ہندوستان میں بعض شر پسند عناصر مسلمانوں خی حب الوطنی پر شک کرتے ہیں اور ہندوستان سے غداری و بے وفائی کا الزام لگاتے ہیں ۔ وفقہ وقفہ سے پڑوسی ملک پاکستان چلے جانے کے بیانات جاری کرتے رہتے ہیں ۔ مسلمان اس سرز مین کو کیوں چھوڑ کر جائیں گے ، جب کہ ہم نے اس سر زمین پر صدیوں حکمرانی و جہان بانی کی ہے ۔ خون جگر سے اس سرزمین کو سینچا ہے ، اس کی آغوش میں پروان چڑھے ہیں، اس کی آزادی کے لئے اپنا لہو بہایا ہے اور جانوں کی قربانیاں دی ہیں ۔ دشمن سے نبرد آزما رہے، برطانوی سامراج کو ختم کرنے میں پہل کی اور ان کے خاتمہ تک جدو جہد جاری رکھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں کے خلاف برطانوی سامراج کی قیامت خیز ظلم و ستم کی طویل فہرست موجود ہے ، اس کے باوصف تاریخی حقائق سے دانستہ چشم پوشی کی جارہی ہے، غلط فہمیاں پیدا کی جارہی ہیں، وطن سے بے وفائی کے بے بنیاد الزامات بڑی دلیری سے چسپاں کیے جارہے ہیں ، حتی کہ مسلمانوں کی حب الوطنی پر شک کیاجارہا ہے اور یہ باور کیاجارہا ہے کہ وہ بنیاد پرست اور اسلام پرست ہوتے ہیں ، ان کے نزدیک وطن اور ملک کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔ یہ کیسا غیر معقول الزام ہے ، جب کہ وطن کی محبت ایک فطری امر ہے اور دین اسلام وطن کی محبت ، شوکت اور اس سے وفاداری کا حامی ہے ۔
تاریخ کی کتابوں میں حضور اکرم ﷺ کے حب الوطنی سے سرشار کلمات سنہری حروف میں ثبت ہیں ۔ جس وقت آپ ﷺ اپنے وطن مالوف مکہ مکرمہ سے کفار کی ظلم و زیادتی کی بناء پر ہجرت فرمارہے تھے ، آپ ﷺ نے فرمایا:’’ اے مکہ! تو کتنا پیارا شہر ہے ، تو مجھے کس قدر محبوب ہے ، اگر میری قوم مجھے تجھ سے نہ نکالتی تو میں تیرے سوا کسی دوسرے مقام پر سکونت اختیار نہ کرتا۔‘‘۔(ترمذی)
مکہ مکرمہ کفار کے زیر تسلط تھا ، کفار و مشرکین کا غلبہ تھا ، بت پرستی کا رواج عام تھا ، اس کے باوصف مکہ مکرہ سے آپ ﷺ کا تعلق بہت گہرا تھا۔ مکہ مکرمہ میں ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے گئے ، لیکن آپ ﷺ نے وطن ترک کرنا نہیں چاہا ۔ جب ظلم و ستم انتہا کو پہنچا تو صحابہ کرام کو حبشہ کی طرف ہجرت کا حکم فرمایا اور آپ ﷺ بذات خود قیام پذیر رہے اور اپنی قوم سے نرمی کی توقعات وابستہ رکھیں، لیکن جب پانی سر سے اونچا ہوگیا اور نرمی کی کوئی توقع باقی نہ رہی تو آپ ﷺ نے بادل نخواستہ ہجرت فرمائی ۔
امام ذہبی علیہ الرحمہ حضور نبی کریم ﷺ کی محبوب و پسندیدہ شخصیات و مقامات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ آپ ﷺ کو حضرت عائشہ ، ان کے والد حضرت ابوبکر ، حضرت اسامہ ، حضرات حسنین کریمین ، میٹھا شہد ، جبل احد اور اپنا وطن محبوب تھا۔‘‘
جب آپ ﷺ نے مدینہ کو اپنا وطن و مسکن بنالیا تو چوں کہ آپ ﷺ مکہ مکرمہ سے فطری و جبلی محبت تھی ، بارگاہ الہی میں دست بہ دعا ہوئے:’’اے پروردگار! مدینہ کو ہمارے نزدیک محبوب بناد ے۔ جس طرح ہم مکہ سے محبت کرتے ہیں ، بلکہ اس سے بھی زیادہ محبت پیدا فرما۔‘‘(بخاری و مسلم)
وطن کو ترک کرنا نفس پر نہایت گراں ہوتا ہے اور سخت تکلیف کا باعث ہوتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنی جان کی محبت کے ساتھ اپنے وطن سے محبت و تعلق کو ظاہر کرتے ہوئے فرمایا:’’اور اگر ہم ان پر لکھ دیتے کہ تم اپنے آپ کو قتل کرلو اور اپنے گھروں سے نکل جاؤ ، تو وہ ہرگز نہ کرتے سوائے معدودچند افراد کے ‘‘۔(سورہ النساء،۶۶) اور ایک مقام پرو طن کی محبت کو دین ومذہب سے جوڑ کرفرمایا:’’ اللہ تعالیٰ نے تم کو ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف سے منع نہیں کیا، جنہوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ نہ کی اور تم کو تمہارے گھروں سے نہ نکالا ہو۔‘‘(سورۃ الممتحنہ۔۸)
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ میں اپنی اہلیہ حضرت ہاجرہ اور فرزند حضرت اسماعیل علیہما السلام کو مستقل سکونت کے لئے چھوڑ دیا اور بارگاہ ایزدی میں عرض پرداز ہوئے ، جس کو قرآن پاک میں اس طرح بیان کیا گیا ہے :’’ اور جب حضرت ابراہیم نے کہا: اے میرے رب! اس کو امن والا شہر بنادے اور اس کے باشندگان کو پھلوں سے سرفراز فرما جو لوگ ان میں سے اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے‘‘۔(سورۃ البقرہ۔۱۲۶)
وطن سے محبت ہو اور اہل وطن سے محبت نہ ہو، یہ ممکن نہیں ۔ بلکہ وطن کی ایک ایک شے سے محبت ہوتی ہے ۔ مسلم شریف میں حضور نبی کریم ﷺ کی دعاء منقول ہے کہ’’اے پروردگار! ابراہیم علیہ السلام تیرے بندے، خلیل اور نبی ہیں اور میں بھی تیرا بندہ اور نبی ہوں ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کے لئے دعا کی تھی اور میں مدینہ منورہ کے لئے وہی بکہ اس کے دو چند کی دعا کرتا ہوں۔‘‘(مسلم شریف)
ایک مسلمان کو بحیثیت مسلمان مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور بیت المقدس سے قلبی محبت ہوتی ہے ، اور یہ اس لئے کہ مسلمانوں کے لئے یہ مقدس و متبرک مقامات ہیں اور اس کا تعلق دین و مذہب سے ہے ۔ مقامات مقدمہ کی محبت وعظمت وطن کی محبت کے مغائر نہیں ، جس طرح ماں باپ کی محبت، اولاد کی محبت کے مغائر نہیں اور دوست و احباب کی محبت، عزیز و اقارب کی محبت کے معارض نہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم مسلمان ہندوستان سے بے پناہ محبت رکھتے ہیں ، اس کے ایک ایک ذرے سے محبت رکھتے ہیں ، اپنے ملک کی ایک انچ زمین کسی دوسرے ملک کو دینا گوارہ نہیں کرتے ۔ اس ملک کو چھوڑ کر کسی دوسرے پڑوسی ملک میں رہائش پذیر ہونے کی آرزو نہیں رکھتے ۔اسی سر زمین پر آنکھیں کھولی ہیں اور ایک دن اسی سرزمین میں پیوند خاک ہوجائیں گے ، لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم اس کی پرستش کریں ، جس طرح دوسرے مذاہب کے لوگ کرتے ہیں ، کیونکہ شاید ان کے نزدیک محبت کا پیمانہ بہت مختصر ہے ، جو بہت جلد لبریز ہوکر چھلک جاتا ہے ۔ ہمارے قلب کی وسعتوں کا کوئی دیگر قوم مقابلہ نہیں کرسکتی ، جس کی ایک بہترین مثال یہ ہے کہ ساری دنیا جانتی ہے کہ مسلمان اپنے نبی سے کس قدر والہانہ محبت رکھتے ہیں ۔ ہمارے نبی کی شان میں ادنی سی بے ادبی ہوجائے تو ساری دنیا میں کہرام مچ جاتا ہے اور عالمی طاقتیں دہل جاتی ہیں ، اس کے باوصف کوئی مسلمان اپنے نبی کی پرستش نہیں کرتا ، وہ صرف اور صرف اپنے پروردگار ہی کی عبادت و پرستش کرتا ہے اور غیر خدا کی عبادت کو موجب کفر سمجھتا ہے ۔ اسی طرح امت مسلمہ نے حضور نبی کریم ﷺ کی زبان فیض ترجمان سے صادر ہونے والے کلمات کی حفاظت کی ہے اور حفاظت حدیث اس امت کا اعجاز و کرشمہ ہے، اس کے باوصف ایک مسلمان اپنے آقا ﷺ کے ایک کلمہ کو قرآن مجید میں شامل کرنے کے لئے تیار نہیں ہوگا، اگر چہ وہ اپنے نبی کواپنے ماں باپ ، بھائی بہن ، اپنی اولاد اور مال و جائداد سے زیادہ محبوب رکھتا ہے ۔ ایک مسلمان اپنے وطن سے دیگر برادران وطن سے کچھ کم محبت نہیں رکھتا، لیکن محبت کا یہ مطلب نہیں کہ وہ محبت میں مغلوب ہوکر وطن اور ملک کوخدا کا درجہ دے دے ، جو فی الواقعی جہالت اور غیر معقولیت ہے ۔ مسلمانوں کی حب الوطنی روز روشن کی طرح عیاں ہے ، ان کو کسی نام نہاد فرقہ پرست کے سر ٹیفکٹ کی چنداں ضرورت نہیں۔
مفتی محمد قاسم صدیقی تسخیر
نائب مفتی جامعہ نظامیہ
Patriotism and Islam
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں