(پی ٹی آئی)
وزیراعظم کے سابق مشیر کے کتاب سے بی جے پی کو صدر کانگریس سونیا گاندھی اور ان کے فرزند راہول گاندھی پر تنقید کرنے کا ایک موقع ملا ہے۔ بی جے پی پارٹی کے روی شنکر پرساد نے آج ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ سنجے بارو کی کتاب میں لکھا ہواہے کہ اگر منموہن سنگھ بہت اچھا کام کرنا چاہتے تھے تو اس پر دباؤ ہوتا کہ اس کا کریڈٹ راہول گاندھی کو دیں، کانگریسیوں کو اس بارے میں ردعمل ظاہر کرنا چاہئے، انہوں نے کہاکہ اس کتاب سے بی جے پی کے اس الزام کی توثیق ہوتی ہے کہ سونیا گاندھی نے دفتر وزیراعظم کے وقار کو گھٹایا ہے۔ اس کتاب کا نام "حادثاتی وزیراعظم" ہے۔ اس میں کہا گیا کہ کانگریس نے ان کی دوسری معیاد انہیں مان کیا اور سونیا گاندھی نے کابینہ اور دفتر وزیراعظم میں اہم تقررات کے بارے میں فیصلے کئے ۔ اس دوران نریندر مودی نے اس کتاب کے حوالہ سے صدر کانگریس سونیا گاندھی پر تنقید کی اور کہاکہ ایک ریموٹ سے حکوت چلائی گئی۔ مودی نے راجستھان کے بانسواڑہ میں ایک انتخابی ریالی سے خطاب کرتے ہوئے سنجے بارو کی کتاب کا حوالہ دیا۔ نریندر مودی نے اس معاملہ میں سونیا گاندھی کی خاموشی پر سوال اٹھایا۔ انہوں نے کہاکہ کل اس کتاب میں ایک بڑا انکشاف کیا گیا، اس میں دعویٰ کیا گیا کہ سونیا گاندھی دفتر وزیراعظم سے پہلے مرکزی حکومت کی فائلوں کو منظوری دیتی تھی۔ نئی دہلی سے پی ٹی آئی کی ایک علیحدہ اطلاع کے بموجب وزیراعظم منموہن سنگھ کے سابق میڈیا مشیر سنجے بارو کی کتاب پر آج بھی ردعمل کا سلسلہ جاری رہا۔ وزیر فینانس پی چدمبرم نے ان دعوؤں کو مسترد کردیا کہ یوپی اے کی دوسری معیاد میں دراصل صدر کانگریس سونیا گاندھی حکومت چلارہی تھیں۔ کتاب کے مصنف سنجے بارو نے کل خود کہا تھا کہ یہ کوئی راز نہیں ہے کہ حکومت کی باگ دوڑ سونیا گاندھی کے ہاتھ تھی۔ سابق کابینی سکریٹری ٹی ایس سبرامنیم نے بھی ان کے اس بیان کی تائید کی ہے۔ چدمبرم سے یہ دریافت کئے جانے پر کہ آیا وہ سنجے بارو کی اس بات سے اتفاق کریں گے کہ حکومت کا کنٹرول سونیا گاندھی کے ہاتھ میں تھا، انہوں نے نفی میں جواب دیا۔ اس سوال پر کہ آیا گذشتہ 10سال کے دوران کیاکبھی کوئی ایسا موقع نہیں آیا جب وزیراعظم کو منظوری لینے 10جن پتھ جانا پڑا ہو۔ انہوں نے کہاکہ گذشتہ 10سال کے دوران وزیراعظم نے انہیں کبھی یہ نہیں بتایاکہ انہیں واپس جانا پڑا اور فیصلہ لینے کسی سے پوچھنا پڑا۔ چدمبرم نے کہاکہ ہماری جماعتوں پر مبنی جمہوریت ہے۔ یہ سیاسی جماعت کی حکومت ہے۔ کئی فیصلے کئے جاتے ہیں۔ بعض فیصلے حکومت میں ہی لئے جاسکتے ہیں لیکن بعض فیصلوں کیلئے پارٹی سے مشاورت کرنی پڑتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ بعض فیصلے یوپی اے سے مشاورت کے بعد کئے گئے۔ کیا سی پی آئی ایم سے اس کی حکومت نے کسی فیصلہ کے بارے میں مشاورت نہیں کی۔ اگر کوئی سیاسی فیصلہ لینا ہوتو سیاسی مشاورت کرنی پڑتی ہے۔ خود میں نے کور گروپ سے مشاورت کی ہے۔ سنجے بارو کے اس دعوے کے بارے میں دریافت کرنے پر کہ وزیراعظم کے پرنسپال سکریٹری پلوک چٹرجی جنہیں سونیا گاندھی کی ایما پر پی ایم او میں شامل کیا گیاتھا، ان کے ساتھ روزانہ میٹنگ کرتے تھے تاکہ وزیراعظم کی جانب سے منظور کی جانے والی اہم فائلو ں کے بارے میں ہدایات لے سکیں۔ بارو نے کہاکہ یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ یہ تصرف 3 جملوں پر شتمل ایک پیراگراف ہے۔ میں نے وزیراعظم کے بارے میں کئی مثبت باتیں بھی لکھی ہیں۔ یوپی اے حکومت کی پہلی معیاد میں وہ ایکسیڈنٹل وزیراعظم تھے۔ انہوں نے وزیراعظم بننے کیلئے مقابلہ نہیں کیا تھا لیکن 2009ء میں جو کامیابی ملی وہ منموہن سنگھ کی کامیابی تھی۔ میرے لئے یہ خاص طورپر المناک مسئلہ تھا۔ وہ(وزیراعظم )بالخصوص سماجی میڈیا میں مذاق کا موضوع بن گئے تھے۔ ان کے بارے میں ایک لطیفہ یہ تھا کہ جب وہ دندان ساز کے پاس گئے تو اس نے ان سے کہا کہ "اب آپ اپنا منہ کھول سکتے ہیں"۔
Chidambaram rejects Sanjaya Baru's claims on UPA-II
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں