہ آور ہیں، جن کا مقصودِ زندگی فقط یہ ہے کہ ملتِ اسلامیہ کا وجود عدم سے جاملے اور اگر وہ باقی بھی رہے تو محض عضو معطل بن کر۔ اس میں اخلاق وکردار ہو نہ تاثر وتاثیر۔ اس پر طرہ یہ کہ ہمیں احساسِ زیاں تک نہیں۔
آج ہم اپنی تاریخ، اپنی تہذیب، اپنی زبان اور اپنی ثقافت، تمام تر سرمایہ سے غافل ہوتے جارہے ہیں، اور اپنے ہاتھوں سے اپنے گھروں، نیز معاشرے میں ایک بالکل بے حس، بے شعور، گونگی بہری، خود میں مست ومگن اور لہو ولعب کی دل دادہ قوم ونسل تیار کررہے ہیں۔ ہمارے حواس سن ہوچکے اور ہمارا جوش سرد پڑچکا ہے۔ ہماری عقیدت کا مینارہ منہ کے بل گر چکا اور طرح طرح کے تحفظات ہمارے ذہن پر عالب آگئے، اور ہم نے ’’بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے‘‘ کو اپنا وطیرہ بنالیا ہے۔ جس قوم وملت کو ہمارے پیغمبر رحمۃ للعالمین ﷺ نے ہر ہر مسئلہ وموقعہ پر اپنی مبارک ومسعود سنت سے نوازا تھا، آج وہی قوم دوسروں کی جانب للچائی نظروں سے دیکھ رہی ہے۔ اور ہم رونا روتے ہیں اس بات کا کہ مسلمانوں کے ساتھ ہر جگہ سوتیلا برتاؤ کیا جاتا ہے، مسلمانوں کو مٹانے کی ہر جگہ حتی الامکان کوشش کی جارہی ہے، سارا زمانہ مسلمان دشمنی پر برسرِ پیکار ہے، لیکن واقعی آپ غور کیجئے تو ان خارجی چیلنجز کے ساتھ ہمارے ساتھ آج سب سے بڑا مسئلہ داخلی چیلنجز کا ہے۔ اس لیے کہ ہماری غفلت اور دین بے زاری کے نتیجہ میں ہماری جو نئی نسل تیار ہورہی ہے، وہ ایک ایسا کورا کاغذ ہے، جس پر اغیار نے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت بڑی بے دردی سے قلم چلایا ہے، اور ایسے خطوط کھینچے ہیں، جو اسلام اور مسلمانوں، ہر دو کے لیے نہایت ضرر رساں ہیں۔ اور ہمارے اس عظیم سرمایہ اور مالِ خام کو ان ’’یار‘‘ اور ’’عیار‘‘ لوگوں نے پختہ کیا ہے جو ہرگز نہیں چاہتے کہ اسلام ومسلمان پھولے پھلے۔ یہی وجہ ہے کہ قوم وملت آج ملی احساس وشعور سے کھوکھلی ہے۔ اس لیے کہ اس کی آنکھیں ہی ایسے وقت وماحول میں کھلی ہیں کہ ہر سو مغربیت کا ڈنکا بج رہا تھا، اور ہر زبانِ خاص وعام، صرف مغربیت کی مدح سرا تھی۔ انہوں نے مشاہدہ کیا کہ اسلام کو ماننے والے اظہارِ عقیدت کے موقعوں پر اسلام کی تعریف کرتے ہوئے زمین وآسمان کے قلابے تو ملاتے ہیں، لیکن عملی طور پر مغربیت ہی کو ترجیح دیتے ہیں، آج ہر طرف فیشن کا دور دورہ ہے، اور صرف فیشن اور آزاد خیالی کے نام پر ہر گئے گزرے قول وفعل کو جواز حاصل ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ہماری معاشرت، تہذیب، اندازِ فکر ونظر سب کے سب مکمل طور پر مغربیت کی لپیٹ میں آچکے ہیں، اور ایک حد تک لوگ ذہنی ارتداد کا شکار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا دل مسلمان اور دماغ مغربیت کے بہاؤ میں بہہ چکا ہے۔ ہماری زبان پر بھلے ہی محاسنِ اسلام ہوں، لیکن ہمارا جسم کلی طور پر مغربیت کی زد میں ہے۔
مسلمانوں کے لیے از بس ضروری ہے کہ ان کا دل، عقل کے تابع ہو اور عقل شریعتِ اسلامی کے تابع، لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے۔ ہم شریعت کو عقل کے تابع کرنا چاہتے ہیں اور عقل کو دل کے تابع کرلیا ہے۔ اس کا جو خطرناک نتیجہ برآمد ہونا چاہیے تھا، وہی ہوا، جو عیاں را چہ بیاں۔ آج اسلام کی وقعت رفتہ رفتہ غیر محسوس طور پر ہمارے دلوں سے نکلتی جارہی ہے اور چند مادّی چیزوں کی ایجاد اور حصول سے ہم خوش ہیں کہ ہم نے کامیابی کا راز پالیا۔
ہمیں قطعاً مسلمانوں کے خارجی چیلنجز سے انکار نہیں، لیکن ہوش کے ناخن لیجئے کہ اگر ان حالات میں ہم نے کسی طرح خارجی چیلنجز پر قابو پا بھی لیا، جو کہ ان حالت میں رہتے ہوئے بالکل ناممکن ہے، تو کیا آپ یہ تسلیم کرسکتے ہیں کہ ہمارے داخلی چیلنجز خود بخود ختم ہوجائیں گے؟ ہرگز نہیں۔اس لیے کہ یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ داخلی سلامتی پر ہی خارجی سلامتی کا انحصار ہوتا ہے۔ اگر ہمارا باطن درست نہیں ہوا، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ہمارا ظاہر درست ہوجائے گا؟ یہی وجہ ہے کہ حلقہ بہ گوش اسلام ہونے کے لیے قلب کی تصدیق اور زبان سے اقرار کو لازم قرار دیا گیا، کیونکہ ان دونوں کا ایسا ہی ساتھ ہے جیسے ظہر وبطن۔ اور یہ بھی ایک عام سی بات ہے کہ انسان پہلے عمارت تعمیر کرتا ہے، پھر اس کے رنگ وروگن اور شکوہ پر توجہ دی جاتی ہے، جب ہمارے پاس ایمان واسلام کی عمارت ہی موجود نہیں ہوگی تو رنگ وروگن چہ معنی؟
اب بھی آپ پر ہماری بات واضح نہ ہوئی ہو تو ایک نظر اٹھاکر ان ترقی یافتہ ممالک کی جانب دیکھئے، جنہیں کسی خارجی چیلنج کا سامنا نہیں، لیکن ان کے یہاں داخلی چیلنجز کی بھر مار ہے، کسی کل انہیں چین نصیب نہیں۔ وہاں لوگ چمکتے ہوئے مکانوں میں تو رہتے ہیں، لیکن ان کے دلوں میں رنج والم کی سیاہی چھائی ہوئی ہے۔ والدین کو اولاد سے سروکار ہے نہ اولاد کو والدین کی کوئی فکر۔ وہ لوگ اپنے کتوں پر تو پیار ومحبت لٹاتے ہیں، لیکن اپنی اولاد کے لیے ان کے پاس وقت نہیں، اسی طرح ان کی اولادیں اپنے کتوں کے ساتھ تو گھومنے جاتی ہیں، لیکن ان کے پاس اپنے والدین کے پاس چند لمحے بیٹھنے کی فرصت نہیں۔ جرائم وگناہوں کا وہاں ایک طوفان بپا ہے، جس نے اندرونِ خانہ کو تہ وبالا کردیا ہے، اور وہاں جس خدا بے زاری اور دین بے زاری کا معاملہ ومظاہرہ کیا گیا تھا اس کا یہی نتیجہ برآمد ہونا چاہیے تھا۔ بس کوئی وقت جاتا ہے کہ ان کی یہ اندرونی تباہی ان کے بیرونی غلبہ وتفوق میں ایسا انقلاب برپا کردے گی کہ زمانہ دیکھے گا۔
ضرورت ہے کہ ہم ان کی زندگیوں سے سبق حاصل کریں، نہ یہ کہ ان کی ہر اچھی بری چیز میں نقالی کرنے لگیں۔ ہمیں ان کی ذہنی غلامی اور مرعوبیت سے باہر آنا چاہیے اور اس بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنے کی ہر ممکنہ کوشش کرنی چاہیے۔ ورنہ وہ دن دور نہیں کہ یہ مرعوبیت اور ذہنی غلامی ہمیں لے ڈوبے گی۔ اس لیے کہ یہ ذہنی غلامی ایسی لعنت ہے، جس میں مبتلا قوم مُروں کی مانند ہوجاتی ہے۔ نہ اس کی عقل کام کرتی ہے، نہ وہ کسی خبر کو سننے اور سمجھنے پر آمادہ ہوتی ہے۔ بس وہ تو اپنی ’’محبوبہ قوم‘‘ کے اشاروں پر ناچتی ہے، بلکہ بعض دفعہ اس قوم کو اشارہ بھی نہیں کرنا پڑتا۔ آج ملتِ اسلامیہ کی حالت بھی یہی ہے اور وہ اس لعنت میں بری طرح گرفتار ہے۔ وہ اپنی تہذیب، اپنی تاریخ، اپنی زبان اور اپنے کردار کو یکسر فراموش کرچکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملتِ اسلامیہ میں وہ جذبہ نظر نہیں آتا جو اسے اس قعرِ مذلت سے نکالے، اور پھر مقامِ بلند پر فائز کرے، جس پر یہ ماضی میں فائز تھی۔
ہمیں اس خطرہ کا احساس ہونا چاہیے اور اسے ٹالنے کے لیے کمر بستہ ہوجانا چاہیے۔ خصوصاً ان حضرات کو جو اپنے سینہ میں ’دل‘ رکھتے ہیں، جنہیں اس قوم وملت کی فکر دامن گیر ہے، اور واقعی وہ چاہتے ہیں کہ اسلام اور مسلمانوں کی ترقی بامِ عروج پر پہنچے۔ کاش کہ وہ دن جلد آئے، جب لوگ اس مصیبت سے آگاہ ہوں اور اس سے نمٹنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ ایسا نہیں کہ ملت کا واپس اس مقامِ بلند پر لوٹنا اب ممکن ہی نہیں، بلکہ اصل ضرورت جہد مسلسل کی ہے، بقول علامہ اقبال:
ہم تو مائل بہ کرم ہیں، کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے؟ رہ رو منزل ہی نہیں
تربیت عام تو ہے، جوہرِ قابل ہی نہیں
جس سے تعمیر ہو آدم کی یہ وہ کل ہی نہیں
کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں

***
مولانا ندیم احمد انصاری
(ڈائریکٹر الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)
alfalahislamicfoundation[@]gmail.com
مولانا ندیم احمد انصاری

Muslims inclination towards Western culture. Article: Nadim Ahmed Ansari

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں