ملک کے نامور عالم دین وکشن گنج کے ایم پی مولانا اسرارالحق قاسمی کا دیو بند آمد پراظہار خیال
دیوبند25مئی۔ہندوستان میں جمہوریت کی بنیاد اتنی مضبوط و مستحکم ہے کہ کوئی بھی سیاسی پارٹی آسانی سے ہندوستان کا سیکولر آئین تبدیل نہیں کر سکتی ۔ان خیالات کا اظہار ملک کے نامور عالم دین اور حالیہ لوک سبھا انتخابات میں کشن گنج سے دوبارہ منتخب ہونے والے ممبر آف پارلیمنٹ مولانا اسرارالحق قاسمی نے یہاں آج نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کیا ۔مولانا نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ اگر ملک کے سیکولر ڈھانچہ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کی کوشش کی گئی تو مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلم برادران وطن اس کے خلاف سینہ سپر ہوجائیں گے ۔اس لیے ہمیں منفی سوچ سے گریز کرنا چاہیے کیوں کہ منفی سوچ خوف پیدا کرتی ہے ۔ مسلمان اور خوف دو مختلف چیزیں ہیں ۔ ہندوستان کا عدالتی نظام بھی مستحکم ہے ۔وہ غلط قانون بننے نہیں دے گا ۔
حلقہ کشن گنج سے ایم پی منتخب ہونے کے بعد پہلی مرتبہ دیوبند آنے پر مولانا کا والہانہ استقبال کیا گیا ،دونوں دارالعلوم کے طلباء و اساتذہ سمیت دارالعلوم کے مہتمیم حضرت مولانا محمد سالم قاسمی نے مولانا کی کامیابی پر اظہار مسرت کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ مولانا اس با ر مزید فعالیت و بیباکی کے ساتھ پارلیمنٹ میں حق کی آواز بلند کریں گے ۔آئین اور سیکولر ڈھانچہ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کی کسی بھی کوشش کا مولانا مجاہدانہ انداز میں عالمانہ شان کے مطابق مقابلہ کریں گے ۔دیوبند قیام کے دوران جہاں مولانا نے طلباء حجتہ السلام اکیڈمی کے تحت دارالعلوم وقف دیوبند کے عظیم الشان اجلاس سے خطاب کیا وہیں مختلف اخبارات کے نامہ نگاروں سے بھی تبادلہ خیال کیا ۔
نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا موصوف نے کہا کہ بی جے پی کی کامیابی سے ہمیں مایوس ہونے کی چنداں ضرورت نہیں ہے، فتح و شکست زندگی کا ایک حصہ ہے ۔ہر عروج کا زوال ہے بس ضرورت اس بات کی ہے کہ احتساب کیا جائے اور مستقبل کیلئے لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے ۔مولانا نے کہا کہ اتر پردیش جیسی بڑی ریاست سے کسی بھی مسلم ممبر پارلیمنٹ کا منتخب نہیں ہونا افسوس ناک ضرورہے مگراس سے زیادہ اہم ہے کہ یہ تجزیہ کیا جائے کہ یہ شکست کیوں ملی؟جذباتی انداز میں سوچنے سے زیادہ ہمیں معروضی طور پر غور کرنا چاہیے۔
حالیہ انتخابات کے بعد جس انداز سے بی جے پی کو کامیابی ملی ہے یہ صرف سیاسی پارٹیوں کیلئے لمحہ فکر یہ نہیں ہے بلکہ ملک کی غیر سیاسی تنظیمیں جنہیں سیکولر ازم پر پختہ یقین ہے انہیں غور و فکر کرنی چاہیے کہ آخر بی جے پی کواتنے بڑے پیمانہ پر کامیابی کیوں ملی ۔مولانا نے کہا کہ گزشتہ کئی برسوں سے زمینی سطح پر آر ایس ایس جو خاص فکر و نظریہ کی حامل جماعت ہے بی جے پی کی کامیابی کیلئے سرگرم تھی ۔آر ایس ایس نے مسلمانوں اور برادران وطن کے درمیان ایک ایسی خلیج کھینچ دی ہے جو بڑھتی ہی جارہی ہے ۔اس خلیج کو پاٹنے کیلئے مسلم تنظیموں و جماعتوں کو آگے آنا چاہیے ۔سماجی سطح پر برادران وطن سے روابط بڑھانے کی ضرورت ہے ، ان کے دلوں میں ہمارے تئیں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنے کیلئے اقدامات کیے جانے چاہیے ۔مولانا نے کہا کہ یہ تصور دیا جارہا ہے کہ بی جے پی کو ملک کی آبادی کی اکثریت نے ووٹ دیا ہے ۔یہ بالکل غلط ہے ۔مولانا نے کہا کہ بی جے پی کو صرف 36فیصد ووٹ ملے ہیں ۔یہ ظاہر کرتا ہے کہ 70فیصد لوگوں نے جمہوری پارٹیوں کوووٹ دیا ہے ۔ظاہر ہے کہ 70فیصد میں صرف 15سے 17فیصد مسلم ووٹرس ہیں باقی سب غیر مسلم ووٹرس ہیں ۔انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں تمام مسلم ممبران پارلیمنٹ کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی جائے گی ،تاکہ مسلم مسائل و ایشو زپر مشترکہ موقف سامنے رکھا جائے ۔
مولانا اسرارالحق نے کہا کہ بہار کے سیمانچل علاقہ جہاں مسلم آبادی ایک بڑی تعداد میں ہے ،گزشتہ مرتبہ کشن گنج چھوڑ کر تمام سیٹوں پر بی جے پی کامیابی ہوگئی تھی مگر اس مرتبہ مودی لہر ہونے کے باوجود کامیابی نہیں ملی ۔اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ سیمانچل کے مسلمانوں نے سیاسی بصیرت سے کام لیا ۔جذباتی نعروں کے بجائے اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کیا اگر یہی اسپرٹ دوسری جگہوں پر پائی جاتی تو شاید آج پارلیمنٹ میں صورت حال مختلف ہوتی ۔مولانا نے کہا کہ اس انتخابات میں سیکولر ووٹوں کی بڑے پیمانے پر تقسیم ہوئی، اس کا فائدہ بحرحال بی جے پی کو ملا ۔
--
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں