ملک کا بدلتا سیاسی منظرنامہ اور مسلمان - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-03-03

ملک کا بدلتا سیاسی منظرنامہ اور مسلمان

india-election-2014
دورحاضر میں سیاسی پارٹیوں کی قلابازیوں کے پیش نظریہ باتوثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ سیاست میں ضمیر ،نظریات اور اقدارکی کوئی حیثیت نہیں ہوتی بلکہ حالات اورذاتی مفادکے اعتبارسے فیصلہ کرنا یعنی ابن الوقتی کوبرا نہیں سمجھاجاتا ہے، خواہ اس کیلئے قومی وملی مفادکوقربان ہی کیوںنہ کرناپڑے،کیوںکہ سیاست میں صرف مفادسے غرض ہوتی ہے ، قومی وملی نفع ونقصان سے اس کاکوئی تعلق نہیں۔اس لئے کب کون سی سیکولرزم کا دعویٰ کرنے والی پارٹی فرقہ پرست طاقتوںکی گودمیں چلی جائے اس کا فیصلہ کرنا اب سیاسی پنڈتوںکیلئے بھی آسان نہیں رہا۔گجرات فسادبعد این ڈی اے سے الگ ہونے والے رام ولاس پاسوان کی این ڈی اے میں واپسی اسی زندہ مثال ہے۔چوںکہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اسی لئے اس سے کسی طرح کی ایمانداری وخوداری کی توقع فضول ٹھہری ۔
ملک میں عام انتخابات کے پیش نظرسیاسی بساط پوری طرح بچھ چکی ہے اورفطری طورپرسیاسی توڑجوڑکی سیاست کا شباب پرہے۔آئندہ پانچ برسوںکیلئے ہندوستان کے گارجین کا انتخاب کر نے کیلئے ہرکمیونٹی لائحہ عمل تیارکررہی ہے اسی طرح مختلف سیاسی پارٹیاں خود وزارت عظمیٰ کے عہدہ پر فائزہونے کیلئے بے کل نظرآرہی ہیںاوراپنے امیدواروںکوچناوی میدان میں فتح دلانے کیلئے سرتوڑکوشش کررہی ہے۔آئندہ پانچ برسوںکیلئے زمام اقتدار سیکولرزم روایتوںکے پاسداروںکے ہاتھوںمیں تھمایاجائے یا پھرفسطائی طاقتوںکےسپردکردی جائے اس کافیصلہ عوام کوکرنا ہے ۔اسی لئے سیاسی پارٹیوںکے علاوہ عوام بھی اپنےحلقہ کےنمائندوںکے انتخاب کیلئے غوروفکرکرنا شروع کردیاہے۔ ملک کے سیاسی منظرنامے پرایک نظرڈالنے کے بعدیہ بات بڑے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے اس بار نہ صرف جمہوریت بلکہ ہندوستان کے عوام کا بھی بڑا امتحان ہے اس لئے اس بار مقابلہ فرقہ پرستی اورسیکولرزم کے درمیان ہے ۔ایک جانب سیکڑوںانسانوںکا قاتل وزارت عظمیٰ کےعہدہ پر فائز ہونے کیلئے بے قرارہے اوروہ اس کوشش میں کسی بھی حدتک جانے کوتیارنظرآرہا ہے وہیں دوسری طرف سیکولر پارٹیاں اسے روکنے کیلئے میدان میں ہیں۔ میرا مطلب سیکولرزم کا لبادہ اوڑھ کر فرقہ پرستوںکی منشا کو پورا کرنے والی ایس پی یا کانگریس سے ہے لیکن متعدد علاقائی پارٹیاں ایسی ہیں جسے ہم کچھ حدتک سیکولرکہہ سکتے ہیں ۔
ہندوستان کی کم نصیبی یہ رہی ہے کہ یہاں تعلیم وترقی اورامن کی بجائے ذات برادری،خوف اورمذہب کے نام پر سیاسی انتخابات لڑے جاتےرہے ہیں چوںکہ مذہب سے انسان کا رشتہ فطری طورپرجذباتی ہوتا ہے اسی لئے سیاسی پارٹیاںنے آزادی کے بعدسے لے اب تک اسی کے سہارے آسانی کے ساتھ اقتدارکی کرسی پربراجمان ہوتی رہی ہیں ۔مذہب اورذات برادری کے نام فتح پانے والی جماعت ہم قبیلہ اورہم مذہب افرادجن کی تعدادمٹھی بھرہوتی ہے، انہیں ان کے ووٹ کا بدلہ تو کسی نہ کسی صورت میں عطا کردیتی ہیں؛ لیکن دیگر طبقہ اورملک کے ترقیاتی کام پیچھے رہ جاتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ علم سیاسیات کے ماہرین نے ذات پات اورمذہب کے نام پر سیاست کو ملک وعوام سمیت سیکولرزم کیلئے زہرہلال سے تعبیر کیاہے۔مگر آزادی کے بعدسے لے کراب تک کی سیاسی تاریخ کا جائز ہ لیجئے تو نظرآئے گاکہ یہاں ہمیشہ سیاست کی جنگ محدودایجنڈہ کے نام پر لڑی گئی ہے یعنی کوئی جغرافیائی حقوق کے نام پر توکسی نے اپنی ذات برادری اورکسی نے مذہبی جذبات کومشتعل کرکے اپنی منشا پوری کرتے نظرآئیں گے۔ابھی تک کسی پارٹی نے قومی ترقی کوایجنڈہ بناکر انتخاب نہیں لڑا ہے اورہندوستان کی روایتی سیاست پرنظررکھنے والی کوئی پارٹی قومی ترقی کوایجنڈہ بناکر انتخاب لڑنے کی حماقت بھی نہیں کرسکتی ہے۔ذات برادری اورمذہب کے نام پر سیاست سے اتنا توضرورفائدہ ہوا کہ ہندوستان کے مختلف ذات برادریوںسے سیاسی قیادت کا ظہورہوا اورانہیں اس کا فاہدہ بھی پہنچا ۔ کانشی رام،راجیش پائلٹ،اجیت سنگھ، لالویادو،ملائم سنگھ ،مایاوتی اوررام ولاس پاسوان اسی نظریے کی پیدوارہیں لیکن اس فہرست میں آپ کوکسی مسلم قائدکا نام نظرنہیں آئےگا۔آزادی کے بعد سے فرقہ پرستانہ سیاسی پالیسی نےمسلم قیادت کو ابھرنے نہیں دیا ، اس دلیل کو مکمل طورپردرست قرارنہیں دیاجاسکتا۔ قوم مسلم توصرف ایک قوم ہےاس کے یہاں ذات برادری کی دیواریں حائل ہوہی سکتیں جبکہ غیروںمیں دلت اورمہادلت کے علاوہ ذات برادری کی ایک لمبی فہرست ہے۔اونچ نیچ کی ایک گہری کھائی ہے آخرکیاوجہ تھی کہ وہ ان گنت ذات برادری کی دیواروںکومنہدم کرنے اوراونچ نیچ کے فاصلوںکومٹانے میں کامیاب ہوگئے اورمسلمان اب تک تماشہ ہی دیکھتے رہ گئےیاپھر دیگر پارٹیوں کے ووٹ بینک بن کریا پھران کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ بن رہ گئے۔یہ وہ نکتہ ہے جس پرسرجوڑکرغوروفکرکرنے کی ضرورت ہے تبھی جاکر مسلمانوںکا سیاسی قبلہ درست ہوسکتا ہے۔
قوم مسلم کا سب سے بڑا المیہ یہ رہاہے کہ اس کے پاس کوئی مخلص اورجانبازقائد نہیں ہے نتیجتاً وہ کسی مضبوط سیاسی پلیٹ فارم سے بھی محروم رہی، حالاںکہ بغیر سیاسی قوت کے بنیادی حقوق کی بازیافت ممکن نہیںہے ۔تقسیم ہند سانحہ کےبعدتقریباً پچاس برسوںتک مسلمان یہ فیصلہ کرنے میں ناکام رہے کہ ہندوستان میں خالص مسلم سیاسی پارٹی کاقیام مسلمانوںکےحق میں مفیدہے یا نہیں ؟اس کے بعدکہیں مسلم سیاسی پارٹی وجودمیں آئی بھی تو اس کا دائرہ وسیع نہیں ہوسکا ،کیوںکہ اس کے اراکین تو چندسکوںکے بدلے کسی اورپارٹی میں شریک ہوگئے؛ جیسا کہ حال ہی میں اترپردیش میں پیس پارٹی کےاراکین اسمبلی میںکارنامہ انجام دیاہے یاپھروہ اپنے قوم کا اعتمادبحال رہنے میں ناکام رہے ۔یہی وجہ رہی کہ اب تک ہندوستان میں مسلم سیاسی قیادت پنپ نہیں سکی ۔دیگر پارٹیوںنے جب دیکھاکہ میدان صاف ہے تو اس نے مسلمانوںکو ووٹ بینک سمجھ لیا اوران کے ذریعہ سیاسی استحصال کا سلسلہ شروع ہوگیا جواب تک جاری ہے۔ہندوستان میں مسلمان کے ووٹ کی مسلمہ حیثیت ہونے کے باوجود ان کی کوئی اہمیت نہیں رہی کیوںکہ انہیں یہ ہرباریہ باورکرانے کی کوشش کی گئی کہ ہم تمہاری ضرورت ہیںِ اگر ہم نہیں توکوئی اورسہی ؛وہ کوئی اورمسلمانوںکا کھلا دشمن ہے لہٰذا اپنی جان وعزت کی امان چاہتے ہوتو....اورمسلمان ہربارنفسیاتی خوف میں مبتلا ہوکر بینڈ باجہ اورباراتی کا کردارنبھاتے رہے ۔مسلمانوںکے سیاسی استحصال کے کھیل میں نام نہاد مذہبی سیاسی گروکے بھی اہم رول سےانکارنہیں کیاجاسکتا جومسلمانوںکے سیاسی شعورکی جوت جگانے کی بجائے وقتی مفاد اورچندسکوںکی بدولت سیاسی آقائوںکی چوکھٹ پرجبیں سائی کوسیاست کی معراج سمجھتے رہے ہیں ۔انتخابی موسم میں نہ جانے کہاںسے مسلمانوں کے اتنے ہمدردپیداہوجاتے ہیں جس پارٹی کے ساتھ ایک داڑھی ٹوپی والا نظرآجائے گاجو اس پارٹی کومسلمانوںکا سب سے خیرخواہ اورہمدردہونے کی وکالت کرتے دکھائی دیںگے۔قوم مسلم کویہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ فرقہ پرستی کا مقابلہ بہادری سے کیاجاتاہے اورشجاعت پسند انسان مستقبل کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرتاہے ،وقتی طورپرحالات کے بھنورمیں پھنس کراپنی رسوائی کا سامان مہیا نہیں کرتا۔ضرورت اس بات کی ہےکہ مسلمان متحدہوکر بنام قوم اپنے نمائندوںکوبڑی تعدادمیں ایوان میں بھیجے تاکہ ان کی صدا کو نقارہ خانہ میںطوطی کی آواز نہ سمجھی جائے ۔
ہندوستان کی تمام پارٹیوں کواس بات کا احساس اچھی طرح ہے کہ مسلمانوں کے ووٹ کلیدی حیثیت رکھتے ہیں لیکن مسلمان ہی اب تک اپنے ووٹ کی اہمیت تسلیم کرانے میں ناکام رہے ہیں ۔عام انتخابات ایک بارپھرسامنے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ مسلمان اپنی سیاسی بصیرت وبصارت کا مظاہرہ کرکے اپنے اوراپنی نسل کیلئے درخشاں مستقبل کا سامان کرتے ہیں یا پھرماضی کی طرح ناعاقبت اندیشی کا ثبوت دے کر ایک بارپھر سیاست کے ہاتھوںکھیلونا بن کرجیناچاہتے ہیں ،یہ آنے والاوقت جلد ہی طے کردے گا۔

***
rahbarmisbahi[@]gmail.com
موبائل : 9470738111
صابر رہبر

Country's Changing political scenario and the Muslims. Article: Sabir Rahbar

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں