قومی صدر اے سعید نے کہا کہ بھاگوت کو یہ بات اچھی طرح جان لینی چاہئے کہ لفظ ، ہندو یا ہندوتوا، کسی بھی ہندو مذہبی کتابیں جیسے ویدا، اوپنشیاد،گیتا یا پوران میں شامل ہے۔ انہوں نے ہندوازم اور ہندوتوا کے درمیان فرق کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ دونوں کو مساوی قرار دینا ، ہندو فلسفہ کی بے عزتی کرنے کے مترادف ہے، انہوں نے انتباہ کیا کہ اگر بھارت میں ہندو ثقافت کومسلط کرنے کی کوشش کی گئی تو بھارت ٹکڑوں میں بٹ جائے گا۔بی جے پی اور آر ایس ایس گھٹ بندھن کو اس بات کی وضاحت کرنا ضروری ہے کہ ان کے مطابق ہندو کون ہے، کیا وہ ہندوستان کے شہری کو ہندو کہہ رہے ہیں یا وہ ہندو مذہب کے ایک رکن کو ہندو کہہ رہے ہیں؟ ۔ ان کے بیان سے یہ صاف ظاہر ہورہا ہے کہ وہ عوام کو الجھانے کی کوشش کررہے ہیں اور ہندو ووٹ بینک کو مضبوط بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ آر ایس ایس کو چاہئے کہ وہ اس بات کو تسلیم کرے اور اپنے آپکو اصلاح کرے یہ ملک ہندوستانیوں کا ہے نہ کہ ہندوؤں کاملک ہے۔ قومی صدر نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ہر ایک کہ ذہن میں ایک سوال اٹھا ہے کہ اب کیوں ہندوتوا جذبات کو اجاگر کیا جارہا ہے ، جبکہ لوک سبھا انتخابات سے قبل سب خاموش رہے تھے؟ اگرچہ کہ حزب اختلاف پارٹیوں نے تسلیم کرلیا ہے کہ لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کی بھاری اکثریت سے کامیابی ملنے میں مودی لہر نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ لیکن بھاگوت سمجھتے ہیں کہ عوا م نے اس ملک میں تبدیلی لائی ہے۔ لیکن سنگھ پریوار کے رہنما ہندوتوا اور رام مندر پر ڈھول پیٹنے پر مصروف ہیں۔ ایسا لگتا ہے بھاگوت اس لیے شور مچا رہے ہیں تاکہ عوام ان کی طرف متوجہ ہوسکیں۔ جبکہ دوسری جانب وزیر اعلی نریندر مودی اپنے تقاریر میں ترقی اور مندروں پر بیت الخلاء کے تعمیر کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ قومی صدر اے سعید نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ چار ریاستوں میں انتخابات کو مدنظر رکھتے ہوئے اور سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے بی جے پی اور آر ایس ایس فرقہ وارانہ خطوط پر معاشرے کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ جس دن سے مودی حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے اس دن سے آر ایس ایس اور اس سے جڑی تنظیمیں فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کی سخت کوشش کررہے ہیں۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار مظفر نگر کے تجربے کو ملک کے دیگر حصوں میں دہرانا چاہتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس جس کے ملک اور بیرون ملکوں میں لاکھوں اراکین موجود ہیں۔ مودی کے بر سر اقتدار آتے ہیں ، ہندو ملک کا نعرہ بلند کرنا شروع کردیا ہے۔ جس سے مودی حکومت کی دوہرا رویہ ظاہر ہورہا ہے۔ جبکہ نریندر مودی فرقہ واریت پر پابندی کی بات کررہے ہیں۔ ایسے میں موہن بھاگوت نے اشتعال انگیز بیان دیا ہے۔ نریندر مودی حکومت کو چاہئے کہ وہ سب سے پہلے آر ایس ایس کی فرقہ واریت پر پابندی لگائے۔ قومی صد ر اے سعید نے اس بات کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب سے بی جے پی اقتدار پر قابض ہوئی ہے تب سے آر ایس ایس اور اس سے جڑی تنظیمیں اس طرح کے مختلف اور مسلسل اشتعال انگیز بیانات دیتے آرہے ہیں۔ انہوں نے عوام سے اپیل کیا ہے کہ وہ اس طرح کے بیانات کو مسترد کریں اور عام شہریت اور ذات پات تفریق کے بغیر اپنے اتحاد کو قائم رکھیں۔
Bhagwat's statement threatens country's democracy and integrity - SDPI
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں