آندھرا پردیش تقسیم کے خلاف صدر جمہوریہ کو وائی ایس آر کانگریس کے حلف نامے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-12-27

آندھرا پردیش تقسیم کے خلاف صدر جمہوریہ کو وائی ایس آر کانگریس کے حلف نامے

وائی ایس آر کانگریس پارٹی کے قائدین نے ریاست کی تقسیم کی مخالفت کرتے ہوئے آج صدرجمہوریہ پرنب مکرجی کو حلف نامے حوالے کئے۔ پارٹی کے 3 ارکان پارلیمنٹ، 23 ارکان اسمبلی اور 6 ارکان کونسل نے علیحدہ علیحدہ حلف ناموں پر اپنے اپنے دستخط کرتے ہوئے صدر جمہوریہ کو حوالے کئے اور ریاست کی تقسیم کی مخالفت کی۔ صدر جمہوریہ پرنب مکرجی جنوبی ہند کے دورہ پر ہیں۔ پارٹی کے ارکان اسمبلی، ارکان پارلیمنٹ اور ارکان کونسل کے ایک وفد نے اپنے سربراہ وائی ایس جگن موہن ریڈی کی قیادت میں صدرجمہوریہ پرنب مکرجی سے ملاقات کی اور انہیں ایک یادداشت پیش کرتے ہوئے ریاست کی متحدہ ساخت کی برقراری کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے اس سلسلہ میں انفرادی حلف نامے بھی صدر جمہوریہ کے حوالے کئے۔ صدر جمہوریہ کو پیش کردہ مکتوب میں رکن پارلیمنٹ کڑپہ نے کہاکہ ریاست کے ارکان مقننہ کی اکثریت آندھراپردیش کی تقسیم کے خلاف ہے۔ تقسیم کے سلسلہ میں ہمارے جائز حقوق کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ کانگریس پارٹی نے یکطرفہ طورپر تقسیم کا فیصلہ کرتے ہوئے سیما آندرھا عوام کے حقوق نظر انداز کردئیے۔ صدرجمہوریہ پرنب مکرجی پر ریاست کی تقسیم فوری روک دینے کیلئے زور دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ آندھراپردیش کی تنظیم جدید بل 2013 کا مسودہ ایسامحسوس ہوتا ہے کہ بڑی عجلت میں تیار کیا گیا اور اسے عجلت میں ہی ریاستی مقننہ کو روانہ کرتے ہوئے اپنے نظریات کااظہار کرنے کی ہدایت دی گئی، حالانکہ اس مسودہ میں مقاصد اور وجوہات کو قطعی طورپر نظر انداز کردیا گیا۔ کئی اہم مسائل اور کئی اہم پہلوؤں کو پس منظر میں ڈال دیا گیا۔ اس طرح یہ واضح ہوجاتا ہے کہ مرکزی حکومت تقسیم کے مسئلہ پر کئی ذیلی موضوعات پر معلوماتی مباحث اور تبادلہ خیال کی خواہاں نہیں ہے۔ اس طرح تقسیم ریاست کے 8.4 کروڑ شہریوں کی زندگیوں پر راست اثر انداز ہونے والی ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ سینئر کانگریس قائدین کے مختلف بیانات سے ہمیں یہ بات سمجھ میں آگئی ہے کہ ان کے نزدیک اہم مسائل پر ریاستی مقننہ کے ارکان کے نطریات کا کوئی احترام نہیں ہے۔ حکومت کو یہ بات بھی گوارا نہیں ہے کہ وہ ریاستی مقننہ میں ایک قرارداد منظور کرے، اس لئے ہم نے ریاست کی غیر جمہوری تقسیم کے حلف نامے داخل کرتے ہوئے سختی سے مخالفت کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے بتایاکہ ہماری پارٹی کے پاس 3ارکان پارلیمنٹ، 23ارکان اسمبلی اور 6ارکان کونسل کی طاقت ہے۔ اس کے علاوہ 15ارکان اسمبلی ایسے ہیں جو پارٹی سے وابستگی رکھتے ہیں تاہم انہیں مجلس وزراء کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی تائید پر حال ہی میں نااہل قرار دے دیا گیا۔ اگر ان کارکان کو تحریک عدم اعتماد کی تائید پر فوری نا اہل قرار دے دیا جاتا تو ضمنی انتخابات میں یہ ارکان بھی وائی ایس آرکانگریس پارٹی کیلئے منتخب ہوجاتے، تاہم کانگریس پارٹی نے گندی سیاست کرتے ہوئے ان ارکان کو نا اہل قرار دینے کیلئے 3ماہ کا وقت لیا، تاکہ ضمنی انتخابات منعقد کرانے کا کوئی موقع دستیاب نہ رہے۔ واضح ہوکہ عام انتخابات کیلئے ایک سال سے کم عرصہ ہوتو ضمنی انتخابات نہیں کرائے جاتے۔ صدر جمہوریہ پرنب مکرجی سے نمائندگی کے بعد اپنی قیام گاہ واقع لوٹس روڈ پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جگن نے سیما آندھرا سے تعلق رکھنے والے تمام ارکان اسمبلی سے مطالبہ کیا کہ وہ متحدہ آندھراپردیش کی تائید میں صدر جمہوریہ کو حلف نامہ یش کریں۔ انہوں نے کہاکہ صدر تلگودیشم این چندرا بابو نائیڈو اپنے پارٹ ارکان اسمبلی کو حلف نامے داخل کرنے سے روک رہے ہیں۔ چیف منسٹر این کرن کمار ریڈی پر دوہرا معیار اختیار کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے رکن پارلیمنٹ کڑپہ نے کہاکہ وہ قول و فعل میں تضاد رکھتے ہیں۔ انہوں نے بتایاکہ چیف منسٹر نے تلنگانہ مسودہ بل سکریٹریٹ میں تمام 56 محکمہ جات کو روانہ کردیا اور تمام عہدیداروں کو تقسیم کا عمل جاری و ساری رکھنے کی بھی ہدایت دی۔ جگن نے مزید کہاکہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اسپیکر این منوہر اور چیف منسٹر این کرن کمار ریڈی ریاست کو تقسیم کرنے کیلئے اتنی عجلت کیوں کررہے ہیں۔ کیا وہ اس بات سے باخبر ہیں کہ کسی ریاست کی تقسیم کیلئے کونسی کونسی کاروائیوں سے گذرنا پڑتا ہے۔ اس بات کا اعادہ کرتے ہوئے کہ تقسیم کیلئے ریاستی اسمبلی میں ایک متفقہ قرارداد کی منظوری ضروری ہے، کیونکہ اتراکھنڈ کی تشکیل سے قبل ایساکیا گیا تھا، انہوں نے کہاکہ ریاستی اسمبلی میں ایک قرارداد کی منظوری کے بعد ہی تقسیم کے بل کا مسودہ مرتب کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ اگر ریاستی اسمبلی میں قرار منظور نہیں کی جاتی ہے تو وہ اور ان کی پارٹی کے ارکان عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔ ریاست کے ہر ایک شہری کو متحدہ آندھراپردیش کیلئے اٹھ کھڑے ہونے پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ اگر ریاست کی تقسیم ہوتی ہے تو صرف اور صرف ریاست کے مفادات کو ہی ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔

YSRC affidavit to president on AP bifurcation

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں