نریندر مودی کے خلاف مبینہ طور پر اشتعال انگیز تقریر کرنے کے الزام میں کانگریسی امیدوار عمران مسعود کو 14 دنوں کے عدالتی حراست میں بھیج دیا گیا تھا جو اب ضمانت پر باہر ہیں ۔ دیوبند تھانے میں ان کے خلاف درج کیس میں بہت ہی سنگین دفعات لگائی گئیں ہیں ۔مودی کے خلاف انہوں نے جو تقریر کی ہے وہ چھ ماہ پرانی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ یہ فوٹیج یہ الیکشن کے دوران ہی کیوں جاری کیا گیا اور پولیس نے بغیر کسی تفتیش کے ان کے خلاف اتنے سنگین دفعات کیوں لگائے۔ وہ انہوں نے 2009میں بی جے پی لیڈر وارون گاندھی کے خلاف کیوں نہیں لگائے تھے۔ ان کا بیان انتخابات سے منسلک نہیں تھا۔اس ویڈیو میں ان کے پاس کھڑے شخص کی موت ہو چکی ہے ۔بی جے پی نے اس تقریر پر تنقید کرتے ہوئے الیکشن کمیشن سے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے معاملے میں مسعود کے خلاف کارروائی کرنے کی مانگ کی ہے اور انہوں نے اس ادارے سے مودی سمیت اپنی پارٹی کے تمام رہنماؤں کی حفاظت کو یقینی بنانے کو کہا ہے۔ وہیں بی جے پی کے نائب صدر مختار عباس نقوی نے یہ الزام لگایا ہے کہ سیاسی سیکولرزم ' طالبان سیکولرزم ' میں تبدیل کر رہی ہے۔نقوی نے کہا کہ کانگریس کے لیڈر جس زبان کا استعمال کر رہے ہیں اس سے انتخابات کا ماحول خراب ہو رہا ہے۔اس مبینہ ویڈیو میں عمران مسعود ، مودی کو جان سے مارنے کی دھمکی دیتے ہوئے دیکھے گئے ہیں ۔عمران مسعود کہہ رہے تھے ،"میں سڑک کا آدمی ہوں ، اپنے لوگوں کے لئے جان بھی دے سکتا ہوں ۔۔۔ نہ میں مرنے سے ڈرتا ہوں ، نہ مارنے سے ۔۔۔ وہ ( نریندر مودی ) سمجھتے ہیں یہ گجرات ہے ۔۔ گجرات میں صرف چار فیصد آبادی مسلمانوں کی ہے ، جبکہ یہاں 42 فیصد مسلمان ہیں ۔۔۔ " اس ویڈیو کے سامنے آنے کے بعد اس پر تنقید ہوئی تھی ۔ اگرچہ عمران مسعود نے بھی اس بیان کے لئے معافی مانگ لی تھی ۔ انہوں نے کہا تھا ، '' میں مانتا ہوں ، میں نے غلطی کی ہے اور انتخابات کے دوران ایسی باتیں نہیں کہی جانی چاہئے"۔ اسی کے ساتھ بی جے پی کے ممبر اسمبلی ہیرا لال نے کانگریس کی صدر اور ترقی پسند اتحاد کی چیرپرسن محترمہ سونیا گاندھی کے خلاف تقریر کرتے ہوئے نہایت اشتعال انگیز اور انتہائی بدتمیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے الفاظ کااستعمال کیا جسے ہمیں لکھنا خلاف تہذیب معلوم ہوتا ہے۔ لیکن بی جے پی نے اس کے اب تک کوئی کارروائی نہیں کی بلکہ ٹیلی ویژن مباحثہ میں بی جے پی کا ایک ترجمان ان کے دفاع میں مکمل طور پر اتر آیااورکہاکہ انہوں نے ایسا نہیں کہا ہے۔ پولیس کے ان کے خلاف اب تک ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔ہم عمران مسعودی کی حمایت نہیں کررہے ہیں بلکہ ان کی تقریر کو انتہائی اشتعال ،قابل مذمت اورقابل سزا تصور کرتے ہیں۔ ہم صرف امتیاز کے خلاف ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ عمران معسود کو گرفتار کرنے میں پولیس نے نہایت ہی سرعت کامظاہرہ کیا تھا اس سے پہلے بھی جن مسلمانوں نے بھی اشتعال انگیز تقریر کی انہیں فوراً گرفتار کرلیا گیا۔اس سے اکبر الدین اویسی کو 8 جنوری کو نفرت انگیز تقریر کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ نفرت انگیز تقریر کیا ہے اور کون سی چیزیں نفرت انگیز تقاریر، تفرقہ پھیلانے والے کلمات کے زمرے میں آتی ہیں۔ وکی پیڈیا کے مطابق وہ ایسی باتیں یا کلام کو کہتے ہیں جو کسی شخص یا گروہ کو نسل، رنگ، مذکر مونث، معذوری، جنسی سمت، قومیت، مذہب، یا کسی خواص کی بنا پر بدنام کرے۔قابل دراندازیِ قانونی تناظر میں نفرت انگیز باتیں' ایسے ابلاغ، عمل یا مظاہر کو کہتے ہیں جو اس بنا پر غیر قانونی ہو کہ اس سے کسی فرد یا گروہ کے خلاف زیادتی پر اکسانے کا خدشہ ہو، یا یہ کسی کی تذلیل کرتا ہو یا انہیں دھمکاتا ڈراتا ہو۔ان الفاظ پر غور کریں تو ہندوستانی سیاسی پارٹیوں کا کوئی لیڈر نہیں بچے گا جو ان زمروں میں نہ آتاہو۔ خصوصاً بھارتیہ جنتا پارٹی، شیو سینا، بجرنگ دل، مہاراشٹر نونرمان پارٹی اور دیگر پارٹیاں رات دن مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتی رہتی ہیں اور مسلمانوں کے نہ صرف مذہبی جذبات سے کھلواڑ کرتی ہیں بلکہ مسلمانوں سے تمام حقوق چھین لینے کی بھی باتیں کرتی ہیں۔ نفرت انگیز تقریر کرنے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے صف اول کے رہنما ایل کے اڈوانی نام بھی سرفہرست ہے۔ انہوں نے مختلف یاتراؤں میں مسلمانوں کے خلاف جم کر زہر اگلتے رہے اور رام جنم بھومی کی تحریک چلائی جس کے نتیجے میں بابری مسجد شہید ہوئی ۔ اس موقع پر کارسیوکوں کو بابری مسجد شہید کرنے کے لئے اکساتے رہے۔ مئی 2009میں بابری مسجد شہادت کے دن ایل کے اڈوانی کی حفاظت پر مامور آئی پی ایس افسر انجو گپتا نے بھی اس کی تصدیق کی تھی۔ مرکزی کزی تفتیشی بیورو (سی بی آئی) کی خصوصی عدالت میں سماعت کے دوران اس معاملے کی کلیدی گواہ انجو گپتا نے کہا تھا کہ مسٹر اڈوانی کی تقریر اشتعال انگیز اور جوشیلی تھی اڈوانی بابری مسجد کی شہادت کے وقت نہایت خوش تھے وکارسیوکوں کو ورغلارہے تھے بار بار ان کو مخاطب کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ مندر یہیں بنے گا۔سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے جج گلاب سنگھ کی عدالت میں بیان درج کرانے والی آئی پی ایس آفیسر نویں گواہ ہیں۔ وہ واحد آفیسر ہیں جنہوں نے اپنا بیان ریکارڈ درج کرانے پر اتفاق کیا تھا جبکہ زیادہ تر آفیسروں نے سیاسی تنازعہ میں ملوث ہونے سے انکار کردیا تھا۔محترمہ گپتا کا بیان 1993 میں مسٹر اڈوانی مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی، ونے کٹیار، اشوک سنگھل، گری راج کشور، وشنو ہری ڈالمیا اور سادھوی رتمبھرا کے خلاف فوجداری مقدمہ درج کرنے کے لئے اہم بنیاد بنا تھا۔ابتدا میں ان آٹھوں افراد کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 120 بی، 147، 149، 153 اے، 153 بی اور 505 کے تحت الزامات عائد کئے گئے تھے۔ یہ دفعات عام طور پر اشتعال انگیز تقاریر کرنے اور اکسانے کے معاملہ میں لگائے جاتے ہیں۔ جولائی 2005 میں مسٹر اڈوانی کو تمام الزامات سے بری کردیا گیا تھا لیکن الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنو بنچ نے بدامنی پھیلانے کے علاوہ فرقوں کے درمیان دشمنی کا جذبہ پیدا کرنے کے ارادے عوام کو دنگا فساد کرنے، لوٹ پاٹ کے لئے اکسانے کا چارج دوبارہ بحال کردیا تھا لیکن ان کے لوگوں کے خلاف پولیس نے ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔ 17برس کے مقدمہ میں ابھی تک(2009) صرف چھ گواہ ہی پیش ہوئے تھے ، مقدمہ کا فیصلہ عمر نوح لے کر آنے والے ہی لوگ سن اور دیکھ سکیں گے۔ مقدمہ کافیصلہ آتے آتے بابری مسجد کے اصل قاتل اڈوانی اگر حیات ہوں گے تو عمر کی کس منزل میں ہوں گے کچھ نہیں کہا جاسکتاہے۔
فروری ماہ کے آخری ہفتے میں (2003) ہی سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو ایک نوٹس جاری کیا تھا تاکہ" اشتعال انگیز بیان "دینے کے لئے نریندر مودی، اشوک سنگھل جیسوں پر سخت کارروائی کی جا سکے۔اس نے گجرات پر اپنے آخری حکم (31 مئی 2002) کے تحت توگڑیا، مودی، سنگھل اینڈ کمپنی کے مختلف نفرت انگیز بیانات پر غور کرتے ہوئے جنہوں نے گودھرا کے افسوسناک واقعہ کے بعد ماحول کو زہر آلود بنانے میں کردار ادا کیاتھا، کے سلسلے میں ہدایت دی تھی ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسی انسانی حقوق کی تنظیم نے بھی اشوک سنگھل کے ذریعہ دیئے جا رہے نفرت پھیلانے والے بیانات کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے یہ بھی خبردار کیا تھا کہ اس طرح کے بیان آتے رہے تو"نئے سرے سے تشدد بھڑک سکتا ہے اور پھر پہلے سے زیادہ پریشانی میں رہ رہے لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے"۔ (16 ستمبر 2002)سبرامنیم سوامی نے 16 جولائی2011 کو ایک انگریزی روزنامہ (DNA) کے لئے ایک مضمون لکھا تھا ۔انہوں نے اپنے مضمون میں اسلامی دہشت گردی کو ملک کی اندرونی سلامتی کے لئے سب سے بڑا چیلنج قرار دیا تھا۔ انہوں نے مسلمانوں کو ووٹنگ کا حق نہ دئے جانے کا مطالبہ کرتے ہوئے انہیں ملک مخالف قرار دیا تھا۔سوامی نے تجویز پیش کی تھی کہ ہندوستان کے ہندو قوم کو اعلان کر دینا چاہیے اور یہاں غیر ہندوؤں سے ووٹ دینے کا حق چھین لینا چاہئے۔ انہوں نے کہا تھا کہ مسلمانوں یا ان جیسے غیر ہندو کمیونٹی کے لوگوں کو ووٹ دینے کا حق تبھی ملنا چاہیے جب وہ فخر سے یہ بات تسلیم کریں کہ ان کے آباء و اجداد ہندو تھے۔ سوامی نے اپنے مضمون میں مبینہ طور پر کہا تھا کہ سخت گیر مسلمان ہندو اکثریت والے ہندوستان پر فتح کو اپنا ایسا ایجنڈا سمجھتے ہیں ، جسے پورا کیا جانا ابھی باقی ہے۔میں مسلم کٹر پسندوں کو ہندوؤں کو نشانہ بنائے جانے کے لیے قصور وار نہیں مانتا بلکہ ہندوؤں کو قصوروار مانتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ایک ایسا شخص جو خود کو ون مین آرمی کے طور پر پیش کرتا ہے ، بے حد فرقہ وارانہ باتیں کرتا ہے اور اسے اخبار میں شائع کیا جاتا ہے۔سوامی نے اپنے مضمون میں یہ بھی لکھا تھا ، ہمیں مجموعی نقطہ نظر کی ضرورت ہے کیونکہ ہندوؤں کو اسلامی دہشت گردی کے خلاف کھڑا ہونا ہے۔اگر کوئی مسلم اپنی ہندو وراثت کو قبول کرتا ہے تو ہم ہندو اسے وسیع ہندو سماج کے حصے کے طور پر قبول کر سکتے ہیں ۔دوسرے لوگ جو اسے قبول کرنے سے انکار کرتے ہیںیا جو غیر ملکی رجسٹریشن کے ذریعے ہندوستانی شہری بنے ہیں ، وہ ہندوستان میں تو رہ سکتے ہیں لیکن انہیں رائے دہندگی کا حق نہیں دیا جانا چاہئے۔ انہوں نے اپنے مضمون میں ہندوؤں کو متحد ہونے پر زور دیتے ہوئے یہ بھی لکھا تھا کہ "ہندو ؤں کو حلال کیا جانا قبول نہیں کر سکتے"۔ اس کے علاوہ ورون گاندھی میں 2009 کی وہ تقریر ہے جو انہوں نے اپنے انتخابات کے دوران پیلی بھیت کے عام جلسہ کی تھی۔ جس میں ورن گاندھی نے کہا تھا: 'یہ پنجہ نہیں ہے، یہ کمل کا ہاتھ ہے۔ یہ کٹ ۔۔۔ کے گلے کو کاٹ دے گا انتخابات کے بعد۔ جے شری رام! رام جی کی جے! ورن گاندھی کاٹ ڈالے گا! کاٹ دیں گے اس ہاتھ کو، کاٹ دیں گے، کاٹ ڈالے گا! ۔۔۔ 'اگر کسی نے، کسی غلط قسم کے آدمی نے، کسی ہندو پر ہاتھ اٹھایا ۔۔۔ تو میں گیتا کی قسم کھاکے کہتا ہوں کہ میں اس ہاتھ کو کاٹ ڈالوں گا ۔۔۔اس کے علاوہ بی جے پی اور سنگھ پریوار کے وابستہ کئی درجن رہنما اور لیڈر ہیں جو مسلسل مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز باتیں کرتے رہتے ہیں لیکن قانون اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑنہیں پایا ہے۔صورت حال یہ رہی کہ پولیس ورون گاندھی کی آواز کا نمونہ تک حاصل نہ کرسکی اور عدالت نے انہیں اشتعال انگیزتقریر سے بری کردیا۔عدالت نے بھی آواز کا نمونہ دینے کے لئے ورون گاندی کو حکم نہیں دیا۔یوپی حکومت کا کمال کہ اس نے اس کے خلاف عدالت عالیہ میں اپیل تک نہیں کی۔
اس ضمن میں وزارت داخلہ کی طرف سے سال 1997 میں"مذہبی خیرسگالی "بڑھانے کے لئے جاری ہدایات 'پر غور کریں تو ہمیں صاف نظر آتا ہے کہ فرقہ وارانہ کشیدگی کے معاملے میں وہ ریاستی مشینری کی ذمہ داری کو طے کرتا ہے۔ ہدایات نمبر 15 میں کہا گیا ہے کہ" ایسے واقعات کو دوبارہ اور فوراً روکنے کے لئے ضلع انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ مناسب قدم اٹھائے۔ اس سلسلے میں اگرہندوستانی حکومت کی طرف سے سال 1979 میں منظور شدہ شہری اور سیاسی بنیادوں پر بین الاقوامی معاہدے کو دیکھیں تو وہاں بھی حکومت نے اس بات کے لئے اپنے اعہد کا اعادہ کیا ہے۔ کہ وہ'' تعصب، باہمی امتیاز یا تشدد کو فروغ دینے والی اندھی قوم پرستی ، نسلی اور مذہبی منافرت پھیلانے والے اقدامات پر قانون کے تحت پابندی عائد کریں گے ۔لیکن یہ صرف کاغذ پر ہے ۔ نریندرمودی مسلمانوں کو کتے کا بچہ تک کہہ دیتا ہے لیکن یہاں کے نظام عدل کو کچھ بھی غلط نظر نہیں آتا۔
***
abidanwaruni[@]gmail.com
موبائل : 9810372335
ڈی۔64، فلیٹ نمبر۔ 10 ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ 25
abidanwaruni[@]gmail.com
موبائل : 9810372335
ڈی۔64، فلیٹ نمبر۔ 10 ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ 25
عابد انور |
imran masood hiralal provocative speeches & Double Standard. Article: Abid Anwar
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں