ریاست تقسیم کے مسئلے پر کانگریس اور تلگودیشم کو رائے دینے میں دشواری - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-11-04

ریاست تقسیم کے مسئلے پر کانگریس اور تلگودیشم کو رائے دینے میں دشواری

برسراقتدار کانگریس اور اصل اپوزشن تلگو دیشم پارٹی ریاست کی تقسیم کے مسئلہ پر وزراء کے گروپ کوواپنی رائے دینے میں دشواری محسوس کررہے ہیں۔ مرکزی وزارت داخلہ نے آندھراپردیش کی 8سیاسی جماعتوں سے رائے طلب کی ہے۔ دو بڑی جماعتیں ریاست کی تقسیم کے مسئلہ پر علاقائی خطوط پر منقسم ہیں ۔ ان کے لیے کوئی رائے قائم کرنا مشکل کام ہے ۔ تلنگانہ قائدین تلنگانہ کے حق میں رائے دینے کے قائل ہیں، جب کہ سیما آندھرا قائدین کا احساس ہے کہ تقسیم کو قبو ل کر نا مشکل امر ہے۔ چیف منسٹر این کرن کمار ریڈی ،صدر پریش کانگریس پوتسا ستیہ نارائنا توقع ہے کہ تلنگانہ کے کانگریس فائدین اور ساحلی آندھرا کے قائد ین سے اس مسئلہ پر تبادلہ خیال کریں گے ، جب کہ تلگو دیشم پارٹی توقع ہے کہ اپنے قائدین سے اس موضوع پر بات کرے گی ۔ورایں اثناء وائی ایس آرکانگریس پارٹی نے آج مرکزی وزارت داخلہ کو مکتوب روانہ کرتے ہوئے ریاست کی تقسیم کی مخالفت کی ہے۔ ٹی آر ایس نے ، جو علیحدہ تلنگانہ کے لیے جدوجہد کررہی ہے ، تشکیل تلنگانہ پر مختلف مطالبات کیے ہیں۔ تلنگانہ قائدین نے مطالبہ کیا ہے کہ حیدر آباد تلنگانہ میں شامل رہناچاہیے ۔ٹی آر ایس نے کہا کہ تقسیم کے اندرون دو سال دوسری ریاست کے لیے علیحدہ دار الحکومت قائم کیا جاناچاہیے۔ انہوں نے کہا کہ نئے دارلحکومت کے محل ووقوع کا فیصلہ بہت جلد کیا جانا چاہیے۔ سکریٹریٹ اور دیگر دفاتر کے علاوہ لیجسلیچرکو جلد دوسری جگہ منتقل کیا جائے۔ ٹی آر ایس نے مطالبہ کیا کہ سنگارینی کا لر یز جو مرکزی ریاستی حکومت کی مشترکہ کمپنی ہے کو تلنگانہ حکومت کے راست کنٹرول میں دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ آندھراپردیش کی تقسیم سے قبل تلنگانہ کے منقولہ تمام اثا ثے جات تلنگانہ کے ساتھ رہیں۔ انہیں مشترکہ اثاثہ جات متصور کرتے ہوئے تقسیم نہ کیا جائے ۔ وائی ایس آرکانگریس پارٹی کے قائدین نے کہا کہ صدر پارٹی وائی ایس جگن موہن ریڈی نے ریاست کی تقسیم کے مسئلہ پر ریاست کی سیاسی جماعتوں سے تجاویز کی طلبی کیلئے مرکزی وزرات داخلہ کے مکتوب کا جگن موہن ریڈی نے اپنے مکتوب میں واضح کیا کہ ان کی پارٹی متحدہ ریاست کے عہد کی پابند ہے اور اس کی تقسیم کے کسی بھی اقدام کی مخالفت کرے گی۔ مرکزی وزارت داخلہ کے جوائنٹ سکریٹری ایس سریش کمار کے نام مکتوب میں جگن نے کہا کہ مرکزی کا بینہ کے3اکتوبر کے اجلاس میں ریاست کی تقسیم سے متعلق کیا گیا فیصلہ ان کی پارٹی کیلئے قابل قبول نہیں ہیں۔ اس مرحلہ پر جگن نے مرکز سے پھر مطالبہ کیا کہ جمہوریت کے وسیع تر مفاد میں ریاست کی تقسیم سے متعلق کا بینہ کے فیصلہ سے دستبرادری اختیار کی جائے ۔ قبل ازیں پارٹی کے قائدین میسور اریڈی اور کے رام کرشنانے آج دفتر وائی ایس آر سی پی پر منعقد کردہ پریس کانفرنس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وائی ایس آر کانگریس پارٹی نے ہمیشہ ریاست کی تقسیم کی مخالفت کی ہے ۔ اس موقع پر انہوں نے مرکزی حکومت کو روانہ کردہ مکتوب کی ایک نقل ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو دکھایا ۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کے 75فیصد عوام کو ریاست کو 2حصوں میں تقسیم کرنے کے مخالف ہیں ۔ ایک ماہ قبل کانگریس کے مرکزی وزراء نے ریاست کو تقسیم نہ کرنے کا مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا تھا ۔ ا نہوں نے کہا کہ سیما آندھرا کے عوام گذشتہ 3ماہ سے متحدہ آندھرا کی حمایت میں احتجاجی مظاہرے کررہے ہیں۔ مرکزی حکومت نے اب تک اس احتجاجی مظاہرے کو ختم کرنے کے لیے سیما آندھراکے عوام سے کوئی درخواست نہیں کی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت نے علیحدہ تلنگانہ کا مسئلہ حل کرنے کے لیے مرکزی وزراء کے گروپ کو نامزد کیا ہے ۔ اسی گروپ کی وائی ایس آرسی پی مخالفت کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ صدروائی ایس آر سی پی وائی ایس جگن موہن ریڈی نے مکتوب میں مرکزی حکومت سے ریاست کی تقسیم کرنے سے متعلق کیے گئے فیصلے سے دستبرداری اختیار کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

Congress and Telugu Desam in dilemma over AP bifurcation

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں