اپوزیشن کے سبب فساد مخالف بل پیش نہیں کیا جاسکتا - راج ببر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-12-22

اپوزیشن کے سبب فساد مخالف بل پیش نہیں کیا جاسکتا - راج ببر

ممبر پارلیمنٹ اور کانگریس پارٹی کے قومی ترجمان راج ببر نے کہا کہ انسداد فرقہ وارنہ تشدد بل اس لیے پیش نہیں کیا جاسکا کہ اپوزیشن پارلیمنٹ کو چلنے نہیں دے رہی تھی اور اگر ایک بار یہ بل مسترد ہوجاتا تو اسے دوبارہ پیش کرنا مشکل ہوجاتا۔ یہ بات انہوں نے یو این آئی کے اس سوال کے جواب میں کہی کہ کیا لوک پال بل کانگریس پارٹی کی ضرورت تھی اس لیے اسے پاس کرالیا گیا اور انسداد فرقہ وارانہ تشدد قوم کی ضرورت تھی اس لیے اس پاس کرانا تو دور اسے پارلیمنٹ میں پیش تک نہیں کیا گیا۔ یہاں سچر رپورٹ اور بارہویں منصوبے کے موضوع پر منعقدہ چودھویں قومی کانفرنس میں انہوں نے ایک دیگر سوال کے جواب میں کہ دو دن قبل پارلیمنٹ کی کارروائی اچانک کیوں ملتوی کردیا گیا، کہا کہ اپوزیشن پارٹیوں کے شور شرابے کی وجہ سے ایسا کرنا پڑا کیوں کہ اس میں قوم اور ملک کا پیسہ برباد ہورہا تھا۔ راج ببر نے اس تاثر کو ماننے سے دو ٹوک انکار کردیا کہ دہلی اسمبلی الیکشن 2014کے تمام عام انتخابات کا سیمی فائنل تھا اور کہا کہ عام انتخابات کے امور اسمبلی انتخابات سے قطعی مختلف ہوتے ہیں اور ہندوستانی ووٹر یہ فرق ایک سے زیادہ موقعوں پر اپنے فیصلوں سے واضح کرچکے ہیں۔ مہار اشٹر کے اقلیتی امور کے وزیر عارف نسیم خاں نے مودی پر سخت حملہ کرتے ہوئے کہا کہ جو پورے گجرات کا سردار نہیں بن سکا وہ پورے ملک کا سردار کیسے بن سکتا ہے۔ انہوں نے فرقہ پرست طاقتوں کے خلاف جنگ کو اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ سیکولر طاقتوں کو اس جنگ میں شامل ہوکر اسے ناکام بنا نا ہوگا۔
سچر کمیٹی اور اس کی قرارکی روشنی میں مرتب ایک رپورٹ کا اجرا ابھی ممبر پارلیمنٹ راج ببر کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ قبل ازیں جامعتہ الہداۂ کے بانی مہتمم اور کئی دیگر دینی و عصری ادارے کے بانی مہتہم اور کئی دیگر دینی و عصری ادارے کے بانی و سر براہ مولا نا محمد فصل الرحیم مجددی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم جسمانی اعتبار سے ضرور آزاد ہوگئے ہیں لیکن دل و دماغ سے اب بھی غلام ہیں۔ یہ ہمارا اتحاد ہی تھا کہ انگریزوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا ۔ جب تک ہم متحد رہیں گے اور ایک دوسرے کے درد کو سمجھیں گے ملک ترقی کرتا رہے گا۔ نفرت کے سہارے ملک ترقی کی راہ پر نہیں چل سکتا ۔ گجرات حکومت کے اس موقف پر تنقید کرتے ہوئے جس میں حکومت گجرات نے منصوبہ بندی کمیشن کے سامنے کہا تھا کہ گجرات کے مسلمان خوش حال ہیں اور تعلیم کے میدان میں آگے ہیں اس لیے انہیں اسکالرشپ کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلم بچوں کے اسکول چھوڑنے کی شرح ہندوستان میں سب سے زیادہ ہے۔
6سال سے 17سال کی عمر کے بچوں کے اسکول چھوڑنے کے معاملے میں بہار سب سے آگے ہے جب کہ تیسرے نمبر پر گجرات ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ و ہ سب ترقی یافتہ ریاست ہے۔ بہار میں ایسے بچوں کی تعداد 39اعشاریہ 9فیصد ہے جب کہ ہندو بچوں کی تعداد 23اعشاریہ 9فیصد ہے۔ اترپردیش میں ایسے مسلم بچوں کی تعداد 37اعشاریہ 2ہے کہ جب کہ ہندو بچوں کی تعداد 17اعشاریہ 3فیصد ہے ۔ گجرات میں 35اعشاریہ 7فیصد مسلم بچے اسکول چھوڑ دیتے ہیں جب کہ ہندو بچوں کی تعداد 20اعشاریہ 1فیصد ہے۔مجموعی طور پر ہندوستان بھر میں 28اعشاریہ 8مسلم بچے اسکو ل چھوڑ دیتے ہیں جب کہ 17اعشاریہ 7فیصد ہندو بچے اسکول چھوڑ دیتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ کسی ریاست کی ترقی کا پیمانہ یہ ہے کہ اس ریاست میں کتنی سرمایہ کاری کی گئی ۔ گزشتہ دس بارہ برسوں کے دوران ممبئی میں دو لاکھ چھیالیس ہزار کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی گئی اور دہلی میں ایک لاکھ اکیاون ہزار کروڑ روپے جب کہ گجرات میں صرف 36ہزار کروڑ روپے کی سرمایہ کی گئی۔ گجرات میں صرف پانچ فیصد سرمایہ کاری ہوئی ہے۔
مولا نا نے آبادی کے تناسب سے مسلمانوں کو تمام شعبہ حیات میں نمائندگی دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اتر پردیش اور مغربی بنگال کے علاوہ ہر جگہ پولیس کے محکمہ میں مسلمانوں کی نمائندگی کم ہوئی ہے۔ گجرات میں مسلمانوں کی آبادی 9یا 10فیصد ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ وقت دباؤ کا ہے اور جو قوم جتنا دباؤ ڈالتی ہے وہ اتنی ہی کامیاب رہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مدرسہ کو دہشت گردی کا اڈہ کہا جاتا ہے لیکن جب ہم نے وزیر داخلہ سے کہا کہ ایک بھی مدرسہ کو دہشت گردی کا اڈہ ثابت کردیں تو آپ کیا ہم خود مدرسوں کو بند کردیں۔ مگر وہ ایک بھی مدرسہ کو دہشت گردی کا اڈہ ثابت کرنے میں ناکام رہے اور انہیں پارلیمنٹ میں یہ بیان دینا پڑا کہ ایک بھی مدرسہ دہشت گردی کا اڈہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ رواں بجٹ میں حکومت مدرسہ کی ماڈرانائزیشن پر بہت توجہ دے رہی ہے جب کہ مدارس میں صرف 4فیصد بچے پڑھتے ہیں حکومت کو پہلے مسلمانوں کے مرض کا علاج کرنا چاہئے نہ کہ اس کا جس کے علاج ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے سچر کمیٹی کے اعداد و شمار کے حوالے سے اپنا کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بھی بدتر ہے۔ سچر کمیٹی کی یہ رپورٹ 2001کی مردم شماری کے اعدادو شمار پر مبنی ہے اگر 2011کی مردم شامری کے حوالے سے دیکھیں تو مسلمانوں کی حالت اور بھی بد تر ہوچکی ہے۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے حوالے سے گیارہویں پنج سالہ منصوبہ میں تمام سفارشات کو جگہ دی گئی ہے مگر افسوس کی بات ہے کہ بارہویں پنج سالہ منصوبہ کے نفاذ کو ایک ڈیڑھ سال ہوچکے ہیں اس کے باوجود مسلمانوں کی فلاح و بہبود سے متعلق سفارشات اب بھی زیر التوا ہیں اور اب تک اس سمت میں کچھ نہیں کیا گیا ہے بلکہ کچھ رہنما اسے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بارہویں پنج سالہ منصوبہ میں سچر کمیٹی کی سفارشات کو جگہ دی گئی ہے لیکن بہت افسوس کے ساتھ کہنا پرٹا ہے کہ تمام وزراتیں اس کے نفاذ کے سلسلے میں خاموش رہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی خاموشی توڑنی ہوگی اور ان سفارشات کے نفاذ کے لیے میدان میں آنا ہوگااور یہ ثابت کرنا ہوگا کہ یہ قوم سوئی نہیں ہے بلکہ جا گ گئی ہے۔ انہوں نے اقلیتی امور کی صورتحال بیان کرتے ہوئے کہا کہ 2005/06میں جب یہ وزرات قائم کی گئی تھی تو اس وقت اس کا بجٹ 143اعشاریہ 43کروڑ روپے تھا لیکن اس وقت 1593اعشاریہ 23کروڑ روپے ہے لیکن اقلیتوں کی صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں نظر آرہی ہے۔ انہوں نے گجرات میں مسلمانوں کی صورت حال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سو گجراتی مسلمانوں میں سے 43شہری مسلمان مختلف مسائل کے ساتھ بھکمری سے بھی دوچار ہیں اور اس وقت گجرات کے مسلمانوں نے اکیسویں صدری میں قدم نہیں رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے کچھ طاقتیں سماج میں دراڑ پیدا کرنے کی کوششیں کررہی ہیں۔ گجرات کانگریس کمیٹی کے صدر ارجن موڈو واڈیا نے کہا کہ یہاں بھائی چارے کی ضرورت ہے اور نفرت کی سیاست ہندوستان میں نہیں چلے گی اور رنگا رنگی شناخت ہے۔ مختلف تہذیبوں اور مختلف رنگوں سے ہی ہندوستان بنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سماج میں خوف و دہشت کی سیاست کی جارہی ہے اس کے سہارے سیاسی فصل کاٹی جاتی ہے۔ یہ فصل 2009,2007,2009,2012اور پھر 2014میں بھی اسی طرح فصل کاٹنے کی تیاری چل رہی ہے۔ ہمیں نفرت کے ان سوداگروں کو شکست دینی ہوگی۔ انہوں نے سچر کمیٹی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کو نافذ نہ کرنا افسوسناک ہے۔ یہ کسی مسلمان کی رپورٹ نہیں بلکہ مرکزی حکومت کی رپورٹ ہے جس کے نفاذ کی ذمہ داری سب پر عائد ہوتی ہے۔

Oppn responsible for Parliament disruption: Babbar

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں