ہماچل دریا سانحہ - 4 طلبا کی نعشیں حیدرآباد منتقل - تلاش کاروائی جاری - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-06-11

ہماچل دریا سانحہ - 4 طلبا کی نعشیں حیدرآباد منتقل - تلاش کاروائی جاری

ہماچل پردیش کے دریائے بیاس میں پیش آئے واقعہ میں ہلاک4انجینئرنگ طلباء کی نعشیں فوجی طیارہ کے ذریعہ حیدرآباد لائی گئیں ۔ شہر کے مضافات یا چوپلی میں واقع وی این، آروگنان جیوتی انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ ٹکنالوجی کے 24طلبا جو48رکنی گروپ کا حصہ تھے ، اتوار کی شام دریا بیاس میں پانی کی سطح اچانک بلند ہوجانے پر بہہ گئے تھے ۔ زندہ بچ جانے والے تمام طلباء کل رات ایک اور خصوصی پرواز کے ذریعہ شمس آباد ایر پورٹ پہنچ گئے۔ رات دیر گئے4مہلوک طلباء اے وجیتا لکشمی ، گائتری ، جی ایشوریا اور بی رام بابو کی نعشیں بھی خصوصی پرواز کے ذریعہ شہر لائی گئی۔ چاروں کی آخری رسومات بھی انجام دے دی گئیں۔ تلنگانہ کی حکومت نے خصوصی پروازوں کا انتظام کیا تھا۔ حکومت نے ایک پریس نوٹ جاری کرتے ہوئے بتایا کہ بچ جانے والے تمام طلباء اور ان کے ساتھیوں کی نعشیں خصوصی طیارہ کے ذریعہ براہ چندی گڑھ اور دہلی حیدرآبادلائی گئیں ۔ 4نعشیں لانے والے طیارہ نے بیگم پیٹ ایر پورٹ پر لینڈنگ کی ۔ تلنگانہ اور آندھرا پردیش کی حکومتوں نے حیدرآباد میں ایک مشترکہ کنٹرول روم کا قیام عمل میں لایا ہے ، تاکہ دہلی اور ہماچل پردیش کے عہدیداروں کے ساتھ مسلسل ربط میں رہتے ہوئے بچاؤ و راحت کاری اقدامات کی تفصیلات رشتہ داروں کو پہنچائی جاسکیں ۔ حکومت تلنگانہ نے ایک پریس نوٹ جاری کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے پہلے ہی وزارت دفاع کو ایک ہیلی کاپٹر ایک طیارہ کا انتظام کرنے کی درخواست کی تھی تاکہ واقعہ میں محفوظ رہ جانے والے طلباء اور نعشوں کو حیدرآباد منتقل کیاجاسکے ۔ تلنگانہ کے ڈائرکٹر جنرل آف پولیس انوراگھ شرما نے بتایاکہ حیدرآباد لائی گئی4نعشو ں کا جن میں3نعشیں لڑکیوں کی اور ایک نعش لڑکے کی ہے یہاں پوسٹ مارٹم انجام دیا گیا ۔ تلنگانہ کے ڈپٹی چیف منسٹر محمد محمود علی نے جو بیگم پیٹ ایر پورٹ پر موجود تھے بتایا کہ ریاستی وزیر داخلہ نرسمہا ریڈی اور سینئر سرکاری عہدیدار ایک پولیس ٹیم کے ہمراہ ہماچل پردیش میں ہی مقیم ہیں ۔وہ اس وقت تک پہاڑی ریاست میں کیمپ کریں گے جب تک کہ تمام مہلوک بچوں کی نعشیں پانی سے نکال کر حیدرآبادنہیں بھیج دی جاتیں۔ انہوں نے بتایا کہ وزیر اور عہدیدار ،کام پورا ہونے تک وہیں رہیں گے۔ تلنگانہ کی حکومت نعشوں کو حیدرآباد بھیجنے کے لئے اپنا پورا تعاون کرے گی ۔ اسی دوران آدھرا پردیش کے وزراء کے سرینواس راؤ اور آرکشوبابو کے علاوہ تلنگانہ کے وزیر ٹرانسپورٹ مہندر ریڈی نے شمس آباد ایر پورٹ پر المیہ کے شکار بچوں کے ارکان خاندان سے بات چیت کی ۔ انہوں نے بتایا کہ تلنگانہ کی حکومت دریائے بیاس میں لاپتہ تمام طلباء کو ڈھونڈ نکالنے کے لئے ضروری اقدامات کررہی ہے ۔ ہم ارکان خاندان کے ساتھ بھی بھرپور تعاون کررہے ہیں۔ بچ جانے والے طلباء میں شامل دیویا اور کیتن نے بتایا کہ ہم جب دریا کے کنارے پہنچے تو وہاں پانی نہیں تھا اس لئے ہم نیچے اتر گئے تاکہ خوبصورت نظاروں کے ساتھ تصویر کشی کرسکیں۔ ہم نے دریا میں اترنے سے قبل وہاں موجود مقامی لوگوں سے بھی اس کے بارے میں استفسار کیا تاہم اچانک پانی کی سطح میں اضافہ ہوگیا ۔، اس سے قبل ہم نے پانی چھوڑنے کے سلسلہ میں کوئی سائرن یا الارم کی آواز نہیں سنی ۔ انہوں نے بتایا کہ پانی کے بہاؤ میں اچانک اضافہ ہوتے ہی ہمارے دوست ہمارے آنکھوں کے سامنے بہہ گئے ۔ ہم ہنو ز سکتہ کی حالت میں ہیں ۔

اسی دوران شملہ سے یو این آئی کے بموجب ہماچل پردیش کی دریائے بیاس میں حیدرآباد کے ماباقی19انجینئرنگ طلباء کی نعشیں نکالنے کے لئے بڑے پیمانہ پر تلاشی مہم جاری ہے۔ ان طلباء کے علاوہ ٹور آپریٹر بھی مہلوکین میں شامل ہے ، جس کی تلاش کافی سرگرمی کے ساتھ کی جارہی ہے ،۔ اسی دوران حکومت ہماچل پردیش نے مہلوکین کے ورثاء کے لئے فی کس دیڑھ لاکھ روپے ایکس گریشیا کا اعلان کیا ہے ۔ تا حال صرف پانچ نعشیں نکالی جاسکی ہیں، جن میں چار طلباء اے وجیتا ، بی رام بابو ، جی ایشوریا اور لکشمی گائتری کی نعشیں کل نکالی گئی تھیں اور انہیں حیدرآباد بھی بھیج دیا گیا ہے۔ دیباشیش بوس کی نعش آج صبح نکالی گئی ۔ منڈی میں بوس کا پوسٹ مارٹم کیا گیا اور خصوصی طیارہ کے ذریعہ اسے حیدرآباد بھیجا جارہا ہے۔ تلاشی کارروائیوں میں500ارکان شام ہیں ، جن میں نیشنل ڈیزاسٹر ریسپانس فورس کے84ارکان10ماہر غوطہ خور اور فوج کے سپاہی و دیگر شامل ہیں ۔ وہ پانڈوڈ یام کے نشیبی علاقہ میں16کلو میٹر دور تک9کشتیوں کے ذریعہ لاپتہ طلباء کی نعشیں ڈھونڈ نکالنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، ذرائع نے بتایا کہ 14کلو میٹر کا رقبہ چٹانوں سے بھرا ہوا ہے جس کے نتیجہ میں تلاشی کارروائیوں میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔

Himachal tragedy: Search continues for missing students

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں