رشتوں کا جوا - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-05-11

رشتوں کا جوا

relationship
تعلیم یافتہ لڑکیوں کے رشتوں کے تعلق سے نت نئے پیچیدہ مسائل دیکھنے میں آرہے ہیں۔ ماہر سماجیات کو اس موضوع پر غور کرنا چاہئے۔ ان سماجی تبدیلیوں کا کسی فرد پر کیا اثر ہوتا ہے اُس کا جائزہ ماہر نفسیات لیتا ہے۔ آج اسی طرح کے مسائل سے معصوم لوگ پریشان ہیں۔ چند لوگ جب مشورے کیلئے آتے ہیں تب صحیح کیفیات کا علم ہوتا ہے۔ اسی قسم کی ایک نوجوان لڑکی اپنی ماں کے ساتھ مشورے کیلئے آتی ہے۔اُس کے والد گاؤں میں ٹیچر ہیں۔ اُس کی شروع ہی سے یہ خواہش تھی کہ اُس کی اولاد ایک لڑکا اور لڑکی بہترین تعلیم حاصل کرے۔ دونوں ذہین تھے۔ ایک اچھے اور چاہنے والے والد جو خود بہترین ٹیچر بھی تھے گھر میں اچھا تعلیمی ماحول پیدا کئے تھے اور دونوں بھی پسماندہ طبقے والوں کو جتنے مراعات حاصل ہیں اُن کا بھرپور استفادہ کرتے ہوئے اچھی تعلیم حاصل کئے۔ لڑکا اور لڑکی دونوں انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کئے۔ لڑکا ابھی ملازمت حاصل کرنے کے بعد کسی بڑے شہر کو چلا گیا اور خاندان کو معاشی استحکام دلانے کی جدوجہد میں جُٹ گیا۔ ظاہر ہے گاؤں کا ایک غریب ٹیچر جو ایک چھوٹے سے کویلو کے مکان میں رہا کرتا تھا کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ وہ ایک دن امیروں کی طرح زندگی گزارے گا۔ بیوی تو بیچاری اپنا پورا وقت دھویں بھرے باورچی خانے میں گزارتی تھی اور اُس کے دماغ میں ایک ہی بات سمائی ہوئی تھی اور وہ تھی لڑکی کی شادی اور بہو کا جلد سے جلد حمل یاب ہونا۔

لڑکی سنجیدہ، عقل مند اور سمجھدار تھی۔ شہر کے آج کل کے بہترین عصری ماحول میں اُس کو ایک مشہور کمپیوٹر کمپنی میں ناقابل یقین ماہانہ مشاہرے پر ملازمت مل گئی۔ بیچارہ باپ یقین نہیں کیاکہ اُس کی لڑکی کی یافت اُس کے ہیڈ ماسٹر سے بھی کئی گنا زیادہ تھی۔ پہلی تنخواہ کو ہاتھ میں لے کر گننے کا پروگرام بنایا تھا مگر مہینہ گزرنے پر بھی اُس کو اتنی بڑی رقم کہیں دکھائی نہیں دی۔ لڑکی تو نئے نئے کپڑے خریدنے لگی اور ماں باپ دونوں کیلئے قیمتی کپڑے وغیرہ خریدی مگر وہ تو تیاری کررہا تھا کہ نوٹوں کے بنڈلوں کو کئی بار گنے گا اور کسی محفوظ جگہ پر رکھے گا۔ پھر وہ سمجھ گیا کہ یہ نئی دنیا کے ہیر پھیر ہیں۔ کاغذ پر بڑی بڑی تنخواہیں لکھ دیئے ہیں اور ہاتھ میں کچھ نہیں ملتا۔ یہ نئی تنخواہیں دینے والے مکار لوگ بڑی بڑی انگریزی باتیں کرتے ہوئے اپنے ملازموں کو بینکوں کی بُری عادتیں ڈال دیتے ہیں اور ان لوگوں کو ہر چیز قرض پر لینے کی عادت سی پڑجاتی ہے۔

اب وہ بھی اپنی بیوی سے متفق ہوگیا کہ جلدی سے جلدی اُس کی شادی کردینی چاہئے مگر لڑکی کی مرضی کے خلاف تو کوئی کام کرنا نہیں تھا گاؤں میں تو کوئی قابل قبول رشتہ نہیں تھا۔ اپنے بچوں کی طرح تعلیم یافتہ نوجوان کوئی تھے ہی نہیں۔ بحالت مجبوری اپنے لڑکے اور اُس کے دوستوں کی مدد سے اشتہارات دیئے گئے اور ایک مناسب رشتہ مل ہی گیا۔ لڑکے والوں کا خاندان بھی ایک گاؤں ہی کا تھا مگر لڑکے کے والد کاشتکار تھے اور جاہل تھے۔ اپنے اکلوتے لڑکے کو اچھی تعلیم دلوائے اور وہ آئی آئی ٹی سے کمیکل انجینئرنگ میں حاصل کیا۔ میں آج تک بھی اس مغالطے میں رہا تھا کہ تعلیم آئی آئی ٹی سے بڑھ کر کوئی تعلیم نہیں ہوسکتی مگر یہ سُن کر تعجب ہورہا ہے کہ کئی لڑکے اس میں داخلہ ملنے کے باوجود اس میں شریک نہیں ہورہے ہیں۔ سنا ہے کہ اس کی مقبولیت میں کمی ہورہی ہے اور اس کی وجہ ہے بہترین یافت کے مواقع کا فقدان، دیکھنے پر تو یہ شخص آئی آئی ٹیسے پاس ہوا تھا مگر نوکری کی تلاش جاری تھی۔ خیر رشتہ پکّا ہوگیا۔ لڑکی معقول تنخواہ حاصل کررہی تھی اور لڑکے کو نوکری ملنے کی قوی اُمید تھی۔

مگر لڑکی کے والد تو نوٹوں کی گڈیاں دیکھنے کے آرزومند تھے۔ لڑکی اُن کی تشویش کو بھانپ گئی اور والد کو سمجھائی کہ تنخواہ بینک میں راست چلی جاتی ہے اور وہ اپنا چھوٹا سا پلاسٹک کارڈ استعمال کرتے ہوئے جتنی رقم اس کو درکار ہے دن رات کبھی بھی نکال سکتی ہے۔والد صاحب خاموش تو ہوگئے مگر یہ عجیب طریقہ کار اُن کو پسند نہیں تھا۔ تنخواہوں کی بڑی بڑی فائلس دکھانے کے بجائے وہ بینک کی چھوٹی چھوٹی چٹھیاں دکھارہی تھی اور اپنے سیل فون پر جہاں کتاب دکھارہی تھی تو اُن کو قطعی پسند نہیں تھا۔ اب لڑکے والے منگنی کے پہلے دس لاکھ کا مطالبہ وہ بھی نوٹوں بھری کشتیاں مٹھائی کے ساتھ دیکھنا چاہ رہے تھے۔ لڑکی کو یہ تمام طور طریقے دقیانوسی نظر آرہے تھے اور وہ اُن کو رقم چیک کے ذریعہ دینا چاہ رہی تھی جس کو نامنظور کیا گیا۔ بحالت مجبوری لڑکی کی مرضی کے خلاف یہ شرط بھی پوری کرنی نہیں پڑی۔ خیر یہ مرحلہ بھیبخیر و خوبی پورا ہوگیا۔ گوکہ یہ لڑکی بھی گاؤں والی ہی تھی مگر ملازمت کی جگہ اُس کی دوستی دوسری لڑکیوں سے ہوئی جو کافی رقم بہترین فیشن ایبل ملبوسات پر خرچ کرنی تھیں اور Beauty Parlour وغیرہ پابندی سے جایا کرتی تھیں۔ اس لڑکی کو ضروری ہوگیا تھا کہ وہ اپنی ساتھیوں کی طرح فیشن ایبل نہیں اور ظاہر ہے اُس کی آمدنی کا زیادہ حصہ ان لوازمات پر خرچ ہوجاتا تھا اس کے والد کو کوئی اندازہ نہیں تھا کہ یہ لباس وغیرہ کتنے قیمتی ہوا کرتے ہیں۔ اگر اُس کے والد والدہ کو پتہ چلے تو اخراجات سن کر بے ہوش ہوجائیں گے۔ پھر بھی ماں بہت حد تک اپنی لڑکی کی نئی فکر کو سمجھتی تھی۔

دس لاکھ روپئے وصول ہونے کے بعد لڑکی اور لڑکا Facebook پر تبادلہ خیالات اور تصاویر کا سلسلہ شروع کئے۔ آہستہ آہستہ لڑکی یہ محسوس کرنے لگی کے دونوں کے خیالات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ دونوں تعلیم کے حد تک تو برابر کے تھے اور لڑکی روزگار سے لگی ہوئی تھی اور لڑکا بے روزگار۔ مگر پھر بھی اُس کی گفتگو میں عجیب قسم کے اور مہمل سے اعتراضات تھے۔سب سے پہلا اعتراض کا تعلق فیشن ایبل لباس کے تعلق سے تھا۔ اُس کا کہنا تھا کہ اتنا عریاں اور ماڈرن لباس پہن کر تم میرے گھر نہیں آسکتی گوکہ لباس عریاں کی تعریف میں نہیں آتا تھا لڑکی نے سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ ایک ترقی یافتہ کمپنی میں اہم عہدے پر مامور ہے اور اس کے لئے خوش پوشاکی ضروری ہے وہ دقیانوسی لباس پہن کر کسی کو صورت دکھانے کے قابل نہیں رہے گی۔ بہرحال اس قسم کی تو تو میں میں کا سلسلہ چلتا رہا اور شادی کی تاریخ قریب آنے لگی۔ لڑکی اُس سے بات کرنے سے ڈرنے لگی کیونکہ خوشگوار گفتگو نہیں ہوا کرتی تھی۔ ہاں ان حالات سے واقف تھی اور ظاہر ہے اسے شوہر کو بھی مطلع کرنا ہی ہوگی مگر بیچارے کریں تو کیا کریں۔

اس تذبذب میں لڑکی ماں کو لے کر مشورے کیلئے آہی گئی۔ اُس کا کہنا تھا کہ اگر ہم دس لاکھ روپئے جوڑے کی رقم نہ دیئے ہوتے تو بغیر کسی جھجک کے اس رشتے کو خیرباد کہہ دیئے ہوتے۔ مگر اب تو گردن اس رشتے میں پھنس گئی؟ کریں تو کیا کریں والد کو جب معلوم ہوا کہ لڑکی رشتے کے تعلق سے متفکر ہے تو وہ بیچاری بھی پریشان ہونے لگا مگر آخر کریں تو کیا کریں۔ والد اور والدہ لڑکی کو سمجھانے لگے کہ شادی کے بعد جب اولاد ہوجائے گی تو میاں بیوی میں رشتے بہتر ہوتے جائیں گے۔ مجھے تو پتہ چل گیا تھا کہ شوہر سخت مزاج ہے اور رہے گا۔ شادی کے قبل ہی وہ شرائط رکھنے لگا تو شادی کے بعد بیوی پر حکومت کرے گا۔ پھر میں نے پوچھا ’’آپ لوگوں کے پاس دوسرا مناسب رشتہ ملنا کتنا آسان یا مشکل ہے‘‘ ماں کہنے لگی کہ بہت مشکل ہے اب یہ سنگین مسئلہ درپیش ہوگیا۔ اچھے رشتے آسانی سے نہیں ملتے ہیں۔ پھر لڑکی کے رویے میں میں نے دیکھا کہ کافی لچک تھی۔ وہ حالات سے معاہدے کرنے کے لئے تیارتھی مگر جبر و تشدد کو وہ برداشت کرنے کے قابل نہیں تھی۔ پھر میںنے کہاکہ چونکہ اس کو بہ آسانی یہاں پر ملازمت نہیں مل رہی ہے تو دعا کرو کہ خلیج میں کہیں مل جائے تو مڈ بھیڑ کے مواقع کم ہوجائیں گے۔ مگر وہ باہر ملازمت نہیں کرنا چاہتا تھا۔ لڑکی نے کہاکہ اس نے اس سے کہاکہ وہ اُس کی مرضی کے مطابق اس کے گھر میں کپڑے پہنے گی مگر دفتر اور اپنے گھر میں اُس کو اپنی مرضی کے مطابق رہنے کی آزادی ہونی چاہئے تو اس نے مراسلت منقطع کردیا۔

میں نے مشورہ دیا کہ اب موقع آگیا ہے کہ اس معاملے کو بزرگوں میں شادی سے پہلے لیجانا چاہئے اور اس پر باہمی گفتگو ہونی چاہئے۔ چنانچہ یہ لوگ ایسا ہی کئے اور اُس کے بعد ایسا محسوس ہوا کہ لڑکے کا رویہ کچھ نرم پڑرہا تھا۔ کم از کم اتنا تو ہوا کہ یہ بات دونوں میں رہنے کے بجائے پورے خاندان والوں کے علم میں آگئی اور اس بات کا بھی اظہار ہوگیا کہ لڑکی اس رویے سے ناخوش ہے۔ ظاہر ہے اس کا کچھ اچھا ہی اثر ہوگا۔ یہی بڑے پیچیدہ مسائل ہیں جو آج کل کی شادیوں میں دیکھے جارہے ہیں۔ اس کو سمجھنا چاہئے اور چونکہ والدین مل ملا کر رشتہ منتخب کرتے ہیں تو ان اُلجھن پیدا کرنے والے مسائل پر بھی شادی سے پہلے غور کرلیا جائے تو بعد میں کشیدگیاں کم ہوسکتی ہیں۔

مزاجوں کی موزونیت پر غور کرنا چاہئے۔ لوگوں کو خاص طور سے لڑکی والوں کو خدشہ لگا رہتا ہے کہ زیادہ کریدنے سے اگر کوئی غیر موزوں بات سامنے آجائے تو رشتہ برقرار نہیں رہے گا۔ میں نے لڑکی اور اُس کی ماں سے کہاکہ وہ بزرگوں کے سامنے یہ بات بھی رکھ دیں کہ شادی کے بعد دو سال تک کم از کم اولاد نہیں ہونی چاہئے۔ کافی غور و خوض کے بعد میں یہ بات کہہ رہا ہوں۔ دو سال کے اندر میاں بیوی ایک دوسرے کو سمجھنے لگیں گے اور دونوں خاندانوں کے درمیان خوشگوار تعلقات رہنے لگیں گے۔ آج کل کی تعلیم یافتہ لڑکیوں کے مزاج کو اگر اُن سے شادی کے خواہاں لڑکے اور اُن کے خاندان والے نہ سمجھیں تو غیر ضروری اختلافات اور علیحدگیاں شروع ہوسکتی ہیں۔ تمام مسائل یکساں نہیں ہوا کرتے ہیں اس لئے ان بے جوڑ رشتوں کے لئے کوئی ایک حل نہیں ہوتا ہے۔ ہر فرد جداگانہ شخصیت کا حامل ہے اس کو سمجھنا ضروری ہے۔

بشکریہ : روزنامہ 'سیاست' ، حیدرآباد۔

***
smikhan[@]ymail.com
Mob. : 09985989898, Ph.:040-23227378
#3-6-148, City Nursing Home, Himayat Nagar, Hyderabad -500029
ڈاکٹر مجید خان

The dilemma of relationship. Article: Dr. Majeed Khan

1 تبصرہ:

  1. مـــــــاشاء اللہ ۔۔۔ بہت عمدہ بہت خوب ۔۔ داکٹر مجید خان صاحب جہاں ماہر نفسیات ہیں وہیں معاشرہ کے بہترین نبض شناس بھی ہیں ۔۔۔
    تعمیر نیوز میں ڈاکٹر صاحب کا مضمون پڑھ کر بہت خوشی ہوئی ۔۔علامہ اعجاز فرخ صاحب کے بعد اب ڈاکٹر صاحب کے مضامین کی اشاعت تعمیر کی مقبولیت کا آئینہ ہے ۔۔۔ دلی مبارکباد پیش ہے ۔۔

    جواب دیںحذف کریں