اردو یونیورسٹی سمینار - خواجہ احمد عباس- سینما صحافت اور ادب - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-03-27

اردو یونیورسٹی سمینار - خواجہ احمد عباس- سینما صحافت اور ادب

خواجہ احمد عباس نے اپنے اصولوں سے سمجھوتہ نہیں کیا
’انقلاب‘ کے مصنف کے انقلابی نظریات کی اردو یونیورسٹی میں بھرپور ستائش

شعبہ ترسیل عامہ و صحافت مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی اور ’کے اے عباس صدی تقریب کمیٹی نئی دہلی ‘ کی جانب سے دو روزہ صدی تقاریب ’’خواجہ احمد عباس: ایک افسانوی شخصیت اور اُن کی وراثت‘‘ کے سلسلے کی کڑی کے تحت آج سی پی ڈی یو ایم ٹی آڈیٹوریم، مانو میں ایک روزہ سمینار بعنوان ’خواجہ احمد عباس: سنیما، صحافت اور ادب‘ کا انعقاد عمل میں آیا۔ ایک روزہ سمینار کی صدارت یونیورسٹی پرو وائس چانسلر ڈاکٹر خواجہ محمد شاہد نے کی جبکہ شمیم طارق (نقاد و کالم نویس)، پروفیسر بیگ احساس (سابق صدر شعبہ اُردو، حیدرآبادسنٹرل یونیورسٹی)، پروفیسر شافع قدوائی (صدر شعبہ ماس کمیونی کیشن، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی)، ساگر سرحدی (فلم ہدایت کار و پروڈیوسر)اور انجم رجب علی (اسکرین رائٹر) نے مقالے پڑھے۔ پرو وائس چانسلر ڈاکٹر خواجہ محمد شاہد نے اپنے صدارتی تقریر میں کہا کہ خواجہ احمد عباس پر صدی تقاریب کی دوروزہ تقاریب سے ہمیں ایک بات نے بہت متاثر کیا اور وہ یہ ہے کہ خواجہ صاحب کی زندگی کے کچھ اصول تھے جن پر انہوں نے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ یوں سمجھئے کہ اُن کے قول و فعل میں تضاد کی گنجائش ہی نہیں تھی وہ جو چاہتے تھے ہر حال میں وہ کر دیتے تھے۔ خواجہ شاہد نے کہا کہ عباس صاحب نے گاندھی جی کو اپنا رول ماڈل مانا تھا اور آج ہمارے سماج میں مسئلہ ہے کہ رول ماڈل ہی غائب ہیں۔ ہم سب کو زندگی کے کچھ اصول بنانے چاہئے اور اُن پر کاربند رہنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ ہم جس شعبہ میں بھی جائیں اُس کے ساتھ عوامی جذبات جڑے ہوئے ہونے چاہیے۔ نامور نقاد و کالم نویس شمیم طارق نے خواجہ احمد عباس سے متعلق اپنے مقالے ’خواجہ عباس: جیسا دیکھا جیسا سنا‘ میں خواجہ عباس کی زندگی کے کئی ایک باتوں کا احاطہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے خواجہ عباس کو دیکھا بھی ، سنا بھی اور اُن کا مداح بھی ہوں۔ خواجہ عباس ایک ایسی شخصیت تھی جنہوں نے اپنے کالموں کے ذریعے لسانی یکجہتی کی مثال پیش کی۔ اُن کو دو چیزوں کے ذریعے پہنچانا جاتا ہے۔ ایک ہے ہندوستان دوستی اور دوسرا انسان دوستی جو اُن کی فلموں، ناولوں ، افسانوں اور کالموں سے جھلکتی ہیں۔ٍ پروفیسر شافع قدوائی صدر شعبہ ماس کمیونی کیشن علی گڈھ مسلم یونیورسٹی نے اپنے مقالے میں خواجہ احمد عباس کی صحافتی زندگی پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے اپنی تقریر میں ’کے اے عباس صدی تقریب کمیٹی نئی دہلی‘ کا ہندوستان کے مختلف علاقوں میں تقریبات کا انعقاد کرکے خواجہ عباس فہمی پیدا کرنے پر کمیٹی کا شکریہ ادا کیا۔ پروفیسر قدوائی نے کہا کہ خواجہ عباس نے اپنا صحافتی کیرئیر بحیثیت کالم نویس شروع کیا اور وہ پہلے ایسے شخص ہیں جنہوں نے اپنے کالموں کے ذریعے انسانی موضوعات کو چھوا۔ انہوں نے کہا کہ خواجہ عباس نے اپنے کالموں میں ہر ایک موضوع اور ہر ایک مسئلے پر لکھا۔ یہاں تک کہ خواجہ عباس نے اپنے کالموں کے ذریعے حب الوطنی اور قوم پرستی کی تشریح بھی کی۔ انہوں نے کہا کہ آزاد قلم کے عنوان سے خواجہ عباس نے جو کالم لکھے وہ پڑھنے پر اُس وقت کی انتظامیہ اور سیاسی چہل پہل آنکھوں کے سامنے آتی ہے۔ فلم ہدایت کار و پروڈیوسر ساگر سرحدی نے اپنے مقالے میں اُن کی ذاتی زندگی میں خواجہ عباس صاحب کے ساتھ تعلقات کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ عباس صاحب آزاد سنیما کے حق میں تھے اور ہر ایک مسئلے پر لکھتے تھے۔ یہاں تک کہ خواجہ احمد عباس نے کبھی بھی اِس کی پرواہ نہیں کی کہ فلم ریلیز ہوگی یا نہیں، فلم کو شائقین پسند کریں گے یا نہیں بلکہ وہ اپنے اصولوں پرچٹان کی مانند ڈٹے رہے اور وہ ہندو ۔ مسلم اتحاد کے علمبردار تھے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی ذاتی شہرت کی وجہ اول ترقی پسند مصنفین اور دوم خواجہ احمد عباس ہیں۔ پروفیسر بیگ احساس، صابق صدر شعبہ اُردو حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی نے خواجہ احمد عباس کی ناول انقلاب پر اپنا مقالہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ عباس صاحب نے بہترین صلاحیتیں فلم کو دیں اور بیشتر فلمیں ناولوں پر مبنی ہیں۔ انہوں نے ہی متوازی سنیما کی بنیاد ڈالی جس کو بعد میں آرٹ سنیما کا نام دیا گیا۔ انہوں نے خواجہ احمد عباس کی ناول ’انقلاب‘ کی بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ناول ایک سیاسی ناول ہے اور اِس میں انہوں نے ایک سیاسی چہل پہل کو پیش کیا ہے۔ پروفیسر بیگ احساس نے کہا کہ اگرچہ یہ ناول بنیادی طور پر اُردو میں لکھی گئی مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ سب سے آخر میں اُردو زبان میں شائع ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ عباس صاحب نے اِس ناول میں گاندھی جی، نہرو کو بالترتیب رول ماڈل اور ہیرو ماننے کے علاوہ ہندو مسلم اتحاد سمیت دیگر تمام اہم معاملات کو شامل کیا ہے۔ اسکرین رائٹر انجم رجب علی نے اپنے مقالے میں خواجہ احمد عباس کی فلمی کیرئیر پر سیر حاصل بحث کی۔ انہوں نے کہا کہ خواجہ عباس نے تقریباً 29 فیچر فلمیں بنائی ہیں مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ آج دستیاب نہیں ہے اور نئی پود کو اُن فلموں تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ جناب رجب علی نے کہا کہ خواجہ عباس نے موضوعات جیسے معاشی مساوات ، قومی اتحاد اور انصاف پر مبنی فلمیں بنائیں اور کبھی بھی اِن موضوعات پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ اصل وجہ یہ تھی کہ وہ جانتے تھے کہ یہ مسائل ہندوستانی معاشرے میں موجود ہیں ۔ اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ ترسیل عامہ وصحافت و انچارج پی آر او ڈاکٹر محمد فریاد نے نظامت کے فرائض انجام دیئے جبکہ اسسٹنٹ پروفیسر معراج احمد مبارکی نے ہدیہ تشکر پیش کیا۔ ڈاکٹر احتشام احمد خان، صدر شعبۂ ماس کمیونکیشن اینڈ جرنلزم نے انتظامات کی نگرانی کی۔

ڈاکٹر محمد فریاد
انچارج پبلک ریلیشنز آفیسر

MANUU - Khwaja Ahmed abbas centenary held - Cinema, Journalism & Literature

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں