ننگی بربریت - جنہیں ناز ہے ہند پر وہ کہاں ہیں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-12-30

ننگی بربریت - جنہیں ناز ہے ہند پر وہ کہاں ہیں


اُن سبھی نے گاؤں پردھان پر پورا بھروسہ کیا، گاؤں پردھان نے کہا تھا کہ وہ ان کا تحفظ کرے گا لیکن گاؤں پردھان کی دیوڑھی کے اندر فسادات کی صبح ان سبھی کو کیا کچھ بھگتنا پڑا اس کی تفصیل جان کر آپ دہشت زدہ ہوجائیں گے۔ مظفر نگر گاؤں سے 20کیلو میٹر دور اترپردیش کے شاملی ڈسٹرکٹ میں ایک گاؤں لاکھ باؤڑی Lakh Bawdi ہے۔ جوکہ تین طرف اوسط قد کے ہندوستانی کے قد کے برابر گنے سے بھرے کھیتوں سے اورچوتھی طرف ایک تالاب سے محصور ہے۔ گنے کی فصل کٹائی کیلئے بالکل تیار ہے۔ لیکن لاکھ باؤڑی میں فصل کاٹنے کے موسم میں گنے کے کھیتوں نے جو داستان بیان کرنی شروع کی ہے۔ وہ بھیانک کمینہ پن، بربریت اور بہیمیت کی ہولناک، لرزہ خیز داستان ہے۔ حال ہی میں ایک ادھی ننگی، آدھی سڑی ہوئی عورت کی لاش ملی۔ گنے کی کھڑی فصل جیسے جیسے کاٹی جارہی ہے۔ مزید لاشیں ملیں گی۔ ستمبر مہینے میں مظفر نگر ڈسٹرکٹ اور شاملی ڈسٹرکٹ میں جو فرقہ وارانہ تشدد برپا ہوا۔ اس تشدد میں سب سے زیادہ جو گاؤں متاثر ہوے میں لاکھ باؤڑی گاؤں سر فہرست ہے۔ دیگر متاثرہ گاؤں لیساڈ، پھوگانا، کٹبا۔ کٹبی، کیرانا اور بہاؤڑی ہیں۔ عابد خاں کے دل و دماغ پر یہ منظر نقش ہوگیا ہے۔ " صبح 7:30 بجے نوجوانوں کا ایک گرو ہمارے گھر کے سامنے ٹھہر گیا اور ہم سے کہا گیا کہ اگر ہم زندہ رہنا چاہتے ہیں تو یہاں سے فوری بھاگ جایں۔ ہم مدد کیلئے بھاگے بھاگے بلو پردھان کے گھر گئے۔ بلو پردھان جن کا اصلی نام سدھیر کمار ہے وہ گاؤں کے منتخب سربراہ ہیں۔ لاکھ باؤڑی کے رائے دہندوں کی جملہ 9500 ہے۔ ان میں مسلمانوں کی تعداد 1200 کے لگ بھگ ہے۔ مسلمانوں زیادہ تر زرعی مزدور، نجار، دھوبی، قصاب اور درزی کا کام کرتے ہیں۔ یہاں کے جاٹ ہندوؤں کا پیشہ نیشکر کی کاشت کاری ہے۔ بلو پردھان کی وسیع و عریض رہائش گاہ نئی اور پکی سڑک کے آخری سرے پر واقع ہے۔ کئی دنوں سے لوگوں میں غصہ پایا جاتا تھا اور ماحول میں افواہیں گشت کررہی تھیں۔ نقلی ویڈیو اور دیگر عصری آلات کو فسادات برپا کرنے میں استعمال کیا جارہا تھا۔ سیاست داں بھی اپنی اشتعال انگیز تقاریر اور جذباتی نعروں سے لوگوں کو فساد پر اُکسار رہے تھے۔ 7 ستمبر کو مظفر نگر میں جمعہ کی نماز کیلئے لوگ اکٹھا ہورہے تھے اور کوالہ میں جاٹوں کی مہا پنچایت کا انعقاد عمل میں آرہا تھا۔ اس دن صبح اس خبر کے ساتھ گاؤں والے نیند سے بیدار ہوئے کہ مسلمانوں کے ایک ہجوم نے کوال سے واپس لوٹنے والے جاٹوں پر حملہ کرکے چند جاٹوں کا قتل کرکے ان کی نعشیں جاولی نہر میں دفن کردی ہیں۔ یہ خبر لاکھ باؤڑی تک بھی پہنچی۔ جب ہم نے بلو پردھان سے اپنی حفاظت کی درخواست کی تھی انہوں نے کہاکہ ہمیں کچھ نہیں ہوگا۔ ہم میں سے کچھ لوگ ان کے گھر کے آنگن میں اکٹھا کھڑے ہوئے تھے اور بعض لوگوں سے کہا گیا تھا کہ وہ فرار ہوجائیں۔ اس دن بلو پردھان کے مکان میں عابد کی والدہ اور گاؤں کی دوسری عورتیں صبح ہی جمع ہوگئی تھیں۔ عابد بھی 50 لوگوں کے ساھ وہاں آئے تھے، جن میں ان کے دادا، چاچا نے پردھان کے بتائے ہوئے محفوظ راستے کی طرف کوچ کیا۔ وہاں پر ایک ہجوم ان لوگوں کا انتظار کررہا تھا۔ عابد نے بتایاکہ " ان کے دادا اور ان کے بھائی کو ان کی آنکھوں کے سامنے قتل کردیاگیا۔ میں، میرے والد اور خاندان کے دیگر افراد جان بچانے کیلئے نیشکر کے کھیتوں میں بھاگ کھڑے ہوئے ۔ انہوں نے پاگلوں کی طرح اپنے موبائیل فون پر پولیس کو مدد کیلئے پکارا"۔ پولیس آئی لیکن پورے چار گھنٹے بعد جب کہ سب کچھ ختم ہوچکا تھا۔ اس وقت تک میرے گاؤں کے 80 آدمیوں کو قتل کیا جاچکا تھا۔ ان کی والدہ کی برہنہ اور ٹکڑے ٹکڑے لاش، گوبر کے اوپلوں کے ڈھیر پر پڑی ہوئی پائی گئی۔ خاندان کے بچے کھچے افراد کو لے کر عابد، غازی آباد کے لونی عارضی کیمپ میں پناہ گزیں ہوئے۔ شاملی ضلع میں واقع کنڈھلا کی عیدگاہ جب ہم پہنچے تو بارش شروع ہوچکی تھی۔ اس شہر پر تقریباً مسلمانوں کا غلبہ ہے۔ یہاں کے ریلیف کیمپ مقامی لوگوں کی مدد سے چلائے جارہے ہیں۔ جب ہم یہاں کی مسجد میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ مسلے ہوئے ملبوسات کا ڈھیر مسجد کے صحن میں ایک کیچڑ اور پانی سے بھرے ہوئے گڑھے میں بھیگ رہے ہیں۔ فساد سے متاثرہ گاؤں کے تقریباً 12000لوگ یہاں پناہ گزیں تھے۔ مقامی مدرسہ کے کمرے جب ناکافی ہونے لگے تو یہاں خیمہ لگوائے گئے۔ جب بارش شروع ہوئی تو خیمہ میں پانی ٹپکنے لگا۔ لوگ مدرسہ کی راہداری میں کھڑے رہنے پر مجبور ہوگئے۔ خواتین نے مدرسہ کی پہلی منزل اور اس کے نچلے حصہ پر قبضہ جمالیا۔ بوڑھی خواتین کے گروپ میں ایک 30 سالہ خاتون شبانہ بیٹھی ہوئی تھیں۔ جن کا تعلق لاکھ باؤڈی سے تھا۔ اس خاتون کے چہرے کا بایاں حصہ جھلس چکا تھا۔ انہوں نے بتایاکہ ان کے گھر کو نذر آتش کردیا گیا جس میں ان کی 3بھینیس جل کر خاکستر ہوگئیں اور دو بیٹے لاپتہ ہوگئے۔ شبانہ کچھ کہنے کے موقف میں نہیں تھیں۔ ایک گھنٹے تک تیقنات اور تسلی دینے کے بعد انہوں نے اپنی کہانی سنانی شروع کی۔ 8 ستمبر کو صبح 8 بجے 20 آدمیوں کا ایک گروہ ان کے گھر آیا۔ میں اس وقت ناشتہ بنارہی تھی۔ میرے شوہر ایک دھوبی ہیں وہ اپنے کام پر جانے کی تیاری کررہے تھے۔ ہم نے جونہی شوروغل کی آوازیں سنیں بلو پردھان کے گھر کی طرف بھاگنے لگے۔ ہم نے دیکھا کہ ہمارے گھر کو آگ لگادی گئی ہے۔ اس گڑبڑ میں شبانہ نے اپنے دو لڑکے کھودئیے۔ پردھان کے گھر پر ہمیں پھاٹک کے اندر لے جایا گیا۔ آدھے گھنٹے بعد گاؤں سے بلوائیوں کا ایک گروپ آیا۔ اس نے ہم پر حملہ کردیا۔ انہوں نے میری آنکھوں کے سامنے میرے شوہر کے ٹکڑے ٹکڑے کردئے۔ میں نے شبانہ سے پوچھا کہ ان پر بھی حملہ کیاگیا۔ شبانہ چپ ہوگئیں۔ میں نے دوبارہ کوشش کی۔ اس بار انہوں نے دبی دبی آواز میں بتایاکہ کئی خواتین کو برہنہ کردیا گیا۔ ان کی عصمت دری کی گئی۔ پہلے لاٹھیوں سے عورتوں کو پیٹا گیا۔ اس کے بعد بے رحمی سے ان کے ساتھ درندہ صفت شیطانی حرکات کیں۔ مردوں کو ننگا کرکے ان کے ٹکڑے ٹکڑے کردئیے گئے۔ ایک گھنٹے کی درندگی کے بعد شبانہ اور دیگر خواتین کو برہنگی کے عالم میں پھینک دیا گیا۔ انہوں نے بتایاکہ وہ اور دوسری دو عورتیں ایک گھر کے عقب میں چھپ گئیں۔ مجھے یاد نہیں کہ اس کے بعد کیا ہوا۔ سوائے اس بات کے کہ اس کیمپ کے ایک آدمی نے مجھے پہننے کیلئے ایک کرتا دیا، کنڈھلا بلاک کی بلدیہ کے صدرنشین حاجی واجد حسین نے خواتین کو وہاں سے منتقل کرنے کیلئے ٹرالیاں روانہ کیں۔ کنڈھلا کی ایک خاتون نے بتایاکہ "ان کے بدن پر کپڑے نہیں تھے۔ مقامی خواتین نے اڑوس پڑوس سے کپڑے اکٹھا کرکے انہیں دئیے۔ شبانہ کے دولڑکے طاہر اور شاہد جو 5ویں اور دوسری جماعت میں پڑھتے تھے اب تک لاپتہ ہیں۔ حالانکہ اس واقعہ کو ہوکر تین ماہ بیت چکے ہیں۔ صرف شبانہ کی کہانی اس قدر دہشت ناک نہیں ہے۔ 40 سالہ صابرہ کی کہانی بھی بھیانک خواب کی طرح ہے۔ صابرہ بھی لاکھ باؤڈی سے عیدگاہ کے کیمپ منتقل ہوئیں۔ انہوں نے کہاکہ "میرے شوہر عجمان اور ان کی پہلی بیوی عالیہ جو میری بڑی بہن بھی ہوتی ہیں، میرے تین بیٹوں اور میرے ساتھ اس دن صبح بلوپردھان کے گھر گئے۔ میرے بڑے لڑکے نے کہاکہ وہ موٹر گاڑی کا بندوست کرنے جارہا ہے سب وہیں رہیں۔ ان کا شوہر تپ دق کا مریض تھا۔ ہم نے سونچا تھا کہ بلو پردھان 3بار گاوں کا مکھیہ یا پردھان رہ چکا ہے۔ وہ ہماری مدد کرے گا۔ عجمان اور عالیہ پر پردھان کے گھر میں درانتی سے گردن پر حملہ کیاگیا۔ یہ کہتے ہوئے صابرہ کی آنکھیں اشک بار ہوگئیں اور اس نے منہ پھیر کر رونا شروع کردیا۔ سب نے پوچھا آپ کی لڑکیوں کا کیا ہوا۔ انہوں نے سختی سے منہ بند کرلیا اور انکار میں سر ہلانے لگیں۔ اور مزید کہنے سے انکار کردیا۔ انہوں نے 12 سالہ سجو کی طرف دیکھتے ہوئے کہاکہ اگر میں آپ کو سب کچھ بتادوں گی تو اس لڑکی سے شادی کون کرے گا؟ انہوں نے ایک گہری سانس لی اور ایک بار پھر ہمت کرکے اپنی بات جاری رکھی۔ پہلے دو لڑکے میری بڑی لڑکی پر جھپٹ پڑے اور اسے بے لباس کردیا اور اسے کھینچتے ہوئے زمین پر گرادیا اور باری باری سے اس کے ساتھ منہ کالا کیا۔ اس کے بعد انہوں نے میری دوسری لڑکی کو پکڑ کر لاٹھی سے اس کے نازک مقام پر مارنا شروع کیا نیتجے میں خون بہنے لگا۔ انہوں نے اسے ایک کونے میں ڈھکیل دیا۔ اس کے ساتھ انہوں نے دوسری لڑکیوں پر بھی جنسی حملے شروع کئے۔ بعد میں سجو نے مجھے بتایاکہ "آپاکی منگنی ہوچکی تھی اور آج ان کی شادی ہونے والی تھی"۔ اس کے بعد اس دن پردھان کی عمارت کے پھاٹک کھول دئیے گئے۔ صابرہ، سجو اور دیگر لوگوں کے ساتھ قریبی جنگل میں چھپ گئے۔ اس کے بعد ایک دن اور ایک رات تک مسلسل پیدل چلنے کے بعد یہ لوگ کنڈھلا پہنچے جہاں کیمپوں کے رضا کارروں نے ان کی مدد کی۔ یہاں ان کا لڑکا راشد جو موٹر گاڑی کا انتظام کرنے گیا تھا مل گیا۔ یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ پہلی بار جب کسی سے مذکورہ کیمپوں میں عصمت دری کے واقعات کے بارے میں پوچھا جائے تو وہ صریح انکار کردیتے ہیں۔ مظفرنگر ضلع کے ایک چھوٹے سے شہر گنگرو کی غالب آبادی شیعہ مسلمانوں کی ہے۔ یہاں کے ایک دینی مدرسہ نے 21 گاؤں کے 400 سے زائد لوگوں کو پناہ دی۔ اس مدرسہ کے سربراہ محمد ثناء اﷲ سے جب پوچھا گیا یہاں کسی خاتون کی عصمت ریزی کے کسی واقعہ کی اطلاع ہے؟ انہوں نے نہایت ہی صاف صاف کہہ دیاکہ "خواتین کی بے حرمتی بھی کی گئی۔ انہیں اذیت بھی پہنچائی گئی مگر آپ کو میرا یہ مخلصانہ مشورہ ہے کہ آپ ان واقعات کو بھول جائیں۔ متاثرہ خواتین کے خاندان کے لوگوں کو کو اگر اس کا علم ہوگا کہ انہوں نے آپ کو سب کچھ بتادیا ہے تو وہ انہیں عاق کردیں گے"۔ ہم جب گنگیرو کیمپ پہنچے تو ہم نے وہاں موجود خواتین سے پوچھا کہ کیا وہاں کوئی جنسی تشدد کا واقعہ کسی کے پیش آیا ہے؟ تمام خواتین نے ایک ساتھ جواب دیا کہ "ہم اس سے پہلے ہی بھاگ کھڑے ہوئے مگر ہم جانتے ہیں کہ دوسری خواتین کی بے دردی کے ساتھ حرمت پامال کی گئی۔ اس ضلع کے ایک وکیل منظر نے بتایاکہ "اسلام میں عصمت دری کو بھی زنا میں شمار کیا جاتا ہے۔ خواتین اس خوف سے زبان نہیں کھولتیں کہ کہیں ان پر زنا کرنے کا الزام نہ لگ جائے"۔ شمع کے شوہر اقبال اور ان کے چھوٹے بھائی تحریر کو 8 ستمبر کو لاکھ باؤڑی میں شہید کردیاگیا۔ ان کے شوہر (شمع کا شوہر) گذر بسر کیلئے ٹانگا یا یکہ چلایا کرتا تھا۔ جب یہ لوگ پناہ گزین کیمپ سے اپنے گھر گئے تو انہیں جلا ہوا ٹانگہ دکھائی دیا۔ شمع نے اپنی کہانی دہرائی کہ "میں اپنے 6 بچوں کے ساتھ پناہ لینے پردھان کے گھر گئی۔ انہوں نے میری 3 سالہ بچی کے دونوں ہاتھوں کو موڑ کر اسے اچھال دیا۔ یہ وہ نوجوان (ہندو) لڑکے تھے جنہیں میں نے کئی بار اپنے گھر پر کھانا کھلایا تھا۔ جب میں اسے بچانے دوڑی انہوں نے مجھے ایک لاٹھی سے پٹنا شروع کیا اور میری عصمت دری کیلئے انہوں نے اس لاٹھی کو استعمال کیا۔ اسی طرح انہوں نے یہی سلوک مزید 4یا 5 عورتوں کے ساتھ بھی کیا"۔ شمع کی بہن شاذیہ جو ہم سے 10میٹر دور کھڑی تھی۔ وہ بھی ہماری باتوں میں شال ہوگئی۔ اس نے کہاکہ "آپ اس کے بارے میں کسی کو کچھ مت بتائیے"۔ شمع اور ان کے بچوں کو پردھان کے گھر سے باہر پھینک دینے کے بعد شاذیہ اور ان کے 7 بچے مل کر وہاں سے بھاگ گئے۔ گاؤں کے لوگ انہیں برہنہ اور خون میں لت پت بھاگتا ہوا دیکھ رہے تھے مگر ان میں سے کوئی بھی ہماری مدد کیلئے آگے نہیں آیا شاذیہ نے بتایاکہ وہ (ہندو) عورتیں جن کی زچگیوں میں ہم نے مدد کی تھی وہ بھی خالی نظروں سے ہمیں دیکھتی رہیں۔ مہراز نے اس واقعہ کو یاد کرکے جھرجھری لیتے ہوئے بتایاکہ "ہندو ہجوم چیخ رہا تھا کہ ان مسلمانوں کی لونڈیاں کو رکھ لو"۔ انہوں نے بلو پردھان کے گھر میں پناہ لی تھی جسم میں خون کو سرد کردینے والے اس جشن درندگی کی وہ شکار بھی ہیں چشم دید گواہ بھی۔ وہ ان چند خواتین میں شامل تھیں جنہوں نے جنسی حملوں کے سوال کا جواب اثبات میں دیا۔ ان کے سینے کونوکدار کھر پار (تھاپی) سے چھیدا گیا۔ وہاں پر 8تا 10لڑکوں کا ایک گروپ تھا جو ایسا لگتا تھا کہ اس مشن پر مقرر کیا گیا ہے۔ وہ کسی بھی عورت کو بے لباس کردیتے پھر اس پر ٹوٹ پڑتے اور اس کی عزت لوٹ لیتے۔ بلو پردھان ان واقعات کے 20منٹ کے بعد ہی غائب ہوگیا۔ مہراز اپنی 8 سالہ بچی اور شوہر اکبر قریشی کے ساتھ گھر سے فرار ہوگئیں۔ مگر ان کا12 سال کی عمر کا لڑکا پیچھے رہ گیا۔ ان کے گھر پر 10تا12 آدمیوں نے حملہ کردیا اوران کے گھر کو آگ لگادی جس پر ان کا بچہ جل کر راکھ ہوگیا۔ مہراز کی آواز میں اب بھی ایک آگ تھی۔ انہوں نے کہا "جب بلو پردھان کی عمارت کے دروازے کھول دئیے گئے، میرے بدن پر کوئی کپڑے نہیں تھے، میرے شوہر اور میری بچی چار پائی کے نیچے ایک ٹاٹ کے تھیلے میں چھپے ہوئے تھی۔ ہم نے بھاگنا شروع کیا ہندو لڑکے ہمارا پیچھا کررہے تھے۔ دو گھنٹوں بعد وہاں پولیس پہنچی۔ جب ہم نے اس سے حفاظت کی درخواست کی تو الٹا وہ میرے شوہر کو تشدد پر اکسانے کے الزام میں گرفتار کرنے کی کوشش کرنے لگی، ہم آہستہ سے پیچھے ہٹ گئے اور جنگل کی راہ لی۔ مہراز اب لونی کیمپ میں پناہ گزیں ہیں وہ اپنے گاؤں واپس جانا نہیں چاہتیں۔ دوسرا کیمپ اور دوسری دہشت کی کہانی 20 سال کی عمر کی روبینہ نے مالک پورہ پناہ گزیں کیمپ میں اپنی کہانی سنائی " وہاں لوڈ اسپیکر لگے ہوئے تھے۔ اور کان پھاڑ دینے والی بالی ووڈ کے گانے لگائے گئے تھے۔ جب خواتین کے ساتھ منہ کالا کیا جارہا تھا۔ گیٹ کے باہر چند لڑکے زور زور سے ڈھول بجارہے تھے۔ روبینہ کے گالوں کو دانتوں سے بری طرح کتر دیا گیا روبینہ کو دو آمیوں نے کس کر پکڑا اور کتوں کی طرح اس کے جسم کے مختلف حصوں کو کترنے لگے۔ اس کے بعد باری باری سے تین آدمیوں نے اسے بے عزت کیا۔ روبینہ کے والدین اور اس کے خاندان کے دیگر افراد تین ماہ سے لاپتہ ہیں۔ روبینہ نے بتایاکہ اس کے گاؤں کی دو خواتین کو ایک مسجد میں برہنہ ناچنے پر مجبور کیا گیا، میں نے اس سے پوچھا کہ اس نے کوئی شکایت پولیس میں درج کروائی ہے؟ اس نے جواب دیاکہ اگر میں شکایت کروں گی تو کس طرح اس کیمپ میں رہ سکوں گی؟" 8 ستمبر کی بدبخت صبح کو کیا ہوا تھا، اس کی کہانی کئی کیمپوں میں پناہ گزیں عورتیں جہاں ہمیں سنا رہی تھیں وہ لاکھ باؤڑی کے ہندو ہٹ دھرمی اور ان کی باتوں کی تکذیب پر آمادہ تھی۔ 28 سالہ بگلا بھگت جسے زنا بالجبر، قتل اور ڈاکہ زنی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اس کی ماں کہہ رہی تھی "پولیس نے میرے بیٹے کو خواہ مخواہ گرفتار کرلیا۔ ہر شخص اس کو جانتا ہے۔ آپ کس سے بھی پوچھ سکتے ہیں کہ کیا وہ ایسا کام کرسکتا ہے۔ 50 برس کی ویملا بھی اس طرح حیران ہے اور تعصب سے کہتی ہے۔ "انہوں نے میرے بیٹے دھرم ویر کو بلا وجہ پکڑلیا۔ پولیس مسلمانوں کو کیوں گرفتار نہیں کرتی جو اپنی مسجدوں میں بم چھپائے رکھتے ہیں۔ متاثرہ گاؤں کی تمام مساجد جلادی گئی ہیں اور انہیں تباہ کردیا گیا ہے۔ گاؤں کے تباہ حال اور جلے ہوئے مکانوں کے متعلق سے اگر (ہندو) گاؤں والوں سے پوچھا جائے تو وہ صاف یہی کہتے ہیں کہ معاوضہ کی لالچ میں مسلمانوں نے خود اپنے گھر جلالئے ہیں"۔ ہندو، مسلمانوں کی تہذیب کا احترام کرتے ہیں۔ وہ کبھی کسی مسلمان عورت کی بے عزتی نہیں کرسکتے"۔ برسر اقتدار سماج وادی پارٹی کے لیڈر پرمود رانا حال ہی میں گاؤں کو مخاطب کرکے کہنے لگے۔ "اگر مسلمان واپس لوٹ آئیں ان کے ساتھ تعاون کرنا۔ مگر ان سے صاف کہہ دینا کہ ان کی حفاظت نہیں کی جاسکتی"۔ فسادات کے ایک ہفتہ بعد سے اب تک پردھان مفرور ہے، ہم نے جب اس کی بیوی سے رابطہ قائم کیا تو اس نے سارے واقعہ پر پردھان کا اتہ پتہ بتانے سے ہی انکار کردیا۔ ابھی تک صرف 6 اجتماعی عصمت ریزی کے اور 5 عصمت دردی کے واقعات درج کئے گئے ہیں۔ شکایت گنندگان کی شہادت تک ابھی تک قلم بند نہیں کی گئی ہیں۔ جن میں مہراز شبانہ اور دیگر خواتین شامل ہیں۔ ہم نے جن 9 خواتین سے بات چیت کی ان کے بیان کی اساس پر تقریباً 19 عورتوں کا اغوا کیاگیا، ان کی بے حرمتی کی گئی اور ان کے ساتھ درندہ صفت شیطانی حرکات کرکے انہیں بلو پردھان کے گھر میں 8ستمبر کی صبح قتل کردیاگیا۔ گذشتہ ہفتہ لاکھ باوڑی کے نیشکر کے کھیتوں میں ایک خاتون کی نیم برہنہ لاش کی دستیابی کے بعد ریاستی ویمن کمیشن کی صدرنشین زرینہ عثمانی نے مظفر نگر کے فسادات کے دوران شاملی، باغپت، سہارن پور اور میرٹھ میں عورتوں پر جنسی تشدد کی تصدیق کی۔ انہوں نے عوام کے نام لکھے خط میں خواتین پر زور دیا ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور اپنی شکایت درج کروائیں۔ انہوں نے بتایاکہ متاثرہ خواتین کی اکثریت کا تعلق کمزور طبقات سے ہے انہیں خاموش رہنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ یوپی کے وزارت داخلہ کے سکریٹری کمل سکسینہ سے جب پوچھا گیا کہ کیا فسادات کے دوران عورتوں کی عزت پامال کی گئی؟ انہوں نے سوال کے جواب میں کہاکہ "کسی عورت نے بھی پولیس میں شکایت درج نہیں کروائی ہے۔ پولیس شکایت ملنے پر کوئی کارروائی کرسکتی ہے"۔ (نوٹ: خواتین کے نام تبدیل کردئیے گئے ہیں۔ )

بشکریہ آؤٹ لک
اردو ترجمہ : روزنامہ اعتماد ، حیدرآباد

Thread Bared - Muzaffarnagar riots. Article: Neha Dixit

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں