عام آدمی پارٹی - شکست کہ جیت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-12-07

عام آدمی پارٹی - شکست کہ جیت

aam-aadmi-party
عام آدمی پارٹی ۔۔۔
ہار جائیں یا ہوا ہو جائیں یا جیت جائیں ۔۔۔
ان تینوں حالات کو چھوڑ دیں تو اروند کیجریوال نے سیاست کے روایتی رجحان کو تبدیل کرنے کی دلیرانہ کوشش تو یقیناً کی ہے۔ ہماری اکثریت موجودہ سیاسی نظام پر ملال کرتی رہتی ہے لیکن اروند نے کچھ کر کے دکھانے کی کوشش میں کم از کم چند ہزار لوگوں کی حوصلہ افزائی تو کی ہے۔ ارادے کی ایمانداری، سیاست کو تبدیل کرنے کی پہلی شرط ہوتی ہے ۔
اروند نے جم کر انتخاب لڑا۔ ان کا ساتھ دینے کے لئے کئی لوگ بیرون ملک سے آئے اور جو نہیں آ سکے وہ اس تبدیلی پر نظریں جمائے رہے۔ آج صبح جب میں فیس بک پر اسٹیٹس لکھ رہا تھا تب امریکہ سے کسی شاہکار کا میرے ان-باكس میں پیغام آیا۔ پہلی بار بات ہو رہی تھی۔ شاہکار نے کہا کہ وہ جاگ رہی ہیں۔ امتحان کی طرح دل دھڑک رہا ہے۔ ایسے کئی مزید لوگوں سے میرا رابطہ ہوا۔

اروند نے بڑی تعداد میں نوجوانوں کو سیاست سے ان پیمانوں پر امید کرنے کا خواب دکھایا ہے جو شاید قدیم قائم شدہ جماعتوں میں ممکن نہیں ہے۔ یہ سیاسی عناصر کانگریس بی جے پی میں بھی جا کر اچھا ہی کریں گے۔ کانگریس اور بی جے پی کو بھی آگے جا کر امیر کریں گے۔ کون نہیں چاہتا کہ یہ جماعتیں بھی بہتر ہوں۔ میں بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں جو اچھے ہیں اور ان دو جماعتوں میں رہتے ہوئے بھی اچھی سیاست کرتے ہیں۔ ضروری ہے کہ آپ سیاست میں جائیں۔ سیاست میں سب سے زیادہ اخلاقیات کا مظاہرہ کبھی ممکن نہیں ہو سکتا ہے مگر اچھے لیڈر ضرور ہو سکتے ہیں۔
ایگزٹ پول میں عام آدمی پارٹی کو سیٹیں ملنے کا اشارہ ہو رہا ہے۔ لیکن عام آدمی پارٹی انتخابات کے بعد ختم بھی ہو جائے تب بھی سماج کا یہ نیا سیاسی ورژن سیاست کو متحرک بنائے رکھے گا۔ کیا کانگریس یا بی جے پی الیکشن ہار کر ختم ہو جاتی ہیں؟ نہیں۔
وہ بہتر تبدیلی کے ساتھ واپس آتی ہیں۔ اروند سے پہلے بھی کئی لوگوں نے ایسا کرنے کی کوشش کی۔ جے پی بھی ہار گئے تھے۔ بعد میں آئی آئی ٹی کے کچھ طالب علم ، تو کچھ ریٹائرمنٹ کے بعد جواں خواب رکھنے والے دیوانوں نے بھی ایسا کیا ہے۔
خواتین طبقے میں تو ایک بڑی تعداد کو ووٹ دینے کے لئے گھر سے نکلنے کے بارے میں سوچنا پڑتا ہے لیکن اروند کی جماعت نے سوچ سے آگے جا کر کام کیا ہے۔ لہذا اس دفعہ دہلی کے عوام نے جم کر ووٹ دیا ہے۔
سیاست میں اتر کر آپ سیاسی ہو ہی جاتے ہیں۔ اروند بار بار دعوی کرتے ہیں کہ وہ سیاسی شخص نہیں ہیں۔ شاید یہی سبب ہے کہ ووٹنگ سے پہلے کہہ دیتے ہیں کہ کسی کو بھی ووٹ دیجئے مگر ووٹ دیجئے۔
آج بی جے پی اور کانگریس کے اشتہار دو بڑے انگریزی روزنامہ میں آئے ہیں عام آدمی پارٹی کا کوئی اشتہار نہیں آیا ہے۔ اروند کے کئی اقدامات پر تنقید بھی ہوئی، شکوک و شبہات بھی سامنے آئے اور سوالات بھی کھڑے گئے گئے۔ ان کی قیادت کے انداز پر سوال اٹھے۔ یہی تو سیاست کا امتحان ہے۔ آپ کو مفت میں ہمدردی نہیں ملتی ہے۔ کانگریس بی جے پی سے الگ رہ کر کوئی نئی کوشش کرنا بڑی بات ہے۔
ایسا کہا جا رہا تھا کہ اروند لوک پال کے بہانے بی جے پی کے اشارے پر ہیں تو کبھی دس جن پتھ کے اشارے پر منموہن سنگھ کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ مگر اروند نے مختلف راستہ اختیار کیا۔ جہاں ہار ان کے ختم ہونے کا اعلان کرے گی یا مذاق کا کردار بنا دے گی مگر اروند کی ہار ، جیت کی جیت ہوگی۔ وہ جتنا جیتیں گے ان کی جیت دوگنی مانی جائے گی۔ انہوں نے کوشش تو کی۔ کئی لوگ بار بار پوچھتے رہے کہ بندہ ایماندار تو ہے۔ یہی لوگ لوک سبھا میں بھی اسی طرح کی سختی سے سوال کریں گے اس پر شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
اروند نے ان ووٹروں کو بھی ایک چھوٹا سا میدان فراہم کیا ہے جو کانگریس اور بی جے پی کے درمیان کروٹ بدل بدل کر تھک گئے تھے۔ اس لئے میری نظر میں اروند کا سیاسی قد سیٹوں کی تعداد سے نہیں ناپا جانا چاہئے۔ تب بھی نہیں جب اروند کی پارٹی دھول میں مل جائے گی اور تب بھی نہیں جب اروند کی پارٹی آندھی بن جائے گی۔
اس شخص نے دو جماعتوں سے لوہا لیا اور سیاست میں کچھ ایسے نئے سوال اٹھائے ہیں جن پر عرصہ دراز سے دھول جم چکی تھی۔ سیاست میں ایک سال نہایت کم وقت ہوتا ہے مگر جب کوئی لیڈر بن جائے تو اسے دور سے پرکھنا چاہئے۔ اروند کو ہرا کر نہ کانگریس جیتے گی اور نہ بی جے پی۔
تب آپ بھی دبی زبان میں کہیں گے کہ سیاست میں صرف ایماندار ہونا کافی نہیں ہے۔ یہی آپ کی شکست ہوگی۔ عوام کے لئے ایمانداری کے کئی پیمانے ہوتے ہیں۔ دہلی میں خوب شراب و کباب کی عیاشی منائی گئی مگر سپر پاور انڈیا کی چاہت رکھنے والے مڈل کلاس نے اف تک نہیں کی۔ نہ "نامو" کے شیدائیوں نے اور نہ "راہل" کے محبان نے۔
کیا یہ اشارہ کافی نہیں ہے کہ اروند کی جیت کا انتظار کون کر رہا ہے۔ شکست کا انتظار کرنے والے کون لوگ ہیں؟ وہ جو جشن منانا چاہتے ہیں کہ سیاست تو ایسے ہی رہے گی۔ اوقات ہے تو کوشش کر لو۔ کم سے کم اروند نے کوشش تو کی۔

شاباش اروند۔
مگر یہ شاباشی مستقل نہیں ہے۔ ابھی تک کی گئی کوششوں کے لئے ہے!!

***
ارشد حسین
رکن ریاستی رابطہ کمیٹی، عام آدمی پارٹی، آندھرا پردیش
arshadindia[@]gmail.com
موبائل : 9248900856
ارشد حسین

Aam Aadmi Party- Defeat or a Win. Column: Arshad Hussain

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں