ہم جنس پرستی پر سپریم کورٹ کا فیصلہ - ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے ہم آہنگ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-12-15

ہم جنس پرستی پر سپریم کورٹ کا فیصلہ - ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے ہم آہنگ

homosexuality
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ کہ ہم جنس پرستی غیر قانونی عمل ہے ، اور تعزیزات ہند دفعہ377 کے تحت یہ عمل غیر شرعی وغیر اخلاقی قرار پاتا ہے اور اس غیر فطری عمل کا مرتکب اسی قانون کے تحت 10سال کی سزائے قیدبھی مستحق ہوسکتا ہے ، اور دہلی ہائی کورٹ نے 2009میں اس انتہائی حساس مسئلہ کو جو ملک کے وقار اور تہذیب وشائستگی کا غماز ہے، تعزیزات ہند کی دفعہ 377سے مساوات کے اصول کی خلاف ورزی اور شخصی وانفرادی آزادی کو مجروح قرار دینے والا بتلا کر ہم جنسی کو جائز اور قانونی قرار دیا تھا،لیکن سپریم کورٹ کے ججس جی ایس سنگھوی اور جسٹس ایس جے مکوپادھیائے نے کہاکہ قانونی تعزیزات ہند کی دفعہ 377میں تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں ہے ، ہائی کورٹ نے اس دفعہ کو کالعدم قرار دے کر غلطی کی تھی ،البتہ سپریم کورٹ نے اس مسئلہ پر قانون سازی کا حق پارلیمنٹ پر چھوڑ رکھا ہے، سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ چند مذہبی ، سماجی تنظیموں کے ہائی کور ٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنے کے نتیجے میں منظر عام پر آیا ، جن میں ہندو ،مسلم ، عیسائی ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے ، خصوصا مسلم پرسنل بورڈ کے رہنما ظفر یاب جیلانی اور اور با با رام دیو نے اس فیصلہ کا خیر مقدم کیا ہے ،سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ہندوستان کے اقدار وروایات اور یہاں کی تہذیبی وسماجی شائستگی کے بھی عین مرادف ہے ، لیکن اس فیصلہ کے منظر عام پر آنے کے ساتھ ہی چند ہم جنس پرستی کے جواز کے متمنی لوگوں نے اس فیصلہ کے خلاف چیلنج کرنے کو کہا ہے ، ہم جنس پرستی کو نہ ہی شرعی طور پر اور نہ ہی قانونی طور پر اور نہ ہندوستانی تہذیب وثقافت کے رو سے صحیح گردانا جاسکتا ہے ، ہم ہندوستانیوں کو اس قسم کے مسائل میں ان کو قانونی درجہ دیئے جانے سے پہلے عقل وخرد ساور ہوش کے ناخن لینا چاہئے ، کیاہم جنس پرستی کا عمل اس لائق ہے کہ اس کو قانونی جواز دیا جائے ؟ اس کے نتائج بد ایڈس وغیرہ کے پیش نظر ہی سپریم کورٹ نے اس غیر فطری عمل کو غیر قانونی قرار دیا ہے ، جیسا کہ سپریم کورٹ کو ہم جنسی پرستوں کی تعداد کی جو رپورٹ پیش کی گئی تھی اس میں مذکور ہے کہ ہندوستان میں لگ بھگ 25لاکھ ہم جنس پرست ہیں ، جن میں تقریبا 7فیصد ایج آئی وی (ایڈز) کے شکار ہیں ۔ایڈز کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ بیماری ابتداء امریکہ کی ریاست سانفراسکو میں سب سے پہلے اس طرح کے ہم جنس پستوں میں رونما ہوئی ، پھر یہ بیماری طوائف اور نا معقول عورتوں میں در آئی ، پھر ان سے ان کے کوکھ سے جنم لینے والے بچے اس کا شکار ہوئے ، پھر ساری دنیا میں لاکھوں لوگ اس بیماری سے لقمہ اجل بنے ، طبی طور پر بھی یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ یہ بیماری عموما ہم جنس پرستی ، جنسی انحراف اور شذوذ اور باکیزہ رشتہ داری سے جی چرانے کے نتیجے میں ہی در آتی ہے ، یہ اس قدر وبائی اور معتدی بیماری ہے کہ جب یہ کسی شخص میں نشو ونما پالیتی ہے تو اس کے نتیجے میں اس کے آس پاس رہنے والے لوگ بھی اس سے متاثر ہونا شروع ہوجاتے ہیں ،مذہب اسلام کے روح رواں حضرت محمد صلی اللہ عہلیہ نے بجا کہا ہے کہ : ’’جب بھی کسی قوم میں بد کاری کی کثرت ہوجائے گی ، یہاں تک کہ وہ کھلے عام اس کا ارتکاب کرنے لگیں گے تو اس کے نتیجے میں ایسے ایسے بیماریاں در آئیں جس کا تصور گذشتہ لوگوں نے کبھی نہیں کیا تھا ، سماجی واخلاقی اورہندوستانی کی مذہبی وثقافتی روایتو ں کو پیش نظر رکھ کر اس غیر فطری عمل کا جائزہ لیا جائے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان ابتداء ہی سے ایک مذہبی ملک رہا ہے ، یہاں مختلف مذاہب کا وجود رہا ہے ، یہاں بڑے بڑے صوفی سنت گذرے ہیں ، یہاں کی روحانی واخلاقی کتھائیں آج بھی ساری دنیا میں زبان زد عام وخاص ہیں ، شرم وحیاء ، عفت وپاکدامنی کو ہمیشہ ہی یہاں ایک گوہر گراں مایہ سمجھا گیا ہے ، اس لئے اس ملک کے باسیوں کو یہ کسی طرح یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ دوسرے یورپین ممالک کی نقالی میں اپنے ملک اور اپنے آباء واجداد کے ان پاکیزہ اقدار وروایات کا سودہ کریں اور ہمارے اس مذہبی وثقافتی ملک کو اخلاقی انارکی کا شکار بنادیں ، اس کے علاوہ یہ ہم جنسی کا یہ عمل فطرت سے بغاوت کے بھی مترادف ہے ، اللہ عزوجل نے انسان کی صنفی ضروریات کی تکمیل کے لئے عورتوں کو پیدا فرمایا اور اس کے نتیجے میں توالد وتناسل کا سلسلہ قائم فرمایا ، اگر اس غیر فطری عمل کو جائز ٹھہرایا جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں لوگ اپنی خاندانی ذمہ داریوں سے جی چرانے کے لئے اس غیر فطری عمل کی طرف اقدام کریں گے ، اس کے نتیجے میں نہ صرف نت نئے بیماریاں ، کمزوریاں انسانوں میں در آئیں گی ؛ بلکہ مرد وعورت کے قربت کے نتیجے میں توالد وتناسل کا جو سلسلہ قائم ہے ، جس پر دنیائے انسانی کا بقا اور یہ رونق وچہل پہل ہے وہ بھی مانند پڑجائے گی اور اس کے علاوہ یہ غیر فطری عمل تمام مذاہب میں بھی قبیح قرار دیا گیا ہے ، ہر مذہب میں انسانی زندگی کے لئے میاں بیوی کی شکل میں جوڑوں کا ذکر ملتا ہے ، مغربی ممالک جہاں ہم جنسی کے جواز کو قانونی درجہ دیا گیا ہے ، وہ بھی عیسائیت اوریہودیت پر عمل پیرا ہونے کے دعویدار ہیں ، لیکن انہوں نے بھی اپنے مذہب کو پس پشت ڈال دیا ہے ، بائیل میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نکاح میں حضرت سارہ علیہ السلام اور حضرت ہاجرہ علیہ السلام کے ہونے کا اور حضرت یعقوب علیہ السلام ، حضرت نوح علیہ السلام ، حضرت لوط علیہ السلام ، حضرت موسی علیہ السلام ، حضرت زکریا علیہ السلام اور مختلف پیغمبروں کی ازواج مطہرات کا ذکر ہے ، ہندو مذہب میں رام چندر جی کی بیوی کی حیثیت سے سیتاجی کا نام مشہور ہے ، رام جی کے والد اور والدہ کا بھی ذکر ملتا ہے ، خود اسلام میں سب سے پہلے انسان حضرت آدم علیہ کی سکونت وطمانیت کے لئے حضرت حوا ان کی دائیں پسلی سے پیدا کیا جانا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ کی ازواج مطہرات کا ذکر موجود ہے ، غرضیکہ تمام مذاہب وادیان میں اس غیر فطری عمل اور ہم جنسی پرستی کا کہیں تصور بھی موجود نہیں ہے ، اگر اس غیر فطری عمل کے قانونی درجہ کی بات کہنے والے اگر غیر مذہبی لوگ ہوتے معقول بات تھی ، یہ تمام کے تمام لوگ اپنے آپ کو جس مذہب کا پیرو کار کہتے ہیں وہی مذاہب ان کے خیالات کی تردید کرتے ہیں ، گذشتہ قدیم مذاہب کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں یہ بات واضح ہوتی ہے ، اجب ان اقوام نے اس غیر فطری کو اختیار کیا تو اس کے نتیجہ میں ان پر طرح طرح کی بیماریاں اور عذابات آئے اور صفحۂ ہستی سے ان کا بالکل ہی نام ونشان تک مٹادیا گیا ، بہر حال یہ غیر فطری عمل قدرت کی نگاہ میں اس قدر نارواں اور ایسا سنگین جرم ہے کہ اس کے نتیجہ میں وہ آخرت میں تو دردناک عذاب سے دوچار ہوگا ہی ؛ لیکن اس کو اس کے اس غیرفطری عمل کے نتائج کا بد کو دنیا میں بھی بھگتنا پڑے گا ، چنانچہ یہ بد عملی جس معاشرہ میں بھی در آئی ہے وہاں انفرادی یا اجتماعی شکل میں عذابات وعقابات کا نزول ہوا ہے ، چنانچہ قرآن مجید بتاتا ہے کہ اس بد عملی اور غیر فطری عمل کی سب سے پہلے جو قوم مرتکب ہوئی وہ قوم لوط تھی ، حضرت لوط علیہ السلام کو اللہ تعالی نے اردن کے شہر سدوم(sodom)میں پیغمبر بنا کر بھیجا تھا،سدوم ایک مرکزی شہر تھا اور اس کے مضافات میں عمورہ وغیرہ کئی بستیاں آباد تھی، یہ ہم جنسی (homosexuality)کی لعنت میں گرفتا رتھے ، جب یہ پیغمبر کے اس برائی کے نتائج کو بتلانے کے باوجود اس سے باز نہ آئے تو ان پر پتھروں کی بارش برسائی گئی اور ان تمام بستیوں کو الٹ دیا گیا ، آج بحر میت (dead sea) کے نام سے جو سمندر ہے یہ بستیاں اس میں ڈوب گئی ہیں ، چنانچہ قرآن کریم نے اس کا نقشہ یوں کھینچا ہے ’’اور ہم نے لوط کو پیغمبر بنا کر بھیجا ، جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا : کیا تم اس بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا جہاں کے کسی شخص نے کی ؟تم جنسی ہوس پوری کرنے کے لئے عورتوں کے بجائے مردوں کے پاس جاتے ہو ،حقیقت یہ ہے کہ تم لوگ حد سے تجاوز کرنے والے ہو ، قوم لوط کو اس کے سوا کوئی جواب نہ بن پڑا تو کہا کہ : ان لوگوں کو اپنی بستی سے نکال لو یہ لوگ بڑے پاکباز بنتے ہیں ، تو ہم نے لوط علیہ السلام اور ان کے گھروالوں کو بچالیا ، مگر ان کی بیوی (نہ بچی ) کہ وہ انہی میں رہی جو عذاب میں رہ گئے تھے اور ہم نے ان پر پتھروں کا مینہ برسایا تو دیکھو ، ان مجرموں کا انجام کیسا ہوا ؟ (الأعراف : 80-84)قوم لوط کے علاوہ جن اقوام میں یہ بیماری عام ہوئی ان میں یونانی بھی تھے ، انہوں نے اس بیہودہ اور غیر فطری عمل کو (greek love)کا نام دیا تھا ، یہی اخلاقی انارکی اس ترقی یافتہ قوم کی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی ، چنانچہ اس وقت جاپان جو کہ نہایت ترقی یافتہ اور ٹیکنالوجی کا حامل ملک سمجھا جاتا ہے اس کی صورتحال ہے کہ وہ ہر چند سال کے بعد زلزے اور سونامی کے زد میں آکر تباہ وبرباد ہوجاتا ہے ، آج بھی دنیا میں زلزلے ، طوفان ، سونامی اور آتش فشاں پھوٹ پڑنے کی شکل میں جو عذابات خداوندی نازل ہوتے ہیں یہ اسی قسم کی قدرت کے طور وطریق اور اس کے فطری اعمال سے انحراف کا نتیجہ ہوتے ہیں ۔اس لئے ضرورت اس بات کی ہے ہر مذہب وملت والے حضرات اس غیر فطری عمل کی نتائج بد سے نوجوانوں کو واقف کرائیں اور اس کے زہر ہلاہل سے قوموں دوررکھنے کی کوشش کریں ،ہندو ومسلم اور ہر فرقے کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ہمارے ملک میں اس قسم کے غیر فطری قوانین کو بننے نہ دیں ، جو نہ صرف ہمارے مذہبی تعلیمات کے مغائر ہیں ؛ بلکہ ایڈز جیسے سنگین بیماریوں کے در آنے کا بھی ذریعہ ہیں ،جو انسان کو جیتے جی ہی موت کے حوالے کردیتے ہیں ۔

***
مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی ، وادی مصطفی شاہین نگر ، حیدرآباد۔
rafihaneef90[@]gmail.com
رفیع الدین حنیف قاسمی

Supreme Court decision on homosexuality is in line of indian cultural values. Article: Rafi Haneef

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں