دکن کے درخشاں ستارے - ایک مطالعہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-06-24

دکن کے درخشاں ستارے - ایک مطالعہ

deccan-ke-darkshan-sitare
کتاب: دکن کے درخشاں ستارے
مصنف: محمد ارشد مبین زبیری
مبصر :ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل

دور حاضرمیں اردو زبا ن وادب کے فروغ کے سلسلے میں مختلف ا نجمنیں اور ادارے اپنے اپنے طور پر متحدہ کوشش کو جاری رکھے ہوئے ہیں،لیکن اس صدی میں اردو کے فروغ کا کام اداروں اور تنظیموں سے زیادہ فرد واحد کی اپنی سعی وجہد سے انجام پا رہا ہے۔واقعی اردو کے طالب علم،ریسرچ اسکالر،اساتذہ،صحافی ،شعراء وادیب حضرات اردو زبان کو زندہ رکھنے اور اس کے مستقبل کو روشن دیکھنا چاہتے ہیں اس سلسلہ میں کافی حد تک کوشش جاری ہے اور وہ اردو زبان کے فروغ کیلئے منہمک ہیں۔ اردو کی نئی نسل جو کمپیوٹر کی تعلیم سے ہم آہنگ بھی ہے اور ادب کے تقاضوں کو بھی پروان چڑھا رہی ہے قابل ستائیش ہے۔ اردو کے درخشاں مستقبل کے لئے کوشاں ایسے ہی ایک نوجوان ادیب محمد ارشد زبیری ہیں جو ادارہ قومی زبان(اردو اکیڈیمی آندھراپردیش )سے وابستہ ہیں۔انہوں نے بھی اردو ادب کے سرمایہ میں اپنے مضامین اور تصانیف کے ذریعے کچھ حد تک اضافہ کیا ہے۔ "دکن کے درخشاں ستارے" ان کی تازہ ترین کتاب ہے جو اردو اکیڈیمی آندھراپردیش کے مالی تعاون سے شائع ہوئی ہے۔
محمد ارشد مبین زبیری کی یہ کتاب دراصل دکن کی چندمایہ ناز شخصیات کے فن کا احاطہ پیش کرتی ہے جو صنفی اعتبار سے کچھ حد تک خاکہ کا درجہ رکھتی ہیں۔ خاکہ نگاری نثری صنف ہے جس کے ذریعہ کسی شخصیت کی تصویر کو نمایاں طور پرپیش کیا جاتا ہے۔خاکہ نگار کسی شخص کی زندگی کے اہم واقعات کو اختصار کے ساتھ مضمون کی شکل میں پیش کرتا ہے تو وہ خاکہ کہلاتا ہے۔
زیر نظر کتاب"دکن کے درخشاں ستارے"محمد ارشد مبین زبیری کی دوسری تصنیف ہے۔اس سے قبل تحقیقی و تنقیدی مضامین کامجموعہ"تخلیقات" کے عنوان سے2011ء میں زیور طباعت سے آراستہ ہوکر حلقہ ارباب و ادب سے داد وتحسین وصول کر چکاہے۔اس تصنیف میں9شخصیات کا احاطہ کیاگیا ہے جن میں ملا وجہیؔ ،امجد ؔ حیدرآبادی،صفی ؔ اورنگ آبادی،صاحبزادہ محمد علی خان میکشؔ ،ڈاکٹر عبدالحق،شاہد صدیقی،مخدوم ؔ محی الدین،سرورؔ ڈانڈا،شاذؔ تمکنت شامل ہیں جبکہ پہلا مضمون قطب شاہی دورکے شعراء کا احاطہ پیش کرتا ہے۔اس کتاب کا انتساب مصنف نے اپنے والدین اور اساتذہ کے نام معنون کیا ہے۔کتاب کے ٹائٹل سے ہی اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں شامل شخصیات علاقہ دکن کی ادبی کہکشاں کے درخشاں ستارے ہیں۔جن پر مصنف نے خوب طبع آزمائی کی ہے۔شخصیا ت کی مختصر سوانح اور ادبی خدمات وان کے فن کا سر سری جائزہ لیا گیا ہے۔جس کے مطالعہ سے محمدارشد مبین زبیری کی تحقیقی و تنقیدی حس کا انداز تو ہوتا ہی ہے ساتھ میں ان کی ذہانت و فطانت اوران کے قلم میں پختگی کا خوب اظہار ہو تا ہے۔انہوں نے ہر مضمون میں نئے زاویہ سے اپنی بات کو پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
زیر تبصرہ کتاب کا پیش لفظ "ابتدائیہ " کے عنوان سے ڈاکٹر عقیل ہاشمی سابق صدر شعبہ اردو عثمانیہ یو نیورسٹی حیدرآباد نے رقم کیا ہے۔انہوں نے مصنف سے متعلق اپنی رائے اس طرح رقم کی ہے۔"ہمارے درمیان کئی اصحاب مضمون نگاری نیز انشائیہ نگاری کے پہلو بہ پہلو خاکہ نگاری سے بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ایسے ہی ایک صاحب قلم جناب محمد ارشد مبین زبیری بھی ہیں جن کے پیش نظر اس فن کی تئیں اردو کی ترقی و ترویج رہی۔حسن اتفاق وہ ریاستی اردو اکیڈیمی کے ایک ذمہ دار عہدہ دار بھی ہیں۔تصنیف و تالیف کا شوق وراثت میں پایا اور پھر اپنی ذاتی قابلیت و محنت سے ہمہ تن علمی و ابی مشاغل میں منہمک رہتے ہیں"۔ڈاکٹر عقیل ہاشمی نے فاضل مصنف کی توجہ اس جانب بھی دلائی کی ادب میں جب کوئی تحقیقی بات پیش کی جائے تو اس کی سند دی جائے جیسے رباعی کی تعریف کے بارے میں اس کتاب میں چند نئے انکشافات ملتے ہیں جن کا حوالہ تشنگی طلب رہا ہے۔
زیر تبصرہ کتاب کا پہلا مضمون"قطب شاہی دور کے اردو شعراء" جس میں مصنف نے تمہیدکے طور پربہمنی دور، خواجہ بندہ نواز ؒ اور قطب شاہی دور پر سر سری روشنی ڈالی ہے انہوں نے جن شعراء کے تذکر ے اورکلام کے نمونے پیش کئے ہیں ان میں سید محمودؔ ،ملاّ خیالیؔ ،محمد قلیؔ قطب شاہ،ملاّوجہیؔ ،ملاّشیخ احمدؔ ،محمدؔ قطب شاہ،غواصی،عبداللہ ؔ قطب شاہ،جنیدیؔ ،ابن نشاطیؔ شامل ہیں۔اس مضمون کی خامی یہ ہے کہ بعض شعراء سے متعلق صرف دو تا تین سطریں ہی لکھیں گئی ہیں جب کہ دیگرشعراء پر کافی معلومات مہیا کی گئی اوران کے کلام کے نمونے بھی پیش کئے گئے ہیں۔
زیر تبصرہ کتاب کا دوسرا عنوان"ملاّ وجہیؔ دکنی زبان کاپر گو شاعر و نثر نگار" ہے۔انہوں نے اس عنوان کے ملا وجہی سے متعلق معلومات فراہم کی ہیں اور ملاّوجہی کی قطب مشتری کے حوالے سے شعر کی اہمیت اور سلاست سے متعلق لکھا ہے"قطب مشتری کی خصوصیت یہ ہے کہ وجہیؔ نے اس مثنوی کے آغاز میں ایک باب "در شرح شعر گوید" کے عنوان کے تحت بہت خوبصورتی کے ساتھ شعر وادب کی نوعیت واقدار کے بارے میں پوری بالغ نظری کے ساتھ پنے خیالات کا اظہار کیا ہے اور اعلی درجہ کی تنقید بھی کی ہے ؂
جو بے ربط بولے بتیاں پچیس بھلا ہے جو یک بیت بولے سلیس
نکّو تو لئی بولنے کا ہوس اگر خوب بولے تو ایک بیت بس
جسے بات کے ربط کا نام نئیں اسے شعر کہنے سے کچھ کام نئیں (وجہیؔ )
ایسا محسو س ہوتاہے کہ محمد ارشد مبین زبیری کو دکنیا ت سے بے انتہا دلچسپی اور لگاؤ ہے تب ہی تو وہ دکن کے شعراء ،خاص کر قطب شاہی و آصف جاہی دور سے متعلق اپنے مضامین میں خاما فرسائی کرتے نظر آتے ہیں۔اس تصنیف میں بھی قطب شاہی دور کے شعراء کو انھوں نے اپنے مضمون کیلئے منتخب کیا ہے،ان کے مضامین میں سادہ اور سلیس اسلوب پایا جاتا ہے۔کچھ الجھاؤ نہیں پایا جاتا،مصنف کوزبان وبیان پر پوری قدرت حاصل ہے ۔
زیر تبصرہ کتاب میں ایک اہم عنوان"حضرت امجد حیدرآبادی" ہے جس میں فاضل مصنف نے رباعی کے آغاز و ارتقاء سے متعلق معلومات فراہم کی ہے اور لکھا ہے "رباعی در حقیقت لاحول ولاقو ۃالا باللہ کے وزن پر ہوتی ہے" اور ساتھ ہی امجد حیدر آبادی کے فن رباعی کا جائزہ لیا گیا ہے۔'مضمون'ڈاکٹر عبدالحق کے تعلیمی کارنامے"کے تحت ڈاکٹر عبدالحق(کرنولی) کی شخصیت اوران کی تعلیمی خدمات کا مفصل احاطہ پیش کیا گیا ہے ۔اس مضمون کے آغاز میں جس طرح سے انہوں نے تمہید باندھی ہے وہ لا جواب ہے، تلخیص دیکھیں "اس مضمون میں جس بات کی طرف آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہتاہوں وہ یہ کہ اگر عزمِ مصمم ہو،ارادہ نیک ہو،نیت میں اخلاص ہو اور قوم و ملت اور ملک کے لئے کچھ اچھے کام کرنے کا جذبہ ہو تو نہ حالات کو دیکھا جاتا ہے اور نہ عزم کے راستے میں آنے والی تکالیف کی پرواہ کی جاتی ہے بلکہ ساری رکاوٹوں کو پھلانگ کر مینارۂ عظمت پر پہنچا جاسکتا ہے"
زیر نظر تصنیف میں دیگر مضامین بھی کافی اہمیت کے حا مل ہیں۔کتاب کے آخر میں"محمد ارشد مبین زبیری کا تنقیدی شعور"تخلیقات " کی روشنی میں" فرحت حسین خو شدلؔ جھارکھنڈ کا مضمون بھی شامل کیا گیا ہے، محمد ارشدمبین زبیری نے دکن کے ان نمائندہ اشخاص کی مرقع نگاری کے زریعہ نئی نسل کو ایک صالح پیغام دینے کی کامیاب کوشش کی ہیں۔امید کے اردو حلقوں ان کی یہ کتاب خوب دادِتحسین حاصل کرے گی۔ان کی اس دوسری تصنیف کی اشاعت پر صمیمِ قلب سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کے اللہ آپ کے قلم میں اثر دئے۔
اس کتاب کا سرورق دیدہ زیب ہے128صفحات پر مشتمل اس تصنیف کے ناشر ادارہ حصول واشاعتِ علم ،حیدرآبادہیں۔یہ کتاب 120روپئے کی ادئیگی کے ساتھ ورڈ ماسٹر کمپیوٹر سنٹر ،نیو ملے پلی حیدرآباد یا ہدی بک ڈپو پرانی حویلی سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔

***
ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل
مکان نمبر:4-2-75 ، مجید منزل لطیف بازار، نظام آباد 503001 (اے پی )۔
maazeezsohel[@]gmail.com
موبائل : 9299655396
ایم اے عزیز سہیل

A Review on book 'Deccan ke Darkshan Sitare' by Arshad Mubeen Zubairi. Reviewer: Dr. M.A.A.Sohail

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں