پی ٹی آئی
ہندوستان نے آج جنوبی ایشیاء کو درپیش خطرات بالخصوص جاریہ سال افغانستان سے بیرونی افواج کے انخلاء کے بعد ر پیش دہشت گردی اور تشدد کے نئے خطرات پر تشویش کا اظہار کیا اور سارک ممالک سے کہا کہ وہ انتہا پسند گروپس اور نظریات سے نمٹنے حکمت عملی وضع کرے۔ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے یہاں سارک ممالک کے وزرائے داخلہ کی چھٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جنوب ایشیائی ممالک کو افغانستان سے بیرونی افواج کے انخلاء کے اس سارے خطہ پر اس کے مضمرات کا محتاط جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن، استحکام اور معاشی ترقی کے ہم سب مشترکہ اور اہم فریق ہیں ۔ ہم فطری طور پر دہشت گردی ، انتہا پسندی اور تشدد کے نئے خطرات کے بارے میں فکر مند ہیں، جو ہندوستان ، بنگلہ دیش اور سری لنکا جیسے جنوبی ایشیائی ممالک کو درپیش ہیں۔ راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ اس دھماکو سلامتی ماحول میں ریاڈیکل اور انتہا پسند نظریات رکھنے والے گروپس قومی سرحدوں کے پاس ایک خطرہ ہیں۔ یہ گروپس پڑوسی اور علاقائی ممالک کو کھلی دھمکیاں بھی دیتے رہتے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیاء کے لئے دہشت گردی کا ایک بڑا مسئلہ ہے جو داخلی ، علاقائی اور بین الاقوامی عوامل کا نتیجہ ہے ،۔ ان ہی عوامل کی وجہ سے اندرون ملک اور بین سرحدی دہشت گردی پیدا ہوتی ہے۔ راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ امریکہ میں9/11دہشت گرد حملوں کے بعد افغانستان میں ایک نئی حکومت قائم ہوئی اور پڑوسی ملک میں حکمت عملی ماحول میں زبردست تبدیلی رونما ہوئی ۔ بین الاقوامی برادری نے نو منتخبہ جمہوری حکومت کی غیر معمولی مدد اور تائید کی ہے ۔ ہمیں امید ہے کہ یہ جاری رہے گی ۔ یہاںیہ تذکرہ مناسب ہوگا کہ نیٹو افواج کا بڑا حصہ جاریہ سال کے اواخر تک افغانستان کا تخلیہ کردے گا کیونکہ طالبان کے خلاف امریکی زیر قیادت جنگ اب ختم ہوچکی ہے ۔ وزیر داخلہ نے سارک کے رکن ممالک سے کہا کہ وہ دہشت گردی کی لعنت سے نمٹنے کے لئے حکمت عملی وضع کرنے پر غور کریں ۔ دہشت گردی میں نہ صرف پر تشددسرگرمیاں شامل ہیں بلکہ معاشی استحکام بھی اس کا ایک حصہ ہے ۔
انہوں نے کہا کہ یہ لازمی ہے کہ تمام جنوب ایشیائی ممالک ایسے قانون متعارف کرائیں جو بین سرحدی دہشت گردی میں ملوث افراد ، تنظیموں اور اس کی اشاعت کرنے والوں کے لئے سخت سزا کی گنجائش فراہم کرتے ہوں ۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ ہندوستان کی تمام تر توجہ ایک ایسا جامع قانون بنانے پر مرکوز ہے جس میں ملک سے خارج کرنے کے طریقہ کار کو مستحکم بنایاجاسکے اور دوسرے ملک کے حوالہ کرنے کی اجازت نہ دینے پر عدالتوں کو ملزمین کے خلاف قانونی کارروائی کے لئے موثر دائرہ اختیار فراہم کیاجاسکے ۔ بعض رکن ممالک نے ابھی تک ، فوجداری معاملات میں باہمی امداد ، کے معاہدہ کی توثیق نہیں کی ہے جس پر2008میں دستخط کئے گئے تھے ۔ میں ان سے خواہش کرتا ہوں کہ وہ ایسا کریں تاکہ فوجداری معاملات میں زیادہ سے زیادہ باہمی قانونی امداد فراہم کی جاسکے ۔
--
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں