تانڈور - مانسون کے آغاز کے تین ہفتہ بعد بھی برسات نہیں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-07-02

تانڈور - مانسون کے آغاز کے تین ہفتہ بعد بھی برسات نہیں

" اُڑ کے بادل کالے کالے جانے چلے جاتے ہیں کہاں ! "
آغاز کے تین ہفتہ بعد بھی مانسون کا کوئی پتہ نہیں !
کسان گھڑوں کے ذریعہ ہری مرچ اور کپاس کی فصلوں کو سیرآب کرنے پر مجبور

مانسون کے آغاز کو پورے تین ہفتہ گذر چکے ہیں ، روز کالے اور گھنے بادل آسمان پر گھر کر آتے ہیں جنہیں دیکھ کرمایوس کسانوں کے چہرے امید و یاس کے ساتھ کھل اٹھتے ہیں لیکن پتہ نہیں کہ حکومتوں، سیاسی قائدین اور سرکاری بابوؤں کے وعدوں اور اعلانات کی طرح ان بادلوں کے غول بھی بیچارے کسانوں کو دھوکہ دیتے ہوئے بناء برسے ہی کہاں جاکر برس جاتے ہیں ! اس ملک میں اگر کسی کو سب سے بڑا بدقسمت ماناجائے تو وہ کسان طبقہ ہے ! بیچارہ اونچی اونچی شرحوں پر قرض حاصل کرکے اپنے کھیتوں میں فصل بوتا ہے کبھی ناقص اور نقلی تخم اس کا بیڑاغرق کردیتے ہیں تو کبھی موسم کی مار اس کو ادھ مرا کردیتی ہے ۔دن رات کی سخت جانفشاں محنت کے بعد اگر قدرت کے رحم و کرم کے باعث فصل اچھی پیدا ہوبھی جاتی ہے تو پھر بازار تک لاتے لاتے بیچارہ کسان خود اپنی محنت کے صلہ سے محروم رہ جاتا ہے ! فصل کے بازار پہنچنے کے بعد دلالوں اورایر کنڈیشنڈ کمروں میں براجمان سیٹھ اور ساہوکاراس کے جسم کا بچا ہوا پسینہ اور خون نچوڑ لینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے حکومت لاکھ اعلانات کرے کہ فصلوں کو حکومت کی طئے شدہ امدادی قیمتوں پر ہی خریدا جائے مگر کسان کو اس کی فصل کی وہی قیمت ملتی ہے جوسرکاری عہدیداروں کی ملی بھگت سے سیٹھ ،ساہوکار طئے کرتے ہیں ! پھر وہی ہوتا ہے جو اس ملک میں کسانوں کے ساتھ برسوں سے ہوتا آیا ہے یعنی ساری فصل کے فروخت کرنے کے بعد بھی بیچارہ کسان فصل کے لئے اونچی شرح پرلی گئی اصل رقم معہ سود باقی ہی رہ جاتا ہے !! کسی بھی فصل کو تخم ریزی سے لیکر بازار تک پہنچانے کے لئے کسان کو کتنی جاں توڑ محنت کرنی پڑتی ہے اس کی زندہ مثال یہ تصویر ہے کہ کس طرح ایک کسان اپنی ایک ایکڑ اراضی پر اگائے گئے ہری مرچ کی فصل کو پانی کے گھڑے کی مدد سے سیرآب کررہا ہے کاش یہ تصویر حکمران وقت کی نظروں سے بھی گذر جائے جنہوں نے اس ملک کے تمام طبقات اور عوام کو" اچھے دِن آنے والے ہیں" کا نعرہ دیا تھا !! دراصل یہ تصویر حلقہ اسمبلی تانڈور کے منڈل پدیمول میں موجود موضع انّا ساگر کے کسان گونگولہ ونکٹیا کے کھیت کی ہے اس کسان نے دو ماہ قبل اپنی ایک ایکڑ زرعی اراضی میں ہری مرچ کی فصل بوئی تھی تاہم اس غریب کسان کے کھیت میں کوئی آبی ذرائع موجود نہیں ہیں اس پر مانسون کا بھی پتہ نہیں ہے تویہ کسان اپنے پڑوسی کسان کے بورویل سے فصل کے فی حصہ کی سیرآبی کے لئے ماہانہ 2؍ہزار روپیوں کی ادائیگی کا معاہدہ کرتے ہوئے پانی حاصل کر رہاتھا اس طرح اب تک اپنی ہری مرچی کی فصل کے چار حصہ اس نے سیرآب بھی کئے تھے کہ اسی دؤران بارش نہ ہونے کے باعث زیر زمین آبی سطح بھی کم ہوگئی تو پڑوسی کسان نے بھی پانی کی فراہمی سے انکار کردیا ۔ اب تک اس فصل پر مرچ کے پھول اُگ آنے چاہئے تھے لیکن ناکافی پانی کے باعث ان کابھی کہیں پتہ نہیں ہے ۔ اب اس کسان کو اپنی فصل بچانا ہے تو یہ بیچارہ اس طرح ادھر ادھر سے دن بھر سخت دھوپ اور گرمی کے باؤجود گھڑے کے ذریعہ پانی لاکر مرچ کے پودوں کو سیرآب کرنے میں مصروف ہے !!
اسی طرح وقارآباد کے موضع تماریڈی پلی میں بھی پوشیا نامی کسان کے دو ایکڑپر مشتمل کھیت میں کپاس کے چھوٹے پودوں کو مزدور گھڑوں اور بکیٹ سے سیر آب کرنے پر مجبورہیں۔ایک طرف ان مناظرکو دیکھ کر کسانوں کی لاچاری کا احساس ہوتا ہے تو دوسری طرف ان کا عزم اور حوصلہ بھی ظاہر ہوتا ہے ! !

Tandur - No rain after 3 weeks of monsoon

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں