کتاب عرض ہے - ابرارالحق شاطر گورکھپوری کا مرتب کردہ دیوان چرکین - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-09-15

کتاب عرض ہے - ابرارالحق شاطر گورکھپوری کا مرتب کردہ دیوان چرکین

deewan-e-chirkeen
کتاب : دیوان چرکین (مرتب: ابرار الحق شاطر)
مصنف : چرکین
مبصر : تحسین منور

ہمیں اردو شعرو ادب سے ہمیشہ ایک شکایت رہی کہ اس نے حسن کو اس انداز سے ہمارے سامنے پیش کیا کہ ہم ہمیشہ سے حسیناؤں کو کسی اور ہی دنیا کی مخلوق سمجھتے رہے تھے ۔یعنی ہم نے کبھی ان کو اپنے جیسا نہیں سمجھا۔ہمیں تو یہ بات بہت بعد میں سمجھ آئی کہ یہ جو چاند کے ٹکڑے سے ہمارے آس پاس گھومتے رہتے ہیں انھیں بھی پاخانہ پیشاب لگتا ہے۔ ان کے جسم کی بائیولوجی بھی ہماری ہی طرح ہے اور یہ بھی اپنے جسم کے اندر داخل ہوچکی ہواؤں کو نکالنے میں یقین رکھتے ہیں۔ اب یہ ہماری طرح بد تہذیب نہیں ہوتے ۔اس لئے یہ جب جب ہوا کا دم نکالتے ہیں تو اس قدر خاموشی سے یہ عمل ہوتا ہے کہ ہمیں ہوا تک نہیں ملتی اور ہم اسی میں گُم رہتے ہیں کہ یہ حسن کی ادا ٹھہری۔لیکن اس ادائے دل نوازی کو ہم تک جو شاعر لے کر آئے ان میں جعفر زٹلی کے بعد جو نام نہایت " ادب و احترام" کے ساتھ لیا جاتا رہا ہے وہ چرکینؔ کا رہا ہے اور ہم کیوں نہ اس پر فخر کریں کہ بچپن سے جس نام کو سن کر کونے کھدرے میں ان کے نام سے رشتہ جوڑنے والے اشعار کو پڑھتے اور دل کھول کر ہنستے تھے ان کا دیوان بھی ہمارے ہاتھ لگ گیا ہے۔ یہ جان کر اور ہمیں خوشی ہوئی کہ بہت سارے ایسے اشعار جو گالی گلوچ سے بھرے ہوئے تھے اور جنھیں چرکین کے نام کے ساتھ جوڑ دیا گیا تھا وہ ان کے نہیں تھے اور جس نے بھی کوئی فحش شعر کہا اور کسی کو سنایا تو اس میں بھی چرکین کا نام لگا دیا گیا تھا۔ چرکین ؔ سے اس لئے بھی ہمارا تعلق بہت مضبوط رہا ہے کہ اکثر دالد صاحب کے خالہ ذاد بھائی مسلم چچا (مسلم بن عقیل) یہ دعوہ کرتے رہے تھے کہ ان کا تعلق چرکینؔ کے خاندان سے ہے اوران کے پاس چرکینؔ کا دیوان بھی ہے۔ ہم لوگ تہذیب کے دائرے میں رہنے کے چکر میں کبھی ان سے دیوانِ چرکین دکھانے کی ضد نہیں کرتے تھے مگر یہ جو دیوانِ چرکین ہمارے ہاتھ میں آیا جسے ابرارالحق شاطر ؔ گورکھپوری صاحب نے مرتب کیا ہے اس سے مسلم چچا کا دعوہ سچ ثابت ہوگیا کیونکہ اس میں جو شجرہ شیخ باقر علی چرکینؔ رُدولوی ثُمّٓ لکھنوی کا موجود ہے وہ یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ جو کہا کرتے تھے وہ سچ تھا۔
ہم نے دیوانِ چرکینؔ 2012 ء کی 25 فروری کو نئی دہلی کے پرگتی میدان میں عالمی کتاب میلے سے خریدا تھا۔اس کے دو ایڈیشن کا اس میں ذکر ہے ۔ایک 2007 ء میں اور دوسرا 2009 ء میں شائع ہوا ہے۔ ممکن ہے کہ اس بیچ کوئی اور اگر ایڈیشن آیا ہوتو اس کی ہمیں جانکاری نہیں ہے۔ ڈیڑھ سو روپئے کی قیمت والے اس دیوان پر ملنے کا پتہ ابرارالحق شاطرؔ گورکھپوری،محلہ الٰہی باغ ،چھوٹی مسجد کے قریب ،گورکھپور ،اتر پردیش، 273001 تحریر ہے۔ جملہ حقوق محفوظ ہیں مگر کس کے حق میں یہ نہیں تحریر کیا گیا ہے۔ کتاب کے آغاز میں ہی شمس الرحمن فاروقی صاحب کا مقدمہ ہے اور اس میں انھوں نے اس قسم کی شاعری کو لے کر لوگوں کے خیالات کو نظر انداز کرنا چا ہا ہے۔ وہ لکھتے ہیں" اب بھی ایسے بہت سے لوگ ہوں گے جو چرکین تو کیا سودا ،میراور جرائت وغیرہ کی ہجوؤں کے بارے میں بھی محمد حسین آزاد کے ہم خیال ہوں کہ اس کلام کو سن کر شرافت شرم سے آنکھیں بند کر لیتی ہے۔۔۔۔ایسی صورت میں چرکین جیسے " کھلے ہوئے " شاعر کو فحش اور خلافِ تہذیب قرار دیا گیا تو کیا تعجب ہے ۔چرکین کو عموماً شاعرہی نہیں قرار دیا جاتا ،اگر بہت مہربانی کی جاتی ہے تو انھیں "ہزال" ،ورنہ غلاظت آلودہ کہہ کر چھٹی کر دی جاتی ہے۔فاروقی صاحب لکھتے ہیں " چرکین کے یہاں کہیں کہیں ،اور معدودے چند ،ایسے الفاظ ضرور ہیں جو" فحش" کی ضمن میں آسکتے ہیں ،لیکن ان کا زیادہ تر کلام گو موت جیسی "غیر شاعرانہ " باتوں میں کچھ مزاحیہ اور کچھ مضمون آفرینی اور خیال آفرینی کے رنگ پیدا کرنے سے عبارت ہے "۔ وہ آگے لکھتے ہیں " چرکین کے کلام کا مطالعہ کریں تو پہلی نظر میں وہ ہمیں خلاف تہذیب باتیں نظم کرنے والے ہزال معلوم ہوتے ہیں ۔لیکن زرا ٹھہر کر اور تنقیدی نظر کے ساتھ ان کا کلام پڑھا جائے تو دنیا کچھ مختلف دکھائی دیتی ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ چرکین نے غزل کے مضامین یوں لکھے ہیں کہ مضمون آفرینی بھی حاصل ہوئی ہے اور غزل کے مقبول عام طرز کی پیروڈی بھی ہوگئی ہے۔
جانہ اہل آبرو کو دے کبھی گندہ مزاج
حوض پاخانہ میں کب تعمیر فوارہ ہوا
جیسی کرتا ہے کوئی ویسی ہی پیش آتی ہے
کھائے جو آگ ہگے گا وہی انگارے سُرخ
گو ہا چھی چھی کے جو مضمون تھے تحریر اس میں
یار نے موت کے دریا میں بہایا کاغذ
شمس الرحمن فاروقی کے مطابق " چرکین کی برازیات معشوق کو بیت الخلا کی سطح پر لاکر ہمیں یقین دلاتی ہے کہ معشوق بھی ہم جیسا انسان ہے اور اس سے بھی وہی فعال سر زد ہوتے ہیں جو ہم عام ،گندے ،غیر نفیس ،بد صورت انسانوں کے معمولہ افعال ہیں۔"
حاجت جو اس نگار کو استنجے کی ہوئی
آنکھوں کے ڈھیلے عاشق بدنام کے لئے
رونق افزاہو جو پاخانے میں وہ رشکِ بہار
گل ہو لینڈی گو کی شبنم قطرہء پیشاب ہو
کانچ اس کی دیکھ کر چرکیں ؔ نہ ہو کیوں باغ باغ
خوش نما ہوتا ہے ایسا پھول کب کچنال کا
یہ واقعی سوچنے کا مقام ہے کہ ہماری کہانیوں میں ہماری فلموں میں کردار کبھی پاخانہ پیشاب کیوں نہیں کرتے ۔وہ حقیقت کے اتنے قریب کیوں نہیں جاتے ۔ہم انھیں بند کمرے میں کی جانے والی وہ ساری حرکتیں کرتے تو دیکھتے ہیں جو کہ بالکل ذاتی نوعیت کی ہونی چاہئیں۔ ایک دوسرے کو چومتے چاٹتے دیکھتے ہیں۔ ایک ہی بستر میں دو ننگے بدن دکھائی دے جاتے ہیں مگر ہمارے فن کی دنیا انھیں رفع حاجت کے لئے جاتے کبھی نہیں دکھاتی ۔دعوہ ہے کہ ہم حقیقت نگاری کرتے ہیں۔ چرکین نے ہماری دنیا کی وہ حقیقی تصویر ہمارے سامنے پیش کی اور اسے پیش کرنے میں انھوں نے شاعری کے رنگوں کو بھی سامنے رکھا۔ شاعری کو مرنے نہیں دیا ۔شاطرؔ گورکھپوری نے جہاں جہاں سے چرکین کے نسخے انھیں دستیاب ہوئے انھیں سامنے رکھ کر ان کا مستند کلام ہمارے سامنے پیش کر دیا ۔یہ کتاب اس لئے بھی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے کہ اس میں چرکین ؔ کی حیات کے حوالے سے بھی تحقیق کی گئی ہے اوران کے بارے میں کافی معلومات جمع کی گئی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ چرکین کے استاد بھائی سید مقصودعالم مقصودؔ رضوی پہانوی نے ان کا پہلا مجموعہ ان کے انتقال کے 25 برس کے بعد 57۔1856 ء میں شائع کرنے کا کام کیا ۔وہی ایک ایسا دیوان ہے جس سے باقی دیوان ترتیب ہوئے ہیں ۔اس کے علاوہ بھی کئی مطبوعہ دیوان چرکین موجود رہے ہیں۔ جن میں سے ایک ایک رام پور رضا لائبریری اور خدا بخش اورینٹل لائبریری پٹنہ کے پاس بھی ہے۔ ایک قلمی دیوان ہمارے مسلم چچا کے پاس ہونے کی بات بھی یہ کتاب کرتی ہے۔ یہی نہیں شاطرؔ صاحب بتاتے ہیں کہ چرکین کا تذکرہ بہت سے اردو شعرا نے بھی کیا ہے۔ ایک دلچسپ تذکرہ چرکین کا " تذکرہ گلستانِ سُخن " میں ملتا ہے۔وہ یوں ہے ۔
" چرکین تخلص ایک شخص ظریف ،شوخ مزاج ،ساکن لکھنؤ کا ۔وہ ہمیشہ سخن پاکیزہ کا دامن نجاستِ معنوی سے آلودہ رکھتا،یعنی مضامین بول و براز اس طرح شعر میں باندھتا کہ زمینِ سُخن کو گوہ گڑھیا بنا دیتا،مگر اس کی قوتِ شامّہ یک قلم باطل ہوگئی تھی کہ اس غلاظت سے بے دماغ نہ ہوتا تھا۔ انصاف تو یہ ہے کہ ابیات میں ہر چند گوہ اچھالتا اور کاغذکے ہر گوشے میں پیشاب کی نالی بہاتا ،لیکن کوئی لطیف مزاج اس سے دماغ بند نہ کرتا اور کوئی پاکیزہ طبع اس سے گھِن نہ کھاتا ،گویا بحرِ شعر نے اس نجاست کو بہادیاتھا۔"
تذکرہ خندہ ء گل میں چرکین کے بارے میں تحریر ہے " غرض یہ کہ ہمارے نزدیک چرکین نے اگر چہ رنگ نہایت مہمل اور برا اختیا رکیا تھا مگر وہ اپنے طرز کے استادِ بے بدل تھے۔گو اچھالنے کو اپنے دیوان کا ایک مکمل اور لاجواب صنعت بنادیا ہے اور اس غلیظ کی چھینٹوں سے ان کا دامنِ شاعری کمال کا ایک رنگین گلزار پر بہار معلوم ہوتا ہے۔ "
shijrah-chirkeen
اس کتاب میں شاطرؔ گورکھپوری، رُدولی کی تاریخ پر ایک مستند کتاب سمجھی جانے والی " اپنی یادیں رُدولی کی باتیں " میں چرکین کے حوالے سے درج غلطیوں کاشمار کرانا نہیں بھولتے ۔وہ بتاتے ہیں کہ اس کتاب میں چرکین کا نام شیخ جعفر علی غلط دیا گیا ہے جبکہ ان کا نام شیخ باقر علی تھا۔ دراصل مسلم بن عقیل یہی نام بتاتے تھے اس وجہ سے ممکن ہے کہ سید محمد علی زیدی کو یہ نام لکھنے میں غلطی ہوگئی ہو۔ اس کے علاوہ چرکین کے بارے میں اس کتاب میں کہیں لکھا گیا ہے کہ وہ پاکیزہ کلام کہتے تھے مگر لوگ چرا کرپڑھ دیتے تھے اس لئے تنگ آکر انھوں نے بول و براز کا رنگ اپنایا۔شاطرگورکھپوری اس بات کو غلط قرار دیتے ہیں۔ مگر ہم نے رُدولی میں یہی سب سنا تھا کہ اس وجہ سے وہ ایسا لکھنے لگے تھے۔ شاطرؔ گورکھپوری نے دیوانِ چرکین کے سن اشاعت کو لے کر بھی غلطی کی طرف انگلی اٹھائی ہے۔ اس کتاب میں چرکین کے بارے میں کافی معلومات بہم پہنچائی گئی ہے ۔ان کی شاعری ،ان کے استاد ،ان کا شجرہ (دیکھیں تصویر ) ،ان کے شاگرد کے علاوہ ادب میں برازیات پر بھی بحث کی گئی ہے۔ دیکھا جائے تو ان کی 161 ہزلیں اور چند متفرق اشعار ہم تک پہنچے ہیں ۔معلوم نہیں ان کا کتنا کلام تلف ہوا ہے۔ شاطرگورکھپوری لکھتے ہیں " چرکین کی زبان وہی ہے جو مصحفی ؔ ،آتشؔ اور ناسخؔ کی تھی اور اس میں وہی شوکت و جلال ہے ۔لکھنؤ کے محاورے اور الفاظ کام میں لائے گئے ہیں ۔ہزلیں معنیٰ سے پر ہیں اور بہت سوچ کے بعد تخلیق کی گئی ہیں ۔یہ کہنا مبالغہ نہیں ہوگا کہ اشعار کی اچھی تعداد ایسی ہے جو اپنے رنگ اور ادائیگی میں بے مثل ہیں اور شاید اردو شاعری میں ان کا بدل ملنا مشکل ہے۔
روز و شب ہگنے سے تم اس سے خفا رہتے تھے
مہترو خوش رہو ،چرکیں نے وطن چھوڑا
روک کر گھوڑے کو اس نے مری تربت پہ کہا
لید کرنی ہو تو کرلے تو یہیں تھوڑی سی
قبر پہ آکے بھی اس بُت نے نہ موتا افسوس
کام کچھ اپنے نہ مرگ شب ہجراں آئی
پاخانہ وہیں ہوگیا گلزار تمہارا
کھڈّی میں گرا ٹوٹ کے جب ہار تمہارا
ہیں گو کے جہاں ڈھیر وہاں خرمنِ گل تھا
کیا سبز قدم باغ میں آیا تھا خزاں کا
ان اشعار میں زبان کی چاشنی کے ساتھ شاعری کا بے مثال لکھنوی رنگ بھی اچھالیں مار رہا ہے۔ اگر اس میں گو موت کی باتیں نہ ہو تو یہ کسی بھی اپنے وقت کی ایسی شاعری کے مقابلے پر کھڑی کی جاسکتی ہے جسے ادب کا معیار بلند پایہ قرار دیتا ہو۔ لیکن ایک وقت کو اگر رومال کا سہارا لے کر ان اشعار کو غور سے شعرو شاعری کے لحاظ سے دیکھ لیا جائے تو اس میں کیا کمی ہے۔
کوئے جاناں کے جو باشندے ہیں ان کے آگے
باغباں گھورے سے بد تر ہے گلستاں تیرا
شیخ جی اب اس کو بدل ڈالئے
آپ کا عمّامہ سڑا ہو گیا
اپنے ہی سڑے ٹکڑوں پہ کی ہم نے قناعت
چکھا نہ متنجن کسی نوّاب کے خواں کا
تونے آنا جو وہاں غنچہ دہن چھوڑ دیا
گل پہ پیشاب کیا ہم نے چمن چھوڑ دیا
بھر دئے ہیں کھیت بد ہضمی سے ہگ کر شیخ نے
کوئی خواہش مند اب دہقاں نہیں ہے کھاد کا
ہجر میں او گل تیرے چرکینؔ کا
سوکھ کے کانٹا سا بدن ہوگیا
شاطرؔ گورکھپوری نے جس طرح چرکین جیسے شاعر کا یہ مستند دیوان ترتیب دیا ہے اس کے لئے ان کی اس لئے بھی تعریف ہونی چاہئے کہ انھوں نے ایک ایسی شاعری کو ہمارے سامنے لانے کا ہمت بھرا کام کیا ہے کہ جس کے بارے میں لکھتے ہوئے بھی ہم تھرا رہے ہیں کہ صبح صبح اس کو اخبار میں پڑھنے کے بعد ان سبھی شرفا کا کیا حال ہوگا جنھیں ادب کا قبض ہو رہا ہوگا۔ وہ لوگ بھی ہمارے پیچھے ہاتھ دھو کر یا کچھ بھی دھو کر پڑ جائیں گے جو ان دنوں بیت الخلا کی مسکراتی ہوئی اینٹوں سے بار بار لگاتار کی ملاقات کی وجہ سے پریشان ہوں گے ۔حسن و عشق کے وہ دلدادہ تو یقینی طور پر ہمارے قتل کے لئے قلم نکال سکتے ہیں جنھوں نے بچپن سے ہماری ہی طرح حسن کو پری پیکر سمجھ رکھا تھا اور انھیں یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ حسن کو بھی حاجت لگتی ہے۔ ایسے میں شاطرؔ گورکھپوری نے نہ صرف پوری تحقیق کے بعد بے شمار کتابیں کھنگال کر چرکین کا وہ کلام ہم تک پہنچانے کا کام کیا ہے جسے اب ہم ان کی زبان میں مستند تو کہہ ہی سکتے ہیں۔ ویسے ہم نے بھی ایک زمانے میں ان ہی کی طر ز پر کچھ کہنا چاہا تھا مگر نہ جانے کیسے وہ والد صاحب کے ہاتھ لگ گیا تھا۔شعر کچھ یوں تھا ؂
ان کی محفل میں میرا پاد آنا
عجب ایک سانحہ سا ہو گیا ہے
اس کے بعد ہم پر کیا گزری تھی ہم بتا نہیں سکتے ہیں ۔کاش اس وقت تک یہ کتاب ہمارے سامنے ہوتی تو ہم ان سے یہ تو کہہ ہی دیتے کہ کیا ضروری ہے کہ رُدولی سے مجاز ؔ ہی پیدا ہوں ۔آپ کو یاد دلادیں کہ وہاں چرکین ؔ بھی ہوئے ہیں ۔لیکن تب تک ہم ایسا نہیں کہہ پائے تھے۔ ہمارا وہ کلام آج بھی کہیں موجود ہے ۔سوچ رہے ہیں کہ اگلا مجموعہ اسی کا لے آئیں تاکہ اس دم توڑتی ہوئی بدبودار شاعری کو پھر سے ایک نابدان مل جائے۔ورنہ نئی تہذیب اسے کب ویسٹرن ٹوائلٹ کے حوالے کر کے فلش کردے کہا نہیں جا سکتا ہے۔

***
munawermedia[@]gmail.com
موبائل : 09013350525
--
تحسین منور

A Review on book 'Deewan-e-Chirkeen' by Abrarul Haq Shatir. Reviewer: Tehseen Munawer

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں