انسان کی عقل کا امتحان اس وقت ہوتا ہے جب وہ مضرت رساں اور نقصان دہ چیزیں اس کے سامنے ہوں اور اس کے لئے کوئی تیسرا راستہ نہ ہو، اسے گڑھے ہی کو منتخب کرنا ہو، چاہے وہ ایک چھوٹے گڑھے کو منتخب کرے، جس میں پھسل جانے کا اندیشہ ہویا وہ ایک ایسی کھائی کا انتخاب کرے، جس کا انجام بظاہر ہلاکت کے سوا کچھ اور نہ ہو، اگر وہ آگ سے بچ نہیں سکتا ، چاہے ایک چنگاری پر سے گزرے یا آگ کے شعلہ سے گزر کر جانا پڑے، تو وہ چنگاری کو گوارا کرلیتا ہے، ایسی صورتحال میں انسان کی عقل اور اس کی ترجیحی صلاحیت کا امتحان ہوتا ہے اور ان حالات میں بہتر انتخاب ہی اصل میں حکمت و دانائی ہے۔
عربی زبان کے ماہرین نے لکھا کہ حکمت کا لفظ "حکم" سے ماخوذ ہے، جس کے معنی معاملے کو درست رکھنے کیلئے کسی عمل کو روکنے کے آتے ہیں
" المنع للاصلاح۔ (مفردات القرآن:126)
اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ :
جس کو اﷲ تعالیٰ نے حکمت سے نواز دیا ہو، اسے خیر کثیر عطا کیا گیا :
ومن یوت الحکمۃ فقداوتی خیرا کثیرا (البقرۃ:269)
اﷲ تعالیٰ نے لقمان کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ :
ہم نے ان کو حکمت سے نوازا تھا
ولقد اتینا لقمان الحکمۃ (لقمان: 52)
دعوت دین کا کام بڑا اہم بھی ہے، نازک بھی ہے اور مصلحت کے ساتھ کرنے کا بھی، اس لئے خاص طورپر فرمایا گیا کہ اﷲ کے دین کی طرف حکمت کے ساتھ بلایا کرو
"ادعوا الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ۔ (النحل: 125)
رسول اﷲﷺ نے حضرت عبداﷲ بن عباسؓ کو چمٹالیا اور دعا دیتے ہوئے فرمایا : اے اﷲ! اسے حکمت سے نواز دیجئے۔
اللھم علمہ الحکمۃ
(ترمذی: حدیث نمبر 3824)
حضرت عبداﷲ بن عباسؓ ہی سے مروی ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ دو ہی آدمی اصل میں رشک کے لائق ہیں، ان میں سے ایک وہ شخص ہے جس کو اﷲ تعالی نے حکمت سے نوازا ہو، وہ اس کے ذریعہ فیصلے کرتا ہو اور تعلیم و تربیت کی خدمت انجام دیتا ہو:
آتاۃ اﷲ الحکمۃ فھو یقضی بھا ویعلمھا۔
(بخاری: حدیث نمبر 7141)
اس حدیث میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہوگیا کہ جب کوئی فرد یا گروہ اﷲ کی طرف سے حکمت و دانائی سے سرفراز ہوتا ہے تو وہ صحیح فیصلے کرپاتا ہے۔
اچھے اور برے حالات سے افرا بھی دوچار ہوتے ہیں اور قومیں بھی دوچار ہوتی ہیں، کم درجہ کے دشمنوں اور بڑے دشمنوں سے افراد کو بھی سابقہ پیش آتا ہے اور ملتوں کو بھی، انفرادی زندگی میں تو عموماً انسان کا رویہ یہی ہوتا ہے کہ وہ کم تر نقصان کو گوارا کرلے اور بڑے نقصان سے اپنے آپ کو بچا رکھے، لیکن اجتماعی زندگی میں بسا اوقات ایسے فیصلہ میں قومی جذبات حارج ہوجاتے ہیں اور بعض تکلیف دہ واقعات انسان کو اس درجہ متاثر کردیتے ہیں کہ وہ اپنے فیصلے میں حکمت و مصلحت کے پہلو کی رعایت نہیں کرپاتا، پھر اس کے نقصانات اتنے دوررس ہوجاتے ہیں کہ ان کی تلافی دشوار ہوجاتی ہے، تاریخ میں تس کی بہت سی مثالیں ہے، لیکن خود ہندوستان کی حالیہ تاریخ میں بھی اس کی کئی مثالیں مل سکتی ہیں۔ جیسے ہندوستان کی تقسیم کا مسئلہ، اس وقت برصغیر میں علماء کی بڑی تعداد کا خیال تھا کہ متحدہ ہندوستان ہی مسلمانوں کے مفاد میں ہے، ملک کی تقسیم ملک کو بھی نقصان پہنچائے گی اور مسلمانوں کو خاص طورپر اس سے نقصان پہونچے گا مگر لوگ جذبات کی رو میں بہہ گئے، انہوں نے علماء پر لعن طعن شروع کردیا اور انہیں اکثریتی فرقہ کا ایجنٹ ٹھہرایا گیا، اکثریت میں جو فرقہ پرست اور چالاک لوگ تھے، انہوں نے اس حقیقت کو سمجھ لیا کہ مسلمانوں کو چھوٹا سا ہوم لینڈ دینے میں ہندو اکثریت کی بھلائی ہے، کیونکہ وہ طویل عرصہ سے محکومانہ زندگی گذارتے رہے ہیں، اب انہیں ایک بڑا خطہ حاصل ہوجائے اور وہ پوری مطلق العنانی کے ساتھ حکومت کرسکیں گے، بہرحال ملک تقسیم ہوا اور ہزاروں لوگوں کی جانیں گئیں ان میں مسلمان بھی تھے اور ہندو بھی اور ظاہر ہے کہ کسی بھی بے قصور مارے جانے والے انسان کی ہلاکت قابل افسوس ہے، لیکن بہرحال ایسے مظلموں میں غالب اکثریت مسلمانوں کی تھی، اس تقسیم کی سزا آج تک ہندوستان کے مسلمان بھگت رہے ہیں اور اس کے نتیجہ میں جو ملک حاصل ہوا وہ ایسا کہ پچیس ہی سال میں دو ٹکڑے ہوگیا اور کچھ بچا کچا حصہ موجود ے وہ خود اندر سے ٹوٹ رہا ہے اور پوری دنیا میں بدنامی اور رسوائی کا عنوان بنا ہوا ہے۔
ہندوستان کی بعض مسلم ریاستیں 1948ء تک موجود تھیں، قومی سطح کے بعض مسلم قائدین نے حکومت ہند ک اس بات پر آمادہ کرلیا تھا کہ وہ چند چیزوں میں اشتراک کے ساتھ اس مسلم ریاست کو باقی رہنے دے، ریاست کے حکمراں بھی اس کے حق میں تھے، کیونکہ مستقبل کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ ایک ایسا ملک جس کے پاس تربیت یافتہ فوج نہ ہو ہتھیار کا ذخیرہ نہ ہو، دوست ملک سے روابطہ نہ ہو اور فضائیہ اور بحریہ نہ ہو، وہ مقابلہ نہیں کرسکتا، اس لئے انہوں نے صلح کا راستہ اختیار کرنے کو ترجیح دی، تاکہ خوں ریزی سے بچا جاسکے اور پرامن طریقہ پر مسئلہ حل ہوجائے، لیکن کچھ جذباتی لوگوں نے قوم کو ورغلایا اور ایسے دعوے کرنے لگے جوان کی طاقت سے باہر تھے، نتیجہ یہ ہوا کہ ملک بھی ختم ہوا اور بے شمار مسلمان، مردو عورت، بوڑھے بچے تہ تیغ کردئیے گئے، ممکن ہے کہ اس طرح کے فیصلے پورے جذبہ خلوص کے ساتھ کئے گئے ہوں، لیکن یقیناًیہ حکمت و مصلحت اور تدبر کے تقاضوں کے خلاف تھے اور ان کا جو نقصان ہونا تھا وہ ہوا۔
اب اس وقت ہندوستان ایک دوراہے پر کھڑا ہے ایک فرقہ پرست پارٹی جس کے پارلیمنٹ میں کبھی صرف دو ممبر ہوا کرتے تھے، سیکولر پارٹیوں کی بیساکھی لگاکر بام اقتدار پر چڑھنے کے قابل ہوگئی، انہوں نے ملک کے دستور تک کو بدل ڈالنے کی کوشش کی، لیکن اس میں کامیاب نہیں ہوسکے، گجرات میں خوں آشام فساد ہوا جس میں ریاست کا وزیراعلیٰ ایک ایسے قاتل کی صورت میں ابھرا جس کی پیاس دوچار دس مسلمانوں کے خون سے بجھنے کو تیار نہیں تھی، اس کے اشارہ پر کم و بیش 2ہزار مسلمان ایسی بے دردی اور سفاکی کے ساتھ قتل کردئیے گئے کہ چنگیز اور ہلاک کی روحیں بھی وجد میں آگئی ہوں گی۔ اب یہی شخص دہلی کے لال قلعہ پر اپنی فتح کا جھنڈا لہرانا چاہتاہے اور پورے ملک پر حکمرانی کا خواب دیکھ رہا ہے، یہ خواب اس شخص کیلئے سہانا ہے، لیکن ملک کے انصاف پسند لوگوں کیلئے خواہ ان کا تعلق اقلیت سے ہویا اکثریت سے، ایک ڈراونا خواب ہے، اگر بے قصوروں کی لاش پر چڑھ کر کوئی شخص اقتدار کے زینے طے کرنا شروع کردے تو پھر لاشوں سے تعمیر کئے ہوئے یہ زینے اونچے ہوتے چلے جائیں گے، ایسے مرحلہ پر مسلمانوں کا، دوسری اقلیتوں اور دلتوں کا، نیز سیکولر اور انصاف پسند ہندو بھائیوں کا فریضہ ہے کہ وہ حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے ملک کو ایسے ظالم شخص کے خونی پنجہ سے بچائیں اور اس ملک کی تعمیر کرنے والوں نے جس جذبہ کے ساتھ اس کا دستور بنایا تھا اس کی روح کو برقرار رکھیں۔
اس وقت مقابلہ خیر و شکر اور نیکی و بدی کا نہیں، بلکہ دو برائیوں کا ہے اور ان دو میں سے کم تر برائی کے انتخاب کا مرحلہ درپیش ہے، افسوس کہ کانگریس پارٹی میں فرقہ پرستی کی جڑیں اتنی گہری ہوگئی ہیں کہ انہیں سیکولر کہنا مشکل ہے، گذشتہ الیکشن کے موقع سے انہوں نے اپنے منشور میں اقلیتوں کیلئے جو وعدے کئے تھے، مسلسل 10 سال اقتدار پر رہنے کے باوجود ان میں سے کوئی وعدہ وفا نہیں ہوسکا، پوٹا کا قانون ختم کیا گیا لیکن اسی طرح بلکہ بعض جہتوں میں اس سے بھی سخت قانون لایاگیا، بے قصور نوجوان مسلمانوں کی گرفتاری اور چارج شیٹ داخل کئے بغیر طویل مدت سے ان کو جیل میں رکھنے کے واقعات کم ہونے کے بجائے اور بڑھ گئے، لیکن ان سب کے باوجود موجودہ حالت میں انہیں کم تر درجہ کی برائی قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ مسلم دشمنی جس کے ایجنڈے اور منشور کا حصہ ہو، ظاہر ہے کہ اس کی عداوت بڑھی ہوئی ہے اور ان حالات میں مسلمانوں کو گہرے تجزیہ کے ساتھ کام کرنے اور فہم و فراست کے ساتھ قدم آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
مسلمانوں کو ایسی علاقائی اور قومی سیاسی جماعتوں سے معاہدہ کی بنیاد پر معاملات طے کرنے چاہئیں جن کو کم سے کم سیکولر ہونے کا دعویٰ ہو ایک واضح ایجنڈے کے ساتھ ان سے گفت و شنید ہونی چاہئے، البتہ یہ گفتگو خفیہ بھی ہوسکتی ہے اگر ذرائع ابلاغ میں ایسی خبروں کا آنا نقصان دہ ہو، اور اندیشہ ہوکہ فرقہ پرست طاقتیں اس کو بہانہ بناکر برادران وطن کو اکسائیں گی، اور اپنے ووٹ بینک کو بڑھانے کیلئے ان کا استعمال کریں گی، حکمت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ فرقہ پرست طاقتوں کو تقویت پہنچانے کے دو طریقے ہوسکتے ہیں۔ ایک علانیہ طورپر ان کی تائید ہے اور بدقستمی سے بعض مسلمان قائدین مودی کی حمایت میں بیانات بھی دے رہے ہیں جس کو بے ضمیری کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے؟ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ جہاں ایک فرقہ پرست پارٹی کا مقابلہ براہ راست سیکولر پارٹی سے ہو، وہاں سیکولر پارٹی کی مخالفت میں مہم چلائی جائے، اس سے غیر محسوس طریقہ پر فرقہ پرستوں کو تقویت حاصل ہوگی اور ان کا خواب شرمندہ تعبیر ہوجائے گا، اس وقت راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور دہلی میں الیکشن کے جو نتائج سامنے آئے ہیں اور جو بی جے پی کے حق میں گئے ہیں، اس کا سبب جہاں کانگریس کی ناقص کارکردگی، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور سیکولر ووٹوں کی تقسیم ہے، وہیں اس کا ایک سبب یہ بھی ے کہ عین الیکشن کے موقع پر بعض مسلمانوں نے بی جے پی کے حق میں بیان دیا۔
بعض تنظیموں نے راجستھان جیسی ریاست میں جہاں براہ راست کانگریس اور بی جے پی کا مقابلہ تھا، کانگریس کے خلاف جلسے منظم کئے اور کچھ نام نہاد دانشوروں نے سیاسی رہنمائی کے نام پر ایک ایسا گروپ تشکیل دیا اور اس انداز پر سیاسی مسئلہ کو پیش کیا کہ جس میں سارا نزلہ برسر اقتدار حکومت پر گرتا تھا، یہ غلط نہیں تھا لیکن اس مہم کیلئے غلط وقت کا انتخاب کیا گیاتھا، اتفاق ہے کہ دہلی کے سوا بقیہ تین ریاستوں میں کانگریس بمقابلہ بی جے پی کا معاملہ تھا اور ظاہر ہے کہ وہاں کانگریس کے خلاف مہم چلانا کھلے طورپر فرقہ پرستی کا ایجنڈا رکھنے والی پارٹی کو تقویت پہنچانا ہے۔
ہمارے ملک میں کثیر جماعتی جمہوریت کا نظام رکھا گیا ہے، یہ طریقہ عوام کے حق میں بہتر ہوتاہے، کیونکہ ان کو دو سے زیادہ اختیار حاصل ہوتاہے، لیکن بدقسمتی سے اس وقت عملاً ہمارا ملک دو جماعتی طرز حکمرانی کی طرف جارہا ہے، کیمونسٹ پارٹیوں کے زوال کی وجہہ سے تیسرا محاذ نہایت کمزور ہے اور مستقبل قریب میں اٹھ کھڑے ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا، ان حالات میں مسلمانوں کو نہایت حکمت اور تدبر سے کام لیتے ہوئے قدم اٹھانا چاہئے، حضرت عمرؓ نے فرمایا تھا کہ علم و حکمت کی بات یہ نہیں کہ آدمی شر کے مقابلے میں خیر کو اختیار کرلے، بلکہ دانائی یہ ہے کہ جہاں دو برائیوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے پر انسان مجبور ہو وہاں کمتر برائی کا انتخاب کرکے بڑے نقصان سے اپنے آپ کو بچالے، ایسی حالت میں جبکہ ہندوستان کے سیاسی افق پر فرقہ پرستی کی سیاہ گھٹائیں چھارہی ہیں، اگر ہم نے فراست ایمانی اور نور بصیرت سے کام نہیں لیا اور جذبات، ردعمل اور نعروں میں بہہ گئے تو اس سے دور رس نقصانات کا اندیشہ ہے، ضرورت ہے کہ مسلمان قائدین و رہنما پارٹیوں کی وفاداریوں نیز حقیر اور وقتی سیاسی مفادات سے اوپر اٹھ کر ملت کے مفاد میں اتحاد و اجتماعیت کے ساتھ کام کریں اور سفینہ ملت کو بھنور سے نکالنے کی مخلصانہ کوشش کریں۔
Need strategies regarding Priority abilities. Article: Maulana Khalid Saifullah Rahmani
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں