بنگلہ دیش میں اسلامی تشخص کو مٹانے کی سازش - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-12-28

بنگلہ دیش میں اسلامی تشخص کو مٹانے کی سازش

Conspiracy-to-erase-Islamic-identity-Bangladesh.jpg
آج جس طرح عالمی سطح پر اسلام کی شبیہ بگاڑنے کی کوشش کی جارہی ہے ، مسلمانوں پر ہر جگہ عرصۂ حیات تنگ کیا جارہاہے ، کبھی تو اسلام کا حجاب اور پردہ کا نظام دشمنوں کی آنکھوں کا کانٹا بنتا ہے ، تو کبھی وہ قرآن پر اپنا غصہ اتارتے ہیں اور کبھی مسجدوں کو ڈھا کر اپنی بھڑاس نکالنے کی کوشش کرتے ہیں ، اور کبھی مسلمانوں کو حبس دوام اور قید وبند سے دوچار کر کے ان کے صبر کا امتحان لیا جاتا ہے اور کبھی انہیں جلاوطن ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے ، جس قدر یہ اسلام کی اساس اور بنیاد کو جڑ پود سے اکھاڑ پھینکنے کی تگ ودو کرتے ہیں ، اسلام کا شجرہ طوبی ہے کہ اسی قدر سر سبز وشاداب ہوتا جاتا ہے ، جس قدر اسلام کی شبیہ مسخ کرنے کی تگ ودو کی جارہی ہے اسی قدر اسلام کو فروغ حاصل ہوتا جارہا ہے ،بڑے بڑے اسلام دشمن حلقہ بگوش اسلام ہوتے جارہے ہیں ، اس کی ایک زندہ جاوید مثال فلم "فتنہ" کے ڈائرکٹر کا قبول اسلام ہے ، ایسا کیوں نہ ہو ،اسلام تو یہ فطری دین ہے ، یہ انسانی مزاج کے عین مطابق ہے ، یہ براہ راست انسانی ضمیر اور قلوب کو مخاطب کرتا ہے ؛ لیکن اسلام دشمن طاقتیں ہیں کہ اپنے تئیں اسلام کے جڑوں کو ہرسمت سے اکھاڑپھینکنے کی تگ ودو میں لگی ہوئی ہے ، مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ مسلمان ساری دنیا میں تین طبقات میں بٹے ہوئے ہیں ، ایک تو اسلام پسند اور دوسری جدت پسند ، مغرب پرست اور تیسری بین بین ، نہ ادھر نہ ادھر ، یہی وجہ ہے جس قدر نقصان اسلام اور مسلمانوں کو اپنو ں سے ہوا شاید کہ دوسروں نے اس کا عشر عشیر بھی نقصان اسلام کو پہنچایا ہے ، پتہ نہیں مسلمانوں پر مغربیت کابھوت اس قدر کیوں سوار ہوگیا ہے ، حالانکہ وقتیہ لذت اورعیش کوشی تو مغرب پرستی میں مل سکتی ہے ،لیکن حقیقی اور دائمی راحت کا سامان مشرقی معاشرت اور اسلام میں ہی پہنا ں ہے ، یا ہر طرف سے جو اسلام کی لہریں اٹھ رہیں انہوں نے ساری دنیا کو خوف ودہشت میں مبتلا کیا ہوا ہے، جس کے نتیجے میں مسلمان حکمراں بھی قبل اس کے اپنے آقا کا نزلہ ان پر گرے وہ اسلام سے اپنے وابستگی سے چھٹکارا حاصل کر رہے ہیں ، یا اپنے تئیں انہیں یہ فکر لاحق ہوگئی ہے کہ یہ اسلام بیداری کی لہر جو ہر سمت اٹھ رہی ہے کہیں یہ ان کی حکومتوں کا خاتمہ نہ کردے ، ویسے تو سارے ہی مسلمان ممالک کی یہی صورت حال ہے ، لیکن بنگلہ دیش موجودہ حکمراں سیاست نے اسلام کی بیخ کنی کے لئے گویا بیڑا اٹھایا ہوا ہے ، حالیہ بنگلہ دیش کی صورتحال اس بات کی غماز ہے بنگلہ دیش سے اسلامی تشخص کو ختم کرنے کی سازش کی جارہی ہے ، اسلام پسندوں اور اسلام کی شیدائیوں کو چن چن کر قید بند اور سولی وپھانسی کی سزا دی جانے کی کوشش کی جارہی ہے ، عبد القادر ملا کی پھانسی بھی اسی قسم کی ایک کڑی ہے ، جماعت اسلامی نے چونکہ بنگلہ دیش کے 1971ء پاکستان کے علاحدہ کئے جانے کے وقت اس کی سختی سے مخالفت کی تھی، اس لئے ان کے رہنما جو اس مہم کے سربراہ تھے تختہ دار پر چڑھا گیا، حسینہ واجدہ کے والد مجیب الرحمن کو چونکہ بنگلہ دیش کے علاحدگی کی تائید میں ان کے افراد خانہ کے ساتھ ختم کردیا گیا تھا، حسینہ واجدہ نے 2009 ء میں جب سے اس نے حکمرانی کے لئے تانے بانے بننا اس نے شروع کئے تھے ، تب ہی سے وہ اپنے پرانے حسابات وکتابات چکانے کی تہہ کرچکی تھیں، اس نے بجائے 2010 ء میں حکمرانی پر فائز ہونے کے بعد ملک کی ترقی اور اس کے معاشی استحکام والے اقدامات کے پرانے دشمنوں کے ختم کرنے کا بیڑا اٹھایاہوا ہے ، اس کے حکمرانی پر فائز ہونے کے بعد سے تقریبا 200 افراد کو گرفتار کر کے ان کو عدالت میں پیش کئے جانے اور ان کو سزا دیئے جانے کی کاروائی جاری ہے ، جن میں سابق جنرلس ، سیاسی قائدین ، جماعت اسلامی کی زعماء ولیڈران شامل ہیں جنہوں نے اپنے بنگلہ دیش کے عدم علاحدگی کا نظریہ پیش کیا تھا، ہر کا ایک نظریہ ہوسکتا ہے ،جب اس نظریہ کا نفاذ ہوچکا تو وہ اس ملک کے باسی قرار پائے ، ان کے ساتھ اس طرح کا سلوک اوررویہ کسی طرح زیب نہیں دیتا ، چنانچہ اسی سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر عدالت نے مارچ 2013ء میں عبد القادر ملا پر حبس دوام کی سزا سنائی ، پھر حکومت وقت کے دباؤکے نتیجے میں اس سزا کو پھانسی کی سزا سے بدلا گیا، پھر اس کے لئے 10دسمبر 2013م کی تاریخ طئے ہوگئی ، حکومت کے حد سے زیادہ دباؤ اور عوامی احتجاج کو دیکھ کر وقت سے پہلے ہی ان کو پھانسی پر لٹکا کر گولی مار دی گئی ، چنانچہ اس وقت بنگلہ دیش احتجاج اور عوامی مظاہروں کی آماجگاہ بن چکا ہے ، بنگلہ دیش اپوزیش پارٹی کی سربراہ خالدہ ضیاء اور ان کی پارٹی کے ارکان بھی سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں ،اس احتجاج اور عوامی مظاہروں میں جماعت اسلامی بنگلہ اور اپوزیش خالدہ ضیاء کے پارٹی کے سینکڑوں ارکان قتل ہوچکے ہیں، حسینہ واجدہ اپنے طاقت وقوت کا مظاہرہ کر کے اور وقتیہ اپنی بالادستی اور برتری کو دیکھ کر بجلد انتخابات کروانے کے حق میں ہے جس کی تاریخ جنوری 2014ء طئے کی گئی ہے ، لیکن اپوزیش پارٹی نے فی الوقت ان انتخابات کی تاریخ کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے ، چونکہ وہ جانتے ہیں اس وقت حسینہ واجدہ نے فوج اور عدالت پر اپناقابو حاصل کیا ہوا ہے ، جس کے نتیجے میں انتخابات کے صاف وشفاف ہونے کے امکانات موہوم ہیں، تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ حسینہ واجدہ جس سیاسی راہ پر گامزن ہیں اور وہ بزور طاقت جو اقدامات کئے جارہی ہیں ، اس کے نتیجہ میں بنگلہ دیش خانہ جنگی کی طرف گامزن ہوسکتا ہے ، عوام کی برہمی اور اس کے نتیجے میں میں پیدا ہونے والی کشیدہ احوال بنگلہ دیش کو مغرب کی آماجگاہ بنا سکتے ہیں ، یورپین ممالک اس سیاسی انتشار اور انارکی کے پیش نظر وہ تصفیہ اور حل اور ثالثی کے کردار نبھانے کے لئے بنگلہ دیش کا رخ کرسکتے ہیں ،پھر امریکہ اور اس کے حواری اس ملک پر حملہ کر کے اس کو تہس نہس کر سکتے ہیں ،اس وقت بنگلہ دیش کی صورت حال یہ ہے کہ وہ ایک غریب اور فقیر ملک ہے ، اس کے مستقل معاشی ذرائع کچھ نہیں ہیں ، بنگلہ دیش کی معاش کا انحصاربس مغربی اور دیگر ممالک کی کمپنیوں پر ہے، جو کہ خفیہ طور پر بنگلہ دیش کو نصرانیت کی طرف لے جارہے ہیں ،جس کی اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے پچھلی دودہائیوں میں تقریبا دو ملین اشخاص نصرانیت اختیار کر چکے ہیں ، بنگلہ دیش کی غربت ، معاشی پسماندگی ،محرومیت اور جہالت وناخواندگی نے ان کونصرانیت قبول کر نے پر آمادہ کیا ہوا ہے ، یہ تبشیری جماعتیں انہیں نصرانیت اور عیسائیت کے قبول کرنے پر ہر قسم کا تعاون کرتی ہیں ، چنانچہ ان تبشیری جماعتوں کی سرگرم امدادی مہم نے ہزاروں گاؤں اور دیہاتوں کو نصرانیت اور عیسائیت کے قبول کرنے پر مجبور کیا ہوا ہے ، ان دیہاتوں اور گاؤں میں سوائے چرچوں کے مساجد کا تو نام ونشان بھی نظر نہیں آتا ، دسیوں مساجد کو چرچوں میں تبدیل کیا جاچکا ہے ،چنانچہ یہ نصرانی اور تبشیری جماعتیں مسلمانوں کی معاشی حالت کے استحکام کے علاوہ ان کی تعلیم کی فراہمی کا سہار ا لے مسلمانوں کو بددین کر رہی ہیں،اس کے علاوہ موجود ہ حکومت نے اسلام جماعتوں جن میں جماعت اسلامی اور تبلیغی جماعت شامل ہے ، ان پر پابندی عائد کرنے کی سوچ رہی ہے ، اس طرح بنگلہ دیش میں دینی جماعتوں پر پابندی کے نتیجے میں وہاں پر اسلامی شناخت کا تحفظ بالکل مشکل ہوجائے گا، اب بیس سال قبل بنگلہ دیش میں نصرانیو ں کی تعداد دس بیس ہزار سے زائد نہ تھی، اب ا سوقت ایک لاکھ بیس ہزار سے زائد ہو گئی ہے ،نصرانیت کو قبول کرنے والوں کی اکثر تعداد جہالت اور غربت سے دوچارہے اور ان دیہاتوں میں مساجد کے نہ ہونے کی وجہ سے بھی نصرانیت کی طرف میلان ورجحان بڑھ رہا ہے، بنگلہ دیش کی یہ صورتحال ہر مسلمان کے لئے تکلیف دہ بن رہی ہے ۔مسلم ممالک ہوش کے ناخن لیں اور اس طرح کی سازشوں کا شکار ہو کر اپنے دین اور قیادت کا سودا نہ کریں ۔

***
مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی ، وادی مصطفی شاہین نگر ، حیدرآباد۔
rafihaneef90[@]gmail.com
رفیع الدین حنیف قاسمی

Conspiracy to erase Islamic identity in Bangladesh. Article: Rafi Haneef

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں