پی ٹی آئی
پاکستانی فوج کا ایک بڑا حصہ اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے ہندوستان کے ساتھ مذاکرات کا خواہاں ہے ۔ ایک نئی تصنیف کے مطابق بات چیت کے ساتھ تمام متبادل راہیں کھلی رکھنے کی وضاحت بھی کردی۳ گئی ہے جن میں معمولی جھڑپیں بھی شامل ہیں۔ڈیمو کریسی، ملٹری پولیٹکسان پاکستان کے مصنف عاقل شاہ نے اپنی تصنیف میں ایک میجر جنرل کے حوالہ سے بتایاکہ ہندوستان کے ساتھ ایک بار تو بات چیت ہوسکتی ہے ۔ ایک موقع تو مذاکرات کو ملنا ہی چاہئے کہ شاید تعلقات میں بہتری پیدا ہو ۔ انہوں نے تاہم یہ وضاحت بھی کردی کہ تمام متبادل راہیں کھلی رکھنا بھی ضروری ہے جن میں معمولی جھڑپیں بھی شامل ہیں ۔ ہارورڈ یونیورسٹی نے گزشتہ ہفتہ کے روز کتاب نشر کی جس کے تعلق سے وضاحت کی گئی کہ ہندوستان کے حوالے سے پاکستانی افواج کے تاریخی رویہ پر یہ اولین جامع مطالعہ ہے ۔ شاہ نے تاہم اس میجر جنرل کی شناخت ظاہر نہیں کی جس کے ساتھ بات چیت کے بعد انہوں نے یہ دعویٰ کیا تھا ۔ملک کی موقر پرنسٹن یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات میں لکچر ر شاہ نے اپنی تصنیف میں یہ خیال بھی ظہار کیا کہ پاکستان آرمی کے موقف میں تبدیلی اور ہندوستان کے ساتھ بات چیت کا اصل مقصد تھوڑی مہلت حاصل کرنا ہے جس کے دوران ملک کے داخلی مسائل حل کرنے کا موقع مل حاصل ہوسکے ۔پاکستان کو در پیش مختلف النوع خطرات اور چیلنجس اور مادی کمزرویوں کے پیش نظر فوجی عہدیدار ذرا ہچکچاہٹ کے ساتھ یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ہندوستان سے متعلق اسلام آبادکی روایتی پالیسی، خواہش کے مطابق سود مند ثابت نہیں ہورہی ہے ۔ اس پالیسی میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خطوط پر ( کے مطابق) کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی غیر مشروط تائید بھی شامل ہے ۔ شاہ نے کتاب تصنیف کرتے وقت4سرویس چیفس (سربراہان بری، بحریہ اور فضائیہ) اور آئی ایس ایس آی کے3سربراہوں کے علاوہ کئی دیگر عہدیداروں کا باقاعدہ انٹرویو لیا تھا۔ انہوں نے تحریر کیا کہ موجودہ صورتحال کے پیش نظر بعض اعلیٰ عہدیدار کھلے ذہن کے ساتھ تمام مسائل پر ہندوستان کے ساتھ بات چیت کی تائید کرتے ہیں ۔ ۔بعض عہدیداروں کا خیال ہے کہ ہندوستان کے ساتھ بات چیت سے علاقائی تنازعات حل کر کے پاکستانی سیکوریٹی میں فروغ کی مہلت نصیب ہوگی تاہم کشمیر سے متعلق بنیادی موقف پر سمجھوتہ ہرگز نہیں کیا جائے گا۔ مصنف عاقل شاہ نے کہا کہ بہترین طریقہ کار پر عمل سے متعلق اختلافات کے باوجود ایک نکتہ پر سبھی متفق ہیں کہ کشمیر سے وابستہ قومی مفاد کے تحفظ کے لئے مضبوط اور مستحکم موقف اختیار کرتے ہوئے بات چیت جاری رکھنے کے لئے پاکستان کی داخلی فضا کو سازگار بنانا ہوگا ۔ تصنیف کے مطابق ایک اور سینئر پاکستانی فوجی عہدیدار نے بتایاکہ دشمن کی سرزمین پر غائبانہ جنگ کی صلاحیت بھی فوجیوں کے لئے ضروری ہے ۔ علازہ ازیں پاکستان کو محفوظ بنانے کے لئے نیو کلیر مزاحم کے ساتھ ساتھ مستحکم اور زوردار سفارتکاری بھی ضروری ہوگی ۔کتاب کے مطابق پاکستانی سرزمین پرہلاکت خیز دہشت گرد گروپس اور جوہری ہتھیاروں کی پرخطر موجودگی سے یہ اندیشہ پیدا ہونے لگا ہے کہ پاکستان ،دنیا میں جوہری اسلحہ(صلاحیت) کا حامل پہلا ناکام ملک بن جائے گا تاہم پاکستانی فوجی ہنوز یہ باور کرتی ہے کہ ہندوستان کے خلاف پاکستان کو محفوظ بنانے کے مقصد میں کامیابی سے متعلق طویل مدتی(مستقل) فوائدکے مقابلہ کم مدتی(عارضی) قیمتیں(نقصانات) معمولی اور کم حیثیت ہیں ۔ ہندوستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری سے متعلق نواز شریف حکومت کے مالیہ اقدامات کے حوالہ سے عاقل شاہ نے کہا کہ ماضی کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایسامحسوس ہوتا ہے کہ حکومت فوج کے تعاون اورمرحمت و کرم سے ہندوستان کے ساتھ بامعنی مذاکرات کے ذریعہ امن معاہدہ طے کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔
'Pak Army wants dialogue with India but with all options open'
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں