منموہن سنگھ نے 10 سال حکومت کے باوجود کوئی ورثہ نہیں چھوڑا - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-08-02

منموہن سنگھ نے 10 سال حکومت کے باوجود کوئی ورثہ نہیں چھوڑا

نئی دہلی
پی ٹی آئی
نٹور سنگھ نے اپنی خود نوشت سوانح عمری میں سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انہوں نے10سال اقتدار میں رہنے کے بعد اپنے پیچھے کوئی ورثہ نہیں چھوڑی ۔ منموہن سنگھ کے تحت وزیر خارجہ رہنے والے نٹور سنگھ نے کہا کہ وزارت امور خارجہ کے وقار کو گھٹایا گیا ۔ کیونکہ یہ وزیر اعظم کے دفتر سے کام کرتی تھی ۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ کی وزارت عظمیٰ پر تاریخ کا فیصلہ کیا ہوگا ؟ یہیا تو یہ ناواقفیت کی وجہ سے مختلف ہوگا یا پھر محض ایک حاشیہ میں سمٹ جائے گا ۔ منموہن سنگھ کا ورثہ کیا ہوگا۔ افسوس کہ کچھ بھی نہیں ہوگا۔ نٹور سنگھ نے اپنی حالیہ جاری کردہ کتاب’’ایک زندگی کافی نہیں۔‘‘ میں یہ ریمارکس کئے ہیں۔ انہوں نے اپنی نئی تصنیف میں سونیا گاندھی اور سابق وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤ کے درمیان کے تلخ تعلقات کو بھی تفصیل سے اجاگر کیا ہے اور کہا ہے کہ سونیا گاندھی نے نرسمہا راؤ کو کبھی پسند نہیں کیا اور راؤ حیرت زدہ تھے کہ ان سے اس رقابت کی وجہ کیا ہے۔سونیا نے پی وی نرسمہا راؤ کو وزیر اعظم بنایا تھا لیکن وہ انہیں زیادہ پسند نہیں کرتے تھے ۔ میں بھی ان سے الگ ہوکر تیواری کانگریس میں شامل ہوگیا تھا لیکن بعد میں ہم نے معاملہ درست کرلیا ۔ سنگھ نے اپنی حالیہ جاری کردہ کتاب ’’ایک زندگی کافی نہیں‘‘ میں یہ انکشاف کیا ۔
انہوں نے لکھا کہ پی وی نرسمہا راؤ نے سونیا گاندھی سے اپنے تعلقات درست کرنے کے لئے ان کی خدمات طلب کیں۔ اس وقت وہ گاندھی خاندان کے قریبی دوست تھے ۔ انہوں نے لکھا ’’دسمبر1994ء میں راؤ کے ساتھ جب میرے تعلقات صحیح ہوگئے تو انہوں نے مجھ سے اپنے مکان5ریس کورس روڈ پر ملنے کے لئے کہا۔ وہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مضطرب اور بے چین ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں سونیا گاندھی کو اعتماد میں لے سکتا ہوں لیکن میں ایسا کرنا نہیں چاہتا ۔ ان کے بعض مشیر میرے خلاف ان کے کان بھررہے ہیں ۔ میں انہیں سنجیدگی سے نہیں لیتا ۔ میرے تعلق سے ان کا رویہ میری صحت خراب کررہا ہے ۔ وہ اگر چاہتے ہیں کہ میں چلے گاؤں تو انہیں ایسا کہہ دینا چاہئے ۔ میں نے ان کی تمام خواہشوں کو پوراکرنے کے لئے بر وقت ہر ممکن کام کیا ہے ۔ آپ ان کے ساتھ قریب سے کام کرتے ہیں اور جانتے ہوں گے کہ اور جاننا چاہئے کہ سونیا گاندھی مجھ سے اس قدر عناد کیوں رکھتی ہیں ۔‘‘
سابق کانگریسی لیڈر نے مزید لکھا کہ سی ڈبلیو سی کے ایک یادو سینئر ارکان نے یہ تاثر پیدا کیا کہ وہ اصلاحات کے عمل سے خوش نہیں ہیں اور نرسمہا راؤ انہیں نظر انداز کررہے ہیں۔ کانگریس کے تقریباً تمام سینئر ارکان اچھی طرح واقف تھے کہ سونیا گاندھی کا رویہ نرسمہا راؤ کے تئیں سر د مہری پر مبنی ہے۔ انہوں نے یاد کیا کہ نرسمہا راؤ نے وزراء اور اعلیٰ عہدیداروں سے سونیا گاندھی کی راست بات چیت کے لئے(وقف) آر اے ایکس فون ان کی قیام گاہ پر نصب کرنے کی پیشکش کی جس پر ابتداء میں اتفاق کرنے کے بعد سونیا گاندھی نے مسترد کردیا ۔ نٹور سنگھ نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی نے1987میں اپنے کابینی معاونین یا سینئر حکام سے تبادلہ خیال کئے بغیر فوج کو سری لنکا بھیجا تھا ۔ سنگھ نے ایک خانگی چینل کو اپنی کتاب ’’ون لائف از ناٹ اینف‘‘(ایک زندگی کافی نہیں) پر بات چیت کے دوران بتایا کہ راجیو گاندھی نے سری لنکا کے اس وقت کے صدر جے آر جے وردھنے کی کولمبو میں دی گئی کھانے کی دعوت میں فوج کو سری لنکا بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا ۔ انہوں نے اس مسئلہ پر اس وقت اپنی کابینہ کے کسی بھی معاون یا سینئر حکام کے ساتھ تبادلہ خیال نہیں کیاتھا۔ نٹور سنگھ نے بتایا کہ جے وردھنے کو اندیشہ تھا کہ انہیں اقتدار سے ہٹایاجاسکتا ہے لہذا انہوں نے گاندھی سے فوجی مدد مانگی اور سابق وزیر اعظم اس کے لئے فوراً تیار ہوگئے ۔ سابق وزیر خارجہ نے بتایا کہ اس وقت وہ اور مسٹر پی وی نرسمہا راؤ بھی کولمبو میں ہی تھے لیکن انہیں بھی یہ فیصلہ جار ی ہونے کے بعد اس بارے میں پتہ چلا۔ نٹور سنگھ نے راجیو گاندھی کے تعلق اسی طرح کے کئی دیگر دعوے بھی کئے ۔ انہوں نے بتایا کہ گاندھی نے ایل ٹی ٹی ای کے سربراہ وی پربھاکرن پر آنکھیں بند کر کے بھروسہ کیا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ جب میں نے سابق وزیر اعظم سے وی پربھاکرن سے ملاقات کے بعد ان سے پوچھا کہ کیا انہیں کوئی تحریری دستاویز دی گئی ہے تو وہ تھوڑے پریشان ہوگئے اور کہا کہ اس نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ بعد میں پربھاکرن نے گاندھی سمیت کئی لوگوں کو دھوکہ دیا۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں