ہندوستانی مسلمانوں کے مقابل سیاسی چیالنجس - ایس ڈی پی آئی مباحثہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-02-01

ہندوستانی مسلمانوں کے مقابل سیاسی چیالنجس - ایس ڈی پی آئی مباحثہ

ایس ڈی پی آئی کے زیر اہتمام ہند کے مسلمانوں کے سامنے موجود سیاسی چیالنجس پر دانشوران کا مباحثہ

آج ہندوستان کے مسلمانوں کے سامنے جو سیاسی چیلنجس ہیں ان پر بحث و مباحثہ کرنے اور ان چیالنجس کا سامنا کرنے کے لیے لائحہ عمل تیار کرنے ان چیالنجس کا حل نکال کرمسلمانوں اور ہم وطن برادران کی مجموعی ترقی دلوانے کے تعلق سے سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا ، کرناٹک شاخہ کی جانب سے شہر بنگلور میں حضرت حمید شاہ ؒ کامپلکس کے اردو ہال میں ایک سے سنجیدہ نشست کا اہتمام کیا گیا۔اس اجلاس میں استقبالیہ تقریر کرتے ہوئے ریاست کرناٹک کے پارٹی جنرل سکریٹری عبدالحنان نے کہا کہ ہندوستان کے مسلمان کی ستم ظریفی ہے کہ وہ صرف منفی سیاست کی طرف راغب ہیں۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی پہچان صرف ووٹ بینک کی حیثیت بن گئی ہے۔ انہوں نے ایس ڈی پی آئی کے قیام پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پارٹی کو 21جون 2009میں ملک کے عوام کے حوالے کیا گیا تھا۔ جب سے لیکر آج تک پارٹی انتخابی اور احتجاجی سیاست کی بنیاد پر اپنی منزل کی رواں دواں ہے۔ اور آج پارٹی ملک کے طول عرض میں پھیل چکی ہے۔ ہم نے ملک کے پسماندہ طبقات ، دلت اور اقلیتی طبقہ کو مثبت سیاست کا سبق پڑھا کر انہیں اس ملک میں خود مختار بنانے کا عزم کر رکھا ہے، اور ہم اس میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ کرناٹک، کیرلا، تمل ناڈو ، راجستھان، آندھر ا پردیش ، اور مغربی بنگال میں ہم نے بلدیہ انتخابات میں اپنے نمائندے بھیج چکے ہیں۔ اسمبلی انتخابات میں بھی ہم نے حصہ لیا ہے،اور کثیر تعداد میں ووٹ حاصل کرکے ملک کی بڑی پارٹیاں کہلانی والی کانگریس اور بی جے پی کے امیدواروں کو چونکنے پر مجبور کیا ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کے تعلق سے بتا یا کہ مسلمانوں کی نفسیاتی حالت آج ایسی بن گئی ہے کہ وہ صرف امتحان میں ناکامی کے ڈر سے امتحان لکھنے نہیں لکھ رہے ہیں، اور حادثہ کے ڈر سے سواری کرنے سے گھبرا رہے ہیں۔ ان کی تقریر کے بعد ایس ڈی پی آئی کے قومی جنرل سکریٹری اڈوکیٹ شرف الدین احمد نے اپنے خطاب میں کہا کہ خلافت موؤمنٹ کے بعد سن 1928ء تک مسلمانوں کی قیادت اس ملک سے ختم ہوگئی۔ ملک میں گاندھی جی کا عروج ہوا اور کانگریس ایک موؤمنٹ کے طور پر ابھر کرآگئی، کانگریس کو گاندھی جی گھر گھر تک پہنچانے میں اہم رول ادا کیا۔ انہوں نے کہا تقسیم ہند اس ملک کے مسلمانوں کے لیے بہت تمام محاذ پر نقصاندہ ثابت ہوئی۔ دراصل ایک سازش کے تحت مسلمانوں کی سیاسی طاقت کو ختم کرنے کے لیے پاکستان بنا یا گیا تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ گرداس پور، سلچل، آسام جہاں پر 20فیصد مسلمانوں کی آبادی تھی وہاں ایسے حالات پیدا کئے گئے کہ مسلمان اس ملک کو چھوڑ کر پاکستان چلے جائیں اس کے علاوہ دہلی، اتر پردیش ، راجستھان، بہار میں مسلمانوں کو پاکستان جانے پر مجبور کردیا گیاتھا۔ آج ملک کی کوئی بھی سیاسی پارٹی عوام کی نمائندگی نہیں کرتی ہے بلکہ اپنے ذات و مذہب کے لوگوں کی نمائندگی کرتی ہے، اور آج سیاست کو مالی طور پر اپنے آپ کو مستحکم کرنے کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے۔ ملک کی 70فیصد آبادی صرف ووٹ دے سکتی ہے۔ جبکہ آئین ہند کے دفعہ 15/16کے تحت تمام ہندوستانی شہریوں کو یکساں حقوق کی ضمانت دی گئی ہے۔ آج ملک میں یہ صورتحال ہے کہ اسمبلی اور پارلیمانی حلقوں کو اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ وہاں مسلمانوں کی آبادی ہونے کے باوجود ان کے نمائندے ایوانوں میں جاسکیں۔ آج ملک میں سیاست ، انتخابات کے صرف تین ماہ قبل شروع ہوتی ہے اور عوام کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد منتخب کردہ نمائندہ عوام کوپانچ سال کی مدت تک بھول جاتے ہیں۔ اس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے آل انڈیا امامس کونسل کے صدر مولانا عثمان بیگ نے بڑے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج پورے ہندوستان کے علماء میں 10فیصدبھی ایسے علماء نہیں ہیں جو سیاسی شعور رکھتے ہوں۔ جس کی اصل وجہ سے ہے کہ اہل علم سیاست سے کنارہ کشی کرچکے ہیں۔ خاص طور سے اس ملک میں علماء اور مسجدوں کے خطیب و امام اور خواتین کو آئین ہند اور سیاست کے تعلق سے جانکاری کرنا بے حد ضروری ہے۔ ان کے بعداس اجلاس میں خصوصی مہمان کے طور پر مدعو جے ڈی ایس کے ضلعی نائب صدر سید شفیع اللہ نے کہا ان کے مشاہدے کے مطابق ایس ڈی پی آئی ایک ایسی تحریک بن کر ابھری ہے جو اس ملک میں تبدیلی لاسکتی ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہئے اور اپنی تاریخ پر غور کرنا چاہئے۔ انہوں نے آج کے سیاست دان کے تعلق سے کہا کہ سیاست دان اپنے ذاتی مفاد اور ذاتی مقاصد کے لیے ہی کام کرتے ہیں اور مسلمانوں کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے ان کے سامنے ڈرامہ کرتے ہیں۔ ان کی تقریر کے بعد ایس ڈی پی آئی قومی ورکنگ کمیٹی کے رکن محمد ثاقب نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہندوستان میں دو طرح کی سیاست کی جارہی ہے۔ کچھ سیاسی پارٹیاں اور سیاسی لیڈران اپنے ذاتی کیرئیر بنانے کی سیاست کرتی ہیں، لیکن ان سیاسی پارٹیوں کے درمیان ایس ڈی پی آئی ایک مقصد کے تحت سیاست کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مظفر نگر فسادات ملک میں کوئی نیا یا انوکھا فساد نہیں ہے بلکہ اس ملک میں اس طرح کے سینکڑوں مسلم مخالف فسادات ہوچکے ہیں۔ان فسادات میں ملوث خاطیوں کو ابھی تک قانون کے کٹہرے میں نہیں کھڑایا گیا ہے اور نہ ہی ان کو سزا دی گئی ہے۔ ملک کا دلت طبقہ اور دیگر طبقات اپنے ووٹوں کے عوض اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور ان کے ووٹ سودے بازی (Bargaining Force)کی طاقت رکھتے ہیں، لیکن مسلمان طبقہ ابھی بھی( ( Begging Forceبن کر مطمئن ہے ، وقت کا تقا ضا ہے کہ مسلمان بھی اس ملک میں اپنے ووٹوں کے ذریعے مطالبات منوانے کی طاقت بن کر ابھرے۔ ان کی تقریر کے بعد ریاست کرناٹک کے ایک معروف شخصیت اور ٹیپو سلطان یونائیٹیڈ فرنٹ کے صدر سردار احمد قریشی نے اپنے احساسات پیش کرتے ہوئے کہا کہ انہیں یہ دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے کم از کم اب تو ایک حد تک مسلمانوں میں سیاسی شعور و بیداری پیدا ہوئی ہے۔ لیکن ملک میں ابھی بھی یہ خلاء ہے کہ مسجدوں کے منبروں سے سیاسی رہنمائی نہیں ہورہی ہے۔ انہوں نے خواتین کو مشورہ دیا کہ وہ سیریلس دیکھنا بند کریں اور ملک کے حالات کی جانکاری رکھنے کے لیے خبریں دیکھنا اور پڑھنا شروع کردیں۔ ان کے بعدسماجی کارکنان محترمہ ساجدہ نے اپنی تقریر میں کہا کہ ایس ڈی پی آئی اس ملک کے عوام کے لیے مایوسی کے ماحول میں ایک امید کی کرن ہے۔ انہوں نے خواتین کے تعلق سے بتاتے ہوئے کہا کہ آج کی خواتین اس بات سے غافل ہیں کہ انہیں کیا کرنا اور کیا نہیں کرنا چاہئے۔ خاص طور پر قوم کے کام کرنے کے لیے خواتین بالکل تیار نہیں ہیں۔ اور جو قوم اس ملک کی حکمران تھی وہی قوم آج غلامی کی زندگی بسر کررہی ہے اور جو قوم فلاح وبہبود کا کام کرتی تھی وہی قوم آج اپنی فلاح بہبودی کی محتاج بن گئی ہے۔ انہوں نے خواتین کو مشورہ دیا کہ وہ روزانہ دو گھنٹے قوم کی خدمت کے لیے نکالیں ، اور انہوں نے ایک کڑوی حقیقت بیان کی کہ آج خواتین اپنے رشتہ داروں کی مدد کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ ان کے بعد ایس ڈی پی آئی قومی جنرل سکریٹری افسر پاشاہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ ملک میں مسلمانوں کی آبادی کے تناسب سے ایوانوں میں ان کی خاطر خواہ نمائندگی میں نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کہ دو پسماندہ طبقات مسلم اور دلت اور متحد ہوجائیں تو اس ملک کی تاریخ بدلی جاسکتی ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں مزید محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے بعد ایس ڈی پی آئی کے قومی سکریٹری ڈاکٹر محبوب شریف عواد نے اپنی تقریر میں کہا کہ آج ملک کے مسلمانوں کو سیاسی شعور حاصل کرنا بے حد ضروری ہے۔ علماء کرام اس ملک کے جمہوری نظام کے تعلق سے جانکاری حاصل کرنا نہایت ہی ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو قوم اپنی تاریخ بھول جاتی ہے وہ قوم کھبی تاریخ رقم نہیں کرسکتی ہے۔ انہوں نے جنگی پور حلقہ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ یہاں مسلمان 80فیصد ہیں ، لیکن اس حلقہ سے اب تک مسلمان نمائندہ کو منتخب نہیں کیا گیا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح ملک کی سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کے حلقوں کو تک قبضہ کرنے میں کامیاب ہے۔ اس کے علاوہ حلقوں کی حد بندی ، ووٹر لسٹ میں مسلمانوں کا نام غائب حذف کردینا ، ان سب چالوں کی وجہ سے مسلمان سیاسی طور پر تقویت حاصل کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ آج سیاست پیسے، طاقت اور میڈیا کے ذریعہ کی جاتی ہے۔ اور سیاست میں مخلصی ، سماجی خدمت، مساوات، جیسے شعائر کا دور دور تک نشان نہیں ہے۔ایس ڈی پی آئی کے قومی خازن اڈوکیٹ ساجد صدیقی نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج ہمارے ہی لوگ ہمارے دشمن ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں کے نام یہ پیغام دیا کہ وہ سب سے پہلے اس بات کو بار بار کہنا چھوڑدیں کے ان کا کوئی رہبر نہیں ہے۔ ہمارے سامنے ایمان اور انسانیت سے بھرپور محمد ﷺ کی سیرت موجود ہے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں ہندو ، ہندی ، ہندوستان کے متبادل کے طور پر ایک نعرہ دیتے ہوئے کہا کہ ہندو مسلم نوجوان، نیا بنے گا ہندوستان، انہوں نے ایک اور کڑوے سچ کا انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ مہارانی لکشمی بائی کے ساتھ غداری کرکے انہیں انگریز وں کے ہاتھوں سے مروادیا تھا، ان کے خاندان سے تعلق رکھنے والے افراد آج اس ملک میں حکومت کے اہم عہدوں پر فائز ہیں۔ جبکہ بہادر شاہ ظفر جنہوں نے اس ملک کے لیے اپنے دونوں بیٹے قربان کردیئے تھے ان کے قوم سے تعلق رکھنے والے لوگوں کوحکومت سے بے دخل کرکے انہیں سیاسی طور پر ابھرنے نہیں دیا جارہا ہے۔ انہوں نے بڑے افسوس کے اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اتر پردیش میں ایس پی کو مسلمانوں نے اقتدار دیا، اور بدلے میں ایس پی نے مسلمانوں کو مظفر نگر دیا ۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان غیروں کو تو بڑی آسانی سے اپنا رہبر مان لیتے ہیں ۔ لیکن اپنوں پر انہیں بالکل اعتماد نہیں ہے۔ انہوں نے مرشد آباد کے لال گولہ علاقے کے تعلق سے ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہاں انہوں نے دیکھا کہ جن کے پاس تہبند ہے ان کے پاس کرتہ نہیں ہے، اور بچوں کے پاس کے کتابیں ہیں تو بستہ نہیں ہے، اور بستہ ہے تو کتابیں نہیں ہیں۔ اگر دونوں ہیں تو اس علاقے میں اسکول نہیں ہے۔ ان کے بعد ایس ڈی پی آئی کی قومی نائب صدر محترمہ نازنین بیگم نے اپنی تقریر میں کہا کہ آج ہم دو قسم کی سازشوں سے گھرے ہوئے ہیں۔ ایک اندرونی سازشیں تو دوسری بیرونی سازشیں ، ہمیں ان سازشوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ایک کڑوی حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک کے مسلم نوجوانوں کو جھوٹے مقدمات کے تحت گرفتار کرکے اس لیے ان کو جیلوں میں بند کیا جارہا ہے تاکہ اس قوم کو سیاسی طور پر کمزور کیا جاسکے ۔ مرد و عورت کو اپنی زندگی کے طریقہ کار کو بدلنا چاہئے ، نوجوانوں کو باکردار بنا یا جانا چاہئے اور مسلمانوں کو آپس میں متحد ہونا چاہئے۔ اس اجلاس کے اختتام میں ریاست کرناٹک کے پارٹی صدر عبدالمجید نے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ خو د اللہ کے نبی محمد ﷺ کو بھی دین حق اسلام پیش کرنے کے دوران کئی چیالنجس کا سامنا کرنا پڑا تھا، اور ان کے امتی ہونے کے ناطے ہمیں بھی حق اور انصاف پر مبنی سیاست کرنے کے دوران کئی چیالنجس کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لہذا مسلمانوں کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر وہ اللہ تعالی پر توکل کرکے جس میدان میں جدوجہد کریں گے اس میں انہیں کامیابی ضرور ملے گی۔ اس اجلاس میں ایس ڈی پی آئی کے ریاستی سکریٹری شیخ سراج، ایس ڈی پی آئی ، ویمنس ونگ کی نیشنل کنوینر لبنا میناز، قومی ورکنگ کمیٹی رکن اے ایم ایم شافعی ، ایس ڈی پی آئی ویمنس ونگ کرناٹک کی جوائنٹ کنوینر محترمہ ثمیہ بیگم، بنگلور ضلعی صدر فیاض احمد اور شہر کے عمائدین اور دانشوران شریک رہے۔

SDPI GET TOGETHER TO DISCUSS POLITICAL CHALLENGES FACED BY INDIAN CITIZENS

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں