جامعہ نگر بٹلہ ہاؤس- بی جے پی کا تفرقہ پسندانہ بیان بوکھلاہٹ - کپل سبل - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-03-29

جامعہ نگر بٹلہ ہاؤس- بی جے پی کا تفرقہ پسندانہ بیان بوکھلاہٹ - کپل سبل

2014ء کے الیکشن کے فیصلہ کن موڑ پر بی جے پی اپنے نفرت کے غبارے سے ہوا نکلتی دیکھ کر سیکولر سیکولر اقدارپر اوچھے حملے کرنے پر اتر آئی ہے اور جامعہ نگر بٹلہ ہاؤس کے حوالے سے وی کے ملہوتر ہ کا تفرقہ پسندانہ بیان پارٹی کی اسی بوکھلاہٹ کی واضح غمازی کرتا ہے۔ اس وضاحت کے ساتھ مرکزی وزیر اور چاندنی چوک لوک سبھا حلقے سے کانگریس کے امیدوار کپل سبل نے ایک خصوصی انٹرویو میں کہاکہ بی جے پی کو اندازہ ہوگیا ہے کہ وہ اپنی نفرت کی سیاست کے زہر کو زیادہ تک گجرات کی نام نہاد ترقی کے کیسپول میں بند نہیں رکھ سکتی اسی لئے وہ فرقہ وارانہ صف بندی کیلئے ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کو نقصان پہنچانے کے مشن کو تیز کرنے پر اتر آئی ہے۔ مسٹر سبل نے کہاکہ اب جبکہ یہ پوری طرح واضح ہوگیا ہے کہ عام آدمی پارٹی کا وقتی اثر ختم ہوجانے کے بعد 2014ء کے انتخابات میں پر ایک بار اصل مقابلہ جدید ہندوستان کی تعمیر کا ریکارڈ رکھنے والی کانگریس اور کثرت میں وحدت کی تابناک روایت کی دشمن آر ایس ایس کے درمیان ہے تو فرقہ پرست طاقتوں نے قومی یکجتہی کی قیمت پر اقتدار پر قبضہ کرنے کا دیرینہ خواب پھر سے دیکھنا شروع کردیاہے، لیکن یہ خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ چاندنی چوک کو ہندو۔ مسلم یگانگت اور رواداری کی روایتی پہچنا قرار دیتے ہوئے کپل سبل نے کہاکہ انہیں اس بات کی خوشی ہے کہ بٹلہ ہاؤس معاملہ میں ان کے موقف کو ان کے حلقے کے عوام نے بھی غیر جانبدارانہ قراردیا ہے۔ رہ گئی بات پولس اور عام شہریوں کے رشتے کی تو دونوں طرف سے اس رشتہ کی تو دونوں طرف سے اس رشتے کا احترام ہونا چاہئے۔ ایک سوا کے جواب میں انہوں نے کہاکہ دہشت گرد اور فرقہ پرست کسی گروہ کی شکل میں تو موجود ہوسکتے ہیں لیکن وہ کسی مذہبی یا تہذیبی کمیونٹی کی نمائندگی نہیں کرتے اور ہندوستان کے انتخابی حلقے صرف اکثریت اور اقلیت کے ارتکاز کی پہچان رکھتے ہیں جو آبادی کے تناسب سے فطری ہے۔ اس فرق کا نفرت پسندانہ سیاست کیلئے استحصال منفی سوچ رکھنے والوں کو ہی زیب دے سکتا ہے جیساکہ اوکھلا کے حوالے سے کیا گیا ہے۔ یہ پوچھے جانے پر کہ آپ کا راست مقابلہ ہرش وردھن سے ہے یا آشوتوش سریواستو سے، کپل سبل نے کہاکہ امیدوار کھڑا کرنے کی حد تک آپ کی نمائندگی تو سمجھ میں آتی ہے لیکن ہرش وردھن کے بارے میں ایسا نہیں کہا جاسکتا کیونکہ ان کی امیدواری سنجیدہ ہوتی تو پہلے وہ اسمبلی سے استعفیٰ دیتے۔ کپل سبل کی توجہ جب ان کے مخالفین کے اس الزام کی طرف مبذول کرائی گئی کہ وہ صرف الیکشن کے دنوں میں ووٹروں سے اپنا تعلق جوڑتے ہیں تو انہوں نے کہاکہ اس کا جواب بھی آئندہ مہینے یعنی 10اپریل کو اسے حلقے کے ووٹر ہی دیں گے جن کے ہر سکھ دکھ کیلئے وہ مسلسل جوابدہ چلے آرہے ہیں۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں