المیہ غم و الم کی تصویر ہے، جس سے ضمیرو قلب بیدار اور دولت احساس سے بہرہ ور ہوتے ہیں، سنجیدگی آتی ہے، شعور الم جاگتا ہے، پوری فضا الم رسیدہ اور پورا ماحول کبیدہ ہوجاتاہے، کرب وقلق چھا جاتا ہے اور ہر زندہ باشعور انسان جس کے سینہ میں دھڑکتا ہوا دل ہو دل اور جسم میں دیدہ بینا اور گوش شنوا ہوتاہے، وہ دوسرے انسان کی اس تکلیف دہ ار پریشان کن صورتحال پر خون کے آنسو روتاہے۔ اس میں مدد کا جذبہ پیدا ہوتا یہ اور اس کی انسانیت بیدار ہوتی ہے۔ دوسری طرف تفریح (کامیڈی) سامان سکون قلب، باعث فرحت و مسرت غذا ہے، جس سے غم و اندوہ، پریشانی و تکان، مصیبت و تکلیف کے بادل چھٹ جاتے ہیں، ذہن کو بوجھ ہلکا ہوجاتا ہے، بے فکری اور تسلی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔
یہ دو مختلف چیزیں ہیں، ان کے رجحانات و اثرات بھی بالکل جداگانہ ہیں، ٹریجڈی کامیڈی کا اجتماع ناممکن ہے، پھر فطرت وطبیعت کے لحاظ سے انسانوں میں بھی فرق ہوتاہے، کچھ لوگ ٹریجڈی ہی کو پڑھنا و سننا چاہتے ہیں جبکہ کچھ لوگ کامیڈی کی طرف زیادہ میلان رکھتے ہیں۔ مصنفین ادبا، قصہ نگار، ناول نگار و افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس بھی حیات انسانی کے پہلوؤں و گوشوں کی تصویر کشی میں الگ الگ انداز میلان رکھتے ہیں، کوئی سارا زور شقاوت، مصائب، المیوں اور غم و الم ہی کی منظر کشی پر صرف کرتا ہے تو کوئی خوشیوں، مصائب، المیوں اور غم و الم ہی کی منظر کشی پر صرف کرتاہے تو کوئی خوشیوں، مسرتوں اور تسکین قلبی کے مناظر کی تصویر کشی میں اپنی ساری مہارت صرف کرتاہے، حسن اتفاق اگر کوئی ان متضاد صنفوں کو کامیابی سے جمع کرلے جائے تو وہ عبقری اور نادرہ روزگار و بے مثال مصنفین میں شمار کیاجاتاہے، مگر یہ اجتماع خال خال ہی دیکھنے میں آتا ہے۔
لیکن آج کے ہمارے میڈیا کا یہ کمال ہے کہ وہ دونوں فنوں کو ایک ہی وقت میں پیش کرنے میں مہارت رکھتا ہے، جہاں شقا، محروی، مصائب اور خوشیاں، مسرتیں اور تقریبات ساتھ ساتھ چلتے ہیں، ہم آئے دن دیکھتے سنتے ہیں کہ ایک جگہ سے آہ و نالے، فریاد اور درد و غم کے مناظر پیش کئے جارہے ہیں، آبرو لٹ رہی ہے، انسان وطن چھوڑ نے اور اپنی جان بچانے پر مجبور ہیں، کسمپرسی کے عالم میں اجنبی جگہوں اور ماحول میں بے آسرا و بے سائبان خوراک و پوشاک کی ضروری مقدار سے بھی محرومی کے ساتھ زندگی کی گھڑیاں گذارنے پر مجبور ہیں، ان کے پاس اپنی آبرو کی حفاظت کا کوئی ذریعہ نہیں ہے، تو دوسری طرف اس سے قریب ہی کسی جگہ پر لوگ مست اور داد عیش دے رہے ہیں، شادیانے بج رہے ہیں، اسراف کا مظاہرہ ہورہا ہے، شوخیاں ہورہی ہیں، دل بہلایا جارہا ہے اور اس خوشی کے عالم میں انہیں یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ ان کے بھائیوں پر کیا مصائب ڈھائے جارہے ہیں، وہ کن دل دہلانے والی آزمائشوں سے دوچار ایسی زندگی پر ماتم کناں ہیں۔
ٹریجڈی و کامیڈی کے یہ دونوں مناظر بیک وقت اس دنیا میں آئے دن سامنے آتے ہیں، جسے ذرائع ابلاغ بڑی مہارت، فنکاری، باریک بینی اور اہتمام سے شائع کرتے اور پھیلاتے ہیں۔ انسانی المیوں، مصائب، ناقدریوں، تنگ دلی اور سختیوں کا منظر اور بے فکری اور تفریح کا منظر زندگی کے یہ متضاد مناظر ہر معاشرہ، خاندان اور گھرانہ کے سامنے ہیں، چاہے وہ ٹیلی ویژن کے ذریعہ پیش کئے جائیںیا ریڈیو اخبار و جرائد کے ذریعہ، ان متضاد مناظر سے ہر انسانکو سابقہ پڑتا ہے، مجلس و محفل کا موضوع گفتگو یہی ہے مگر کتناعجیب و حیرتناک ہے، یہ تضاد اور اس تضاد کا زندگی پر کیا اثر پڑسکتا ہے۔ مثال کے طورپر ایک منظر یہ ہے، 10لاکھ سے زائد انسان اپنے وطن کوسوو میں چھوڑ کر البانیہ میں پناہ گزیں ہیں کے قتل عام کا لامتناہی سلسلہ ہے، جو سربوں کے ہاتھوں کوسوو میں جاری ہے، بموں، دھماکوں، گولیوں اور نہ جانے کتنے تباہ کن وسائل ہیں، جنہیں یوگوسلاویہ جوش انتقام میں کام میں لارہا ہے۔ یہ دونوں مناظر شقا و آلام و محن کا ثبوت ہیں، مستقل خبریں آرہی ہیں کہ کوسوو میں مسلم عورتوں کا اجتماعی اغواو غصب، مسلمانوں کا قتل عام، بھاری توپوں کی مدد سے آبادی کی بربادی، گاؤں کے گاؤں جلانا اور تباہ کرنا، بچوں اور عورتوں کا قتل عام سی بات ہے۔ اخبارکی رپورٹوں میں ہے کہ سربوں نے بچوں کی آنکھیں پھوڑ دیں، دل نکال لئے، مردوں تک کے ساتھ مجرمانہ اور بہیمانہ سلوک کیا، زیورات کی طبع میں مقتول عورتوں کی انگلیاں کاٹ ڈالیں۔
یہ ہے انسانیت سوز منظر جس میں 10لاکھ سے زائد انسانوں کو اپنے وطن سے بے آبرو و بے سہارا ہوکر البانیہ میں کسمپرسی اور تنگ حالی کے عالم میں رہنے پر مجبور کیا گیا، کوئی خیموں اور کیمپوں میں رہ رہا ہے تو کوئی بلاکسی ذریعہ و سہولت کے پہاڑوں پر پناہ گزیں ہے۔
دوسری جانب، ناٹو کی فوجیں یوگوسلاویہ کو مسلسل تباہ کررہی ہیں، پورا ملک برباد ہوتا جارہاہے، یہ ہے وہ دل سوز منظر جس سے پوری دنیا باخبر ہے اور میڈیاکے مختلف ذرائع سے یہ اطلاعات مل رہی ہیں۔
لیکن یہ منظر تیزی سے پلٹ جاتا ہے اور حیات انسانی کی دوسری تصویر سامنے آتی ہے، یہ دوسرا منظر پہلے منظر کے برعکس غم کا بوجھ ہلکا اور انفعالی و جذباتی اثرات کو ختم کردیتاہے، یہ منظر ہے ورلڈکپ کا جس کے میچ لندن میں ہورہے ہیں۔ ورلڈکپ ایشیاء، افریقہ، آسٹریلیا اور برطانیہ میں بسنے والے افراد کا موضوع گفتگو اور اصلی مشغلہ بن گیا ہے۔ یہ ممالک مقابلہ میں شریک و سہیم ہیں، نوجوانوں، ادھیڑ عمر حتی کہ بوڑھوں تک میں اس کھیل سے دلچسپی اس درجہ بڑھ چکی ہے کہ تماشائیوں کو دوسرے ضروری کاموں سے بیگانہ و لاپروا کر ڈالا ہے، کرکٹ سے اس قدر دلچسپی کو ایک صحافی نے بخار کا نام دیا ہے۔ انگلش روزنامہ "ٹائمس آف انڈیا" میں شائع ہوا ہے کہ کرکٹ کا بخار ایشین لوگوں میں پھیل چکا ہے اور چین کی سخت گیر حکومت نے بھی جہاں بیرونی ٹیلی ویژن چینل دیکھنے پر پابندی ہے، شدید اصرار پر انڈین ٹیلی ویژن چینل پر آنے والے کرکٹ میچ دیکھنے کی اجازت دے دہی ہے، کیونکہ ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش کے لوگوں میں خصوصاً سیاسی طبقہ میں کرکٹ کی دلچسپی حد سے زیادہ بڑھ چکی ہے۔
اخباروں میں تفصیلات آرہی ہیں کہ خلیجی ممالک خاص طور سے متحدہ عرب امارات میں کرکٹ میچوں سے دلچسپی اور توجہ بڑھتی جارہی ہے۔ حد یہ ہے کہ جن کے پاس ٹیلی ویژن نہیں ہے وہ مارکٹوں اور شاہراہوں میں نصب ٹیلی ویژنوں پر بھیڑ لگاکر میچ دیکھتے ہیں، اسی کے پیش نظر اےئر انڈیا اپنی پروازوں میں کرکٹ میچ کے مناظر دکھلائے گا۔ اور غذائی سامان کیلئے کرکٹ کی اصلاحات استعمال کرے گا۔
اخبارات کھلاڑیوں کی تصویریں، حالات، میچوں کے سلسلہ میں تبصرے اور تجزیے روز چھاپ رہے ہیں، تو اگر ایک طرف کوسوو اور یوگوسلاویہ کے دل سوز و خونی المیے اخباروں کی سرخیوں میں آرہے ہیں تو دوسری طرف ان میچوں کی تصویریں اور خبریں کئی کئی صفحوں کو گھیر رہی ہیں۔
کھیل پر یہ خاص توجہ ہی ہے کہ ہر خوردو کلاں کھیل کے سارے مراحل سے واقف ہے، لوگوں کی زبانیں کھلاڑیوں کے ناموں کا ورد کرتی رہتی ہیں اور کامیابیوں اور ناکامیوں کے ریکارڈ و اعداد و شمار کا تذکرہ ہر جگہ ہورہا ہے۔
ہندوستان میں صرف ایک مہینہ میں اخباری اطلاعات کے بموجب 5لاکھ ٹی وی سیٹ خریدے گئے، پاکستان جب بنگلہ دیش سے ہارا تو بڑی تعداد میں ٹی وی سیٹ غصہ میں توڑ دئیے گئے۔ روزانہ اخباروں میں کرکٹ سے اس دلچسپی کے نہ جانے کتنے ایسے عجیب و غریب واقعات شائع ہوتے ہیں کہ کوئی دانا و بینا ان کی تصدیق نہیں کرسکتا۔ اس صورتحال کا خاص طور سے ان ملکوں میں پایاجانا افسوسناک ہے، جو فقر و افلاس، جہالت و پسماندگی، بیکاری، انتظامی کرپشن، اجتماعی ظلم و بے راہ روی، طبقاتی کشمکش جیسی نہ جانے کتنی مشکلات میں مبتلا ہیں۔ فی الواقعہ یہ ایک طرح کا نشہ و مدہوشی ہے اور اُن قوموں کو سلانے و غافل کرنے کا ذریعہ ہے، جو اپنے شاندار و درخشاں مستقبل کیلئے بیداری اور نشاط کی محتاج ہیں، یہ دراصل زندگی کے مسائل اور انسانی المیوں سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔
کھیل کود کی اہمیت سے اور زندگی کی تعمیر میں اس کے اثر سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے، یہ مختلف ناموں اور مختلف شکلوں میں ہر دور میں اہمیت کا حامل رہا ہے۔ جسمانی صحت کے ساتھ انسان کی فکر اور ذہنی صلاحیت کو پروان چڑانے پر بھی اثر پڑتا ہے، لیکن اس کا ایک دائرہ ہے اور اس کی کچھ حدیں ہیں، جن کا اگرخیال نہ کیا جائے تو زندگی کا توازن بگڑ جاتا ہے، مشرقی قومیں چونکہ جذباتیت کا شکار ہیں اس لئے ہر شق میں جذباتیت پیدا ہوجاتی ہے اور اعصاب متاثر ہوجاتے ہیں، یہ جذباتیت اور اعصاب کی کمزوری مغربی قوموں میں نہیں پیدا ہوتی، اس لئے کہ وہ توازن قائم رکھتی ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حالات کے مطابق زندگی کے مختلف شعبوں میں مناسب اور اعتدال پیدا کیا جائے۔
The Two contrasting views of life. Article: Maulana Wazeh Rasheed Nadvi
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں