جہانگیر سوسائٹی بیڑ کا عظیم الشان استقبالیہ پروگرام اور قومی مشاعرہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-03-06

جہانگیر سوسائٹی بیڑ کا عظیم الشان استقبالیہ پروگرام اور قومی مشاعرہ

Jahangir-Society-Beed-all-india-moshaira
اپنے حق میں سبھی حالات سمجھ بیٹھا ہے
جلتے نعروں کو بھی نغمات سمجھ بیٹھا ہے
اس کی کوشش ہے کہ سلطان بنے دلّی کا
پورے بھارت کو وہ گجرات سمجھ بیٹھا ہے
(جوھر ؔ کانپوری)
مشاعرہ اردو والوں کی عید :مزاحیہ فنکار احسان قریشی،
اردو محبت کرنے والوں کی زبان اور مجھے اردو سے محبت ہے:گوپی ناتھ منڈے
جہانگیر ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی کی جانب سے بیڑ کی تاریخ میں عظیم الشان استقبالیہ پروگرام و قومی مشاعرہ کا انعقاد
مرحوم حا جی امین الدین سیٹھ ،مرحوم ظفر خان ناز یوسف زئی کو بعد از مرگ لائف ٹائم اچیومینٹ ایوارڈ سے نوازا گیا ،تعلیمی رہنما مشتاق انصاری فخرِ ملت سے اعزاز سرفراز

بیڑ کی تاریخ میں مشاعروں کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے سماجی خدمتگار سلیم جہانگیر کی زیر قیادت جہانگیر ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی کی جانب سے عظیم الشان قومی مشاعرے اوردین و ملت کے حقیقی خدمتگار مدرسہ دارالعلوم بیڑ کے سابق صدر مرحوم الحاج امین الدین سیٹھ اور اخبارِ ہذا کے بانی مدیر نازِ صحافت مرحوم ظفرخان نازؔ کوبعدازوفات "لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ" سے نوازا گیا ،جبکہ مراٹھواڑہ بھر میں تعلیمی خدمات پیش کرنے والے مشتاق انصاری (سکریٹری، سوسائٹی آف آل مائناریٹی انسٹی ٹیوز بیڑ)کو سماجی و تعلیمی خدمات کے اعتراف میں "فخرِ ملت ایوارڈ "سے سرفراز کیا گیا۔ہی ایوارڈ حاصل کرنے والے وہ بیڑ کی دوسری شخصیت ہیں۔اُن سے قبل انجمن اشاعتِ تعلیم بیڑکے سابق سکریٹری الحاج احمد بن عبود کو اسی ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا تھا۔اس پررونق اور رنگِ سخن سے آراستہ تقریب میں جہاں ہندوستان کے عالمی شہرت گیر شعراء کرام جوہر کانپوری، مزاحیہ فنکار احسان قریشی ،بیڑ ضلع کے ادب کی آبرو پروفیسر سید سجاد اختر،الطاف ضیا، انا دہلوی، واحد انصاری، مجاور مالیگانوی،جاویداشاعتی ،ہلال بدایونی ،زینت احسان قریشی ،ساز الہ آبادی ،ندیم مرزاوارشد صدیقی دیگرسخنوران دلنوازکی شرکت رہی۔وہیں بیڑ ضلع کے رکن پارلیمان و اردو دوست گوپی ناتھ منڈے کے ہاتھوں تینوں احباب کے لئے اعزازات کی تقسیم عمل میں آئی۔
اس عظیم الشان استقبالیہ پروگرام اور مشاعرے کا انعقاد سہ روزہ تعلیمی ،ادبی و ثقافتی تقریبات کے آخری اور اختتامی محفل کے طور پر ہوا۔اس سے قبل دوروز میں شخصیت سازی کے نعتیہ مشاعرے اور مشہور و معروف اسپیکر ڈاکٹر قاضی ذرّہ کا انعقاد عمل میں لایا جاچکا ہے۔ان تمام ہی پروگرامات میں عالمی حیثیت کے حامل ماہرین کی شرکت رہی۔
مرحوم الحاج امین الدین سیٹھ نے اپنی پوری زندگی مدرسہ دارالعلوم بیڑ کی بناء اور اس کی آبیاری میں صرف کردی۔انہوں نے دینی تعلیم سے دور علاقہ میں مدرسے کی جڑوں کو مضبوط کرنے ،غریب طلباء اور ملت کی دینی و اخلاقی تربیت کے لئے اپنا بیش بہا سرمایہ صرف کیا۔اسی طرح بیڑ ضلع میں صحافت کی آبرو نازِ صحافت مرحوم ظفرخان ناز یوسف زئی نے اپنی زندگی کا مکمل سرمایہ علاقہ میں صحافت کی آبیاری کے لئے صرف کردیا۔ عمر کے 9؍برس سے لیکر آخری سانس تک وہ صحافت کی بقاء اور اشاعت کے لئے کوشاں رہے۔ان کے زیر سرپرستی کئی صحافیوں نے قلم کو پکڑنے کی تربیت حاصل کی۔انہوں نے کئی ادیب اور صحافیوں کو مشفق استاد کی طرح تربیت دی۔زندگی کی تلخیوں سے گزر کر بھی ملت کے لئے بیدار و ذمہ دار صحافت کو پیش کرنا ان کی زندگی کا نصب العین تھا۔ان دونوں ہی حضرات کو علم و فن کی خدمات کے لئے ان کی حیات میں ہی یہ اعزازات دئیے جانے چاہئے تھے مگر بعد از وفات ان کی خدمات کے اعتراف میں جہانگیر ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی کی جانب سے لائف ٹائم اچیو منٹ ایوارڈ تفویض کئے گئے۔جس کے وہ حقدار تھے۔جبکہ کم عمری میں ہی بیڑ ،جالنہ، اورنگ آباد میں تعلیمی اداروں کے ذریعے ملت کے ہونہار و غریب طلباء کے لئے تعلیمی، تکنیکی اور جدید علوم کی سہولیات فراہم کرانے والے پیپلز ایجوکیشن اینڈ ویلفیئر سوسائٹی کے روحِ رواں اور اسو سی ایشن آ ف آل مائناریٹی سوسائٹی کے سکریٹری مشتاق انصاری کو اس پروگرام میں مہمانان کے ہاتھوں "فخرِ ملت " ایوارڈ دیکر انہیں اعزاز بخشا گیا۔اس پروگرام کی نظامت کے فرائض عرفان سعد اللہ صدیقی نے بحسن وخوبی انجام دئیے۔اس ضمن میں الحاج امین الدین سیٹھ مرحوم کے جانشین دارالعلوم بیڑ کے موجودہ صدر الحاج اقبال قریشی نے ان کے اعزاز کو حاصل کیا جبکہ مرحوم ظفرخان ناز یوسف زئی کے فرزندِ ارجمند اور روزنامہ الہلال ٹائمز کے مدیر قمر الایمان خان یوسف زئی نے اپنے والد کی جگہ اس اعزاز کا حاصل کیا۔اس اعزازیہ و استقبالیہ پروگرام کے بعد عظیم الشان مشاعرے کا انعقاد عمل میں آیا۔اس پروگرام میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے حاضر ہوئے بیڑ ضلع کے رکن پارلیمان گوپی ناتھ منڈے نے کہا کہ میں نے پارلیمنٹ میں اردو اخبارات اور اردو زبان کی ترقی کے لئے 1000؍کروڑ کا بجٹ دینے کامطالبہ کیا ہے۔میں ہمیشہ سے ہی اردو دوست اور محبِ اردو رہا ہوں۔اردو زبان محبت والوں کی زبان ہے۔اس لئے میں بھی اردو سے محبت کرتاہوں۔انہوں نے کہاکہ میں نے ہی ڈاکٹر باباصاحب امبیڈکر یونیورسٹی میں اردو ڈپارٹمنٹ شروع کرایا اور مراٹھواڑہ کو 80؍اردو اسکول کی منظوری دی۔انہوں نے کہا اردو کے لئے میں ہمیشہ میدانِ عمل میں موجود ہوں۔انہوں نے تمام ہی معززین استقبالیہ کو مبارکباد وتہنیت پیش کی۔ان کے ہمراہ اس موقع پر رکن کونسل پاشاہ پٹیل، رمیش پوکلے،داداصاحب منڈے دیگرقائدین ،صحافی حضرات، ادیب و دانشور موجود تھے۔ اس موقع پر کامیڈی کنگ احسان قریشی نے کہا کہ مشاعرہ اردو والوں کی عید ہے ۔اسے فروغ دینا چاہئے۔احسان قریشی نے پروگرام کو آرگنائز کرنے والے تمام ہی افراد بالخصوص سلیم جہانگیر اینڈ کمپنی کو مبارکباد و نیک خواہشات پیش کیں۔
جس میں ہلال بدایونی نے نظامت کے فرائض کو بحسن و خوبی انجام دیتے ہوئے ابتداءً نعتیہ کلام پیش کرنے کے لئے امراوتی سے تشریف لائے جاویدؔ اشاعتی کو دعوتِ کلام دی۔جنہوں نے سرورِ کونین ﷺ کی شانِ اقدس میں نعتِ پاک کا نذرانہ پیش کیا۔ملاحظہ کیجئے ان کی نعت کے چند اشعار:
مدحت سرا رسول ؐکا ربِّ انام ہے
عقل و خردسے اونچا نبی ؐکا مقام ہے
نبی کی ذاتِ اقدس پر مشیت ناز کرتی ہے
جبینِ پاک پر شمعِ ہدایت ناز کرتی ہے
حسب عالی نسب عالی لقب عالی ادب عالی
محمد ؐؐ کی شفاعت پر شفاعت ناز کرتی ہے
ان کے بعدمہاراشٹر کے صنعتی شہر مالیگاؤں سے پورے ہندوستان میں نمائندگی کرنے والے خوش گلو شاعر واحد انصاری نے اپنا سلگتا ہوا کلام پیش کیا،جس کا نمونہ دیکھئے:
دنیا کے قانون سے ہمکو کیا مطلب
سچا اسلامی قانون ہمارا ہے
ہمیں بتاتے ہو عظمت تم مٹی کی
اسکی رگوں میں سارا خون ہمارا ہے
مزیددیکھئے :
دریا والے اور سمندر والے ہیں
قطرہ قطرہ یوں نہ ہمیں خیرات میں دو
پھر سے ہم سونے کی چڑیا کردیں گے
لاؤ ہندوستان ہمارے ہاتھ میں دو
واحد انصاری کے بعد پھر ایک بارجاوید اشاعتی (امراوتی) کو غزل سرائی کے لئے دعوت دی گئی۔جنہوں نے درجِ ذیل اشعارسے محفل میں دادِ تحسین وصول کی:
دل تیری عنایت کا طلبگار نہیں ہے
یہ جرم محبت کا خطاکار نہیں ہے
آ سیکھ لیں اسلام سے جینے کا طریقہ
اخلاق سے بڑھ کر کوئی تلوار نہیں ہے
انہوں نے ماں کی عظمتوں کا اعتراف ان اشعار سے کیا:
سارے جہاں کا درد اگر ہے تو مجھ میں ہے
سہما ہوا سا ایک بشر ہے تو مجھ میں ہے
میں کیسے اپنے سر پہ تیرا ہاتھ بھولتا
اے ماں! تیری دعا کا اثر ہے تو مجھ میں ہے
یوپی کے مشہور تاریخی شہر الٰہ آباد سے تشریف لائے ہوئے رومانوی شاعر ساز الٰہ آبادی نے اپنے دلسوزو دلنواز انداز میں رومانوی شاعری کے نمونے پیش کئے اور سامعین سے واہ واہی وصول کی، ان کی شاعری کا نمونہ ملاحظہ کیجئے:
تم ہو اچھے جو قسم کھا کے مکرتے ہی رہے
ہم برے ہیں جو یقین آپ پہ کرتے ہی رہے
دل پہ کیا بیت گئی اس کا تمہیں علم نںی
آئینہ ٹوٹ گیا آپ سنورتے ہی رہے
انہوں نے 'آنسو'اس ردیف کے ساتھ خوبصورت ترنم ریزغزل کے درج ذیل اشعار پر سامعین کے دل کو چھونے کا کارنامہ انجام دیا:
ہم نے اس درجہ محبت میں بہائے آنسو
تب کہیں جا کے انھیں کھینچ لائے آنسو
کوئی ہنس ہنس کے پئے یوں بھی چھپائے آنسو
کوئی رو رو کے زمانے کو دکھائے آنسو
شعر و سخن کی دنیا میں شاعرات نے بھی اپنا کمال پیش کیا ہے۔اسی سلسلے کی پہلی کڑی کی حیثیت سے معروف و مقبول زینت احسان قریشی نے مزاحیہ انداز میں سامعین کو لوٹ پوٹ کردیا اور اپنے خوبصورت لب ولہجہ میں مزاحیہ کلام پیش کیا۔خیال رہے کہ زینت احسان قریشی کو مشاعروں کی دنیا کی سب سے پہلی مزاحیہ شاعرہ تصور کیا جاتا ہے:
اپنا فیوچر بنانا سوچ رئی
بیوٹی پارلر چلانا سوچ رئی
50؍کی ملے یا 60کی ہو بڑھیا
پرانے کھنڈر پر چونا لگانا سوچ رئی
مزید دیکھئے کہ۔۔۔
میں زندگی میں موج اڑاتی چلی گئی
ہنستی رہی پتی کو رلاتی چلی گئی
جب بھی پتی نے گھور کے دیکھا میری طرف
دھوبی پچھاڑ اسکو لگاتی چلی گئی
اس کھلکھلاہٹ اور ظرافت سے بھرے ماحول میں اپنے منفرد لب ولہجے اور مقبولِ خاص و عام ترنم کے لئے عالمگیر شہرت کے حامل نوجوان شاعر الطاف ضیاء نے اپنے کلام کو سامعین کے روبرو کیا۔جیسا کہ وہ سامعین کے ہمیشہ سے ہی چہیتے رہے ہیں اس بار بھی بیڑ کی عوام نے انہیں ان کے ہر ہر مصرعے پر دل کھول کر دادِ تحسین پیش کی۔انہوں نے غزل کے چند اشعار پیش کئے دیکھئے گا:
ٹوٹنا اوربکھرنا بھی نہیں چاہتا ہے
آئینہ سنگ سے ڈرنا بھی نہیں چاہتا ہے
ڈر بھی اونچائی سے لگتا ہے اس کو
وہ بلندی سے اترنا بھی نہیں چاہتا ہے
اس کے بعد ان سے کئی غزلوں کی فرمائش کی گئی۔جس میں سے انہوں نے دو مشہور غزلوں کو ترنم کی اونچائیوں کے ساتھ سامعین کی نذر کیا اور خوب خوب پذیرائی حاصل کی :
اگر ایماں سلامت ہے تو من میلا نہیں ہوتا
جو صدقہ بانٹے ہیں ان کا دھن میلا نہیں ہوتا
ہمارے ملک کے رہبر نشے میں چور رہتے ہیں
اگر یہ ہوش میں ہوتے تو وطن میلا نہیں ہوتا
مالیگاؤں سے عالمگیر بلندیوں تک ادب کی نمائندگی کرنے والے الطاف ضیا ء کے بعد سب ٹی وی"واہ واہ کیا بات ہے.."فیم اور مزاحیہ فنکار مجاور مالیگاؤی نے بہت ہی ظریفانہ انداز میں شاعری پیش کی اور پورا ماحول ان کے کلام پر قہقہہ زار بن گیا۔ان کے کلام سے چند ایک ملاحظہ کیجئے:
ہم سیدھے سادے لوگ زمانے کے کام آئے
جوکر بنے تو سب کو ہنسانے کے کام آئے
کالی کلوٹی بیوی کو ہرگز نہ چھوڑنا
ممکن ہے دشمنوں کو ڈرانے کے کام آئے
مذکورہ بالا اشعار سے ظرافت کاآغاز کرنے والے مجاور مالیگانوی نے عیاش آسارام طنزیہ اشعار پڑھے۔مسلمان قوم کو سیاسی بازار میں سلیقہ مندی کی نصیحت کرتے ہوئے انہوں نے درجِ ذیل کلام پیش کیا:
ہاں میں ہاں لیڈروں کی ملانے کا نئیں
پاؤں چھونے کا لیکن دبانے کا نئیں
ایک نیتا نے مجھ کو دیا مشورہ
وعدہ کرنے کا لیکن نبھانے کا نئیں
جب تلک کوئی مطلب نہ ہو تب تلک
اپنے سسرال میں دُم ہلانے کا نئیں
ان کے بعد اردو دنیا کی مقبول شاعرہ انا دہلوی نے اپنے خوبصورت ترنم میں محفل میں سرور پھیلا دیا۔انہوں نے حب الوطنی پر اپنا مشہور قطعہ پڑھا جس پر محفل پوری طرح شباب پر آگئی:
کرن دینا سمن دینا چمن دینا نہ دھن دینا
وطن والو مجھے تو صرف اتنا سا وچن دینا
اناؔ دل میں میرے کوئی تمنا ہے تو اتنی ہے
میں جب مرجاؤں تو ترنگے کا کفن دینا
انہوں نے اردو زبان کی مخالفت اور دشمنی کرنے والوں کو تنبیہ کرتے ہوئے ذیل کے اشعار سے للکارا کہ
لفظ کاغذ کے سجائیں گے سجانے والے
سوچنا چھوڑ دے اردو کو مٹانے والے
اے اناؔ کون مٹا اسکتا ہے تہذیبِ غزل
جب تلک زندہ ہیں غالب ؔ کے گھرانے والے
انہوں نے نسوانی جذبات کی ترجمان اور حسن و عشق کی پیکر غزلوں کے حسین اشعار محفل کے درمیان خوبصورت لب ولہجہ میں سجاکر پیش کئے،
آج تو چھت سے نظر ہی نہیں آیا سورج
آج پھر بال سکھانے میں بڑی دیر لگی
تکتی رہتی ہوں میں دیوار میں چہرہ اپنا
تم کو آئینہ لگانے میں بڑی دیر لگی
روٹھتی تھی تو منا لیتا تھا وہ مجھ کو اناؔ
جب وہ روٹھا تو منانے میں دیر لگی
ان کے بعد ہندوستا ن سے لیکر دنیا کے ہر اس کونے میں جہاں اردو ہندی کی ملی جلی تہذیب زندہ ہے اپنا پیغام ہنستے مسکراتے ہوئے انداز میں پیش کرنے والے کامیڈی کنگ فلم اداکار احسان قریشی نے اپنے ہی منفرد انداز میں پیش کیا اور سارے ماحول میں رنگین ظرافت کے نمونے پیش کرکے ہنسی و قہقہوں کا ہنگامہ برپا کردیا۔
انہوں نے کہا :
ایک دیہاتی نے ایک مولوی سے یوں کہا
کہ جنت میں حقہ پینے کا انتظام ہے؟
مولوی صاحب نے کہا حقہ تو مل جائے گا
مگر جہنم سے آگ لانا تمہارا کام ہے
انہوں نے ملک کی ہندو مسلم تہذہب کو اس انداز میں پیش کیا کہ
یہاں چہرے نہیں انسا ن پڑھے جاتے ہیں
مذہب نہیں ایمان پڑھے جاتے ہیں
یہ دیش اس لئے مہان ہے دوستو!
یہاں ایک ساتھ گیتا اور قرآن پڑھے جاتے ہیں
انہوں نے اسلامی مزاج کی ایک سنجیدہ نظم پیش کرتے ہوئے جہیز کی لعنت اور دولہے کے جوڑے پر بے حدموثر طنز کرتے ہوئے ظرافت میں اصلاحی انداز پیش کیا۔اس پرتپاک مشاعرے کے صدر اور دنیائے اردو کا معتبر نام جوہر کانپوری نے محض دو ہی قطعات میں سارے مشاعرے کا حاصل اور نچور پیش کردیا۔ان کے اشعار میں وہ جوالا اور آتش فشاں چھپا ہوا تھا کہ پبلک بے تحاشہ دوڑتی ہوئی اسٹیج پر چڑھ گئی جوہر کانپوری کو ہاتھ ملانے کے ایک گھنٹے تک انہیں میدانِ مشاعرہ سے باہر جانے نہیں دیا۔اس پروگرام کا اختتام سلیم جہانگیر کے شکریہ کے ساتھ عمل میں آیا۔ پروگرام کو کامیاب بنانے کے لئے اشتیا ق بھائی، موسیٰ خان، ممتاز پٹیل ،نور لالہ، کلیم جہانگیر، علیم جہانگیر، ابو بکر چاؤش، رضوان پترکار، جاوید پاشاہ سر، رئیس خان،سراج خان آردو،شیخ طالب، محمد رئیس خان ،بی ایس محسن، جاوید سید ودیگر صحافی حضرات، اساتذہ کرام ،ودیگر نے خدمات پیش کی۔

***
سراج آرزو۔ ایم اے (اردو) ، بی ایڈ ، ڈی ایس ایم۔ ،بیڑ ، مہاراشٹرا
taazatahreer[@]gmail.com
موبائل : 9130917777
سراج آرزو

Jahangir Society Beed's all india moshaira. Report: Siraj Aarzu

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں