اردو زبان اور عصر جدید کے چیلنج - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-10-14

اردو زبان اور عصر جدید کے چیلنج

urdu language
بہت خوبصورت،غمگین لمحوں کو خوشنما بنا نے والی اور کانوں میں حقیقی رس گھولنے والی اردوزبان مختلف مسایل ،جد و جہد اور مشکلات کا سامنا کر تی ہو ئی 21 ویں صدی تک پہنچی ہے ۔ 21 ویں صدی چو نکہ عا لمی یگانگت کی صدی ہے ، آج ساری دنیا ایک گاﺅں بن گئی ہے ۔ سات سمندر پار کی دھمک بر ق رفتاری سے یہاں پہنچ جاتی ہے اور یہاں کے ہلچل وہاں گونجتی ہے۔ سائنس اور ترقیات کی اس صدی میں سب کچھ ہورہا ہے مگر اردو زبان کو متعدد اور عظیم چیلنج درپیش ہیں جن میں سے کچھ تو معاصر دنیا کی دین ہیں اور اکثر وہ ہیں جو اپنوں کی کارستانی کے سبب پیدا ہو گئے۔ ان کی وجہ سے پل پل اس کی جان پر بن آتی ہے اورلمحہ لمحہ اسے کسی انہونی کا خدشہ رہتا ہے ۔ ذیل میں ایسے کچھ چیلنجوں کا ذکر کیا جاتا ہے جن سے اردو متزلزل رہتی ہے ۔

1) لسانی چیلنج

اردو زبا ن کو سب سے پہلے لسانی چیلنج کا سامنا ہے ۔ ہندی والوں کا ایک بڑا طبقہ، طلبا ،اساتذہ ،ہندی اخبارات،جرائد،نیوز چینلس ،بلکہ مکمل میڈیا بے تکلف اورشان سے اردو کے جملے ،فقر ے اور استعارے ' محاورےروز مرہ کی زبان میں استعمال کرتا ہے ۔ فلموں کے گانے اور نغمے اردو کے ہی مرہون منت ہیں جنھیں بڑے شوق سے گایا جاتا ہے مگر اسے اردو نہ کہہ کر ’ہندی ، کہا جاتا ہے ۔

2) رسم الخط کا چیلنج

وقفے وقفے حکومت ،انتظامیہ یا کچھ "بڑے" لوگوں کی جانب سے بڑی شدو مد سے یہ آواز اٹھائی جاتی ہے کہ اردو کا رسم الخط تبدیل کر دیا جائے ۔ جب کبھی ایسا مطالبہ کیا جاتا ہے اردو کے تن نازک میں زلزلے پیدا ہوجاتے ہیں ۔اس لیے نہیں کہ اس کا وجود مٹ جائے گا بلکہ اس لیے کہ اس جڑی جو تہذیبی روایات اور اقدار ہیں ،اسی طرح لاکھوں کروڑوں مداحوں کے جذبات بے موت مارے جائیں گے ۔ ایک عظیم تہذیب کا خاتمہ ہو جائے گا جسے یہ صدیوں سے دلوں سے لگائے آرہے ہیں۔

3) تلفظ کا چیلنج

اردو پڑھنے والے جاننے والے اور سمجھنے والوں کی اکثریت رو میں الفاظ اور جملوں کا غلط استعمال کر ڈالتی ہے۔ یہاں تک کہ اردو کے بڑے بڑے اسکالر ز اور پرو فیسران اس مرض میں مبتلا ہیں ۔ طلبا اورعوام اس طرز کو سنتے ہیں اور اس قول پروفیسر ،دانشور و اسکالر کو دلیل بنا کر ہر جگہ بولتے ہیں ۔ حالانکہ اس سے نقصان ہوتا ہے اور اردو کی اصل روح مٹ جاتی ہے ۔ یہ ایک ایسا چیلنج ہے جس سے اردو کو بہت نقصان ہوا ہے ۔ یہ غیرو ں کی جانب سے نہیں اپنوں کی جانب سے ہے ۔ درد برھتا جارہا ہے مگر اس کاعلاج و مداوا ابھی تک دریافت نہیں ہو سکا ہے۔

4) اردو میں تحقیقی ،طبع زاداور بنیادی کا م کافقدان

روزنامہ راشٹرےہ سہارا کی3ستمبر 2013 کی اشاعت میں ایک حیرت انگیز خبر شائع ہو ئی جس کی سرخی تھی ”اردومیں بیشتر تھیسس بغیرپڑھے ہی پاس کر دیے جاتے ہیں " پھر اس کے ضمن میں متعدد اردو دانوں کے خیالات ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ آج اساتذہ کے پاس اتنا وقت بٌھی نہیں ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کی کارکر دگیو ں کا بغور جائزہ لے سکیں بس ان کے مفوضہ کام مکمل دیکھ کر ان کی بنیاد پر پی ایچ ڈی اور ایم فل کی ڈگریاں دیدی جاتی ہیں ۔ اگر کبھی دیکھنے کا وقت بھی ملتا ہے تو غیر معیار کاموں کو ہی پاس کر دیا جاتا ہے۔ اسی ضمن میں ایک بات یہ بھی کہی گئی کہ آج اردو زبان میں تحقیقی اور طبع زاد کاموں کا بڑی تیزی سے فقدان ہوتا جارہا ہے اس کے بجائے تراجم سے کام لیا جارہا ہے جو اردو کے لیےے غیر مناسب علامت ہے۔"

یہ خیالات دانشوروں نے ایک تقریب میں کیے تھےبلکہ قصئہ درد سنایا تھا - آج کی صورت حال مذکورہ خیالات سے جدا نہیں ہے۔ آج بیشتر مقالے اور امور بس تکمیل کی بنیاد پر پاس کردیےجاتے ہیں ۔ یہ اردو کے وجود کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے ۔ اگر اس کا مدوا بر وقت نہیں ہو سکا تو بعید نہیں کہ ایوان اردو میں الّو بولنے لگیں۔

5) تراجم اور زبانوں کی منتقلی

چمنستان اردومیں یہ امور خزاں بر پا کر نے کے مترادف ہیں کہ اپنے ذہن و ماغ سے متن لکھنے کے بجائے تراجم سے کام چلایا جاتا ہے۔چنانچہ اردو صحافیوں کی ایک بڑی تعداد معاصر انگریزی اخبارات اور ویب سائٹوں سے ترجمہ کر کے مضامین لکھتی ہے ۔ ان کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ حالات کی برہم زلفوں کا خود جائزہ لیں اوران پر’ اپنی ذاتی ،رائے پیش کریں۔ یہی وجہ ہے کہ آج حالات حاضرہ پر ہزارو ں مضامین لکھے جاتے ہیں،سینکڑوں اداریے،نظرات ،احوال ،پیش گفتار لکھی جاتی ہیں مگر حالات سدھرنے کے بجائے مزید خراب ہوجاتے ہیں ۔

ایک دو ر وہ بھی تھا ،اردو کا زرین عہد،جب حقیقی اور ذہن و دماغ سے اردو رشحات قلم بن کر صفحات کو معطر کر تی تھی ۔ اس کی خوشبوﺅں سے نہ صرف ماحول درست ہوتے بلکہ آتشیں فضا میں برف کی بارشیںہو جاتی تھیں اور کشیدہ ماحول جذبہ ہمدردی اور انسانیت سے بھر جاتے تھے ۔لیکن آج یہ سب باتیں ،یہ سب خیالات ماضی کے قصے ہو گئے ۔

6) جدیدیت

اردو کے لیے ایک بڑا چیلنج جدیدیت ہے۔ نہ جانے کیوں اردو والے اس احساس کمتری کے شکار ہو گئے ہیں کہ جب تک ہم ارد و اور انگریزی بولنے چالنے اور لکھنے پڑھنے میں یگانگت نہیں کر یں گے قدامت پسند کہلائیں گے ۔چنانچہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے یوم پیدا ئش کو ”حسین ڈے “کے عنوا ن سے منایا جاتا ہے ۔ اسی نام سے اخبارات و مجلوں میں اشتہارات و پیغامات دیے جاتے ہیں ۔جبکہ ہندی والے کسی طرح ہندی کا دامن نہیں چھوڑتے اور راجیو گاندھی کے یوم وفات کو ”بلیدان دیوس“کے نام سے مناتے ہیں۔ یہ دو نمونے آپ کی خدمت میں پیش ہیں ایسے بہت سے نمونے آپ کو ملیں گے ۔ ایک طرف ہندی والے ہیں جو کسی صورت ہندی کے ساتھ دوسری زبانوں کا امتزاج بر داشت نہیں کر تے اور ایک ہم اردو والے جو انگریزی سے دل و جان کا رشتہ رکھتے ہیں ۔ یادرکھیے!یہ سوچ اور طریقہ اردو کے لیےسم قاتل ہے ۔ اسی کے ساتھ اردو والوں کو خدشہ ہو رہا ہے کہ معاصر دنیا اسے اردو کے قالب و لباس اور تہذیب مےں برداشت نہیں کر ے گی ۔’ اردو والا، کہلاناآج گالی بنتا جارہا ہے لہذا اردو کو اپنے گھروں سے نکال دواور اپنے بچوں کو اس کے سائے سے بھی دور رکھو۔ یہ رجحان تیزی سے بڑھتا جارہا ہے اور اردو کے بلند و بالا محلات مٹی میں مل رہے ہیں ۔

7) ادب اور فن کے معیار میں زوال

چھوٹے اداروں کا تو ذکر کیا آج بڑی بڑی دانش گاہوں کی فارغین نئی نسل کا حال یہ ہے کہ نہ اسے ادب سے صحیح معنوں میں واقفیت ہوتی ہے اور نہ ہی وہ فن جانتی ہے ۔یہ تو بہت بڑی باتیں ہیں ،وہ اپنے جذبات تک کا اظہار ادبی انداز میں نہیں کر سکتی ۔ کہانیاں افسانے ،ناول اور نظم و غزل تو دور کی بات ۔چھوٹے چھوٹے جملوں کی ساخت اس کے لیے مشکل ہوجاتی ہے۔ ہاں دوسرو ں کی غزلیں ،نظمیں ،اشعار اور مغلظات انھیں ازبر ہوتی ہیں ۔یی وجہ ہے کہ آج عوماً 18 سال۔ 19سال22سال اور30سال کے قلم کار نظر نہیں آتے ’جو بھی ہیں یا تو وہ خاندانی ہیں یا پھر عمر رسیدہ ۔ یہ صورت حال بھی اردو کی زبوں حالی کی علامت ہے ۔

8) اردو۔ انگریزی

اسی سے ملتی جلتی ایک پریشانی یہ ہے کہ جن اداروں کو اردو کا منبع ،مرکز اور گھر کہلانے کا شرف حاصل ہے ۔ یو نیو رسٹیوں ،جامعات کے اردو شعبوں میں تمام امور اردو کے بجائے انگلش مےں کیے جاتے ہیں ۔ بہانہ یہ کیا جاتا ہے کہ ملازمین اردو سمجھ نہیں سکتے اس لیے مجبوراً ایسا کیا جاتا ہے ۔یہ کوئی مجبوری نہےں ہے ۔ بس بات ہے ۔ ارود شعبوں کے سربراہوں اور ذمے داروں کو اس بات کا احساس نہیں ہے کہ یہ باتیں چھوٹی چھوٹی ضرور ہیں مگران کے اثرات بہت شدید اور مہلک ہوتے ہیں ۔

9) سوشل میڈیا کا چیلنج

فی زمانہ انٹرنیٹ معلومات کے حصول میں اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن یہاں بھی اردو زبان میں سائنسی و تحقیقی مواد نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس ضمن میں سرکاری اداروں پر کڑی ذمے داری عاید ہوتی ہے۔ ہمارے ملک کو آزاد ہوئے 63 سال کا عرصہ بیت گیا ہے لیکن عجیب بات ہے کہ ہم آج تک اردو زبان میں مستند ترجمے کی سہولت فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔ ترجمے کی سہولت اگر میسر آجائے تو کم از کم انٹرنیٹ پر موجود معلومات کے بیش بہا خزانے سے کسی طور تو بہرہ مند ہوا جاسکتا ہے۔

انٹرنیٹ اور اس کی ذیلی سوشل سائٹس پر ایسا نہیں ہے کہ اردو نہیں ہے یا شائقین اردو ، اردو میں کام نہیں کرتے مگر اصل دکھ اس بات کا ہے کہ مذکورہ سائٹس نے اسے بطور زبان اپنے پیکیج میں شامل نہیں کیاہے ۔چنانچہ آپ کو انٹرنیٹ پر زبان کے خانوں میں تمل اور تیلگو جیسی محدود علاقائی زبانیں مل جائیں گی مگراردو ندارد ہے۔ اگروقت حاضر میں اردو کو انٹرنیٹ سے متعارف نہیں کر ایا گیا اور زبانوں کے زمرے میں اسے مقام نہ دلایا گیا تو اردوکا خاتمہ یقینی ہے۔ انٹرنیٹ جس نے ساری دنیا کو جوڑ رکھا ہے اس اہم ترین سائٹ پر اردو زبان کے فروغ کےلیےکی گئی کوششیں آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انٹرنیٹ پر اردو کے فروغ کی اہمیت کو سمجھا جائے۔ اگر ہم ملک میں علمی و تحقیقی انقلاب لانا چاہتے ہیں تو انٹرنیٹ پر اردو زبان میں معلومات کو عام کرنے کو منصوبے کے بجائے مقصد بنا کر اس پر عمل کرنا ہوگا-

***
imranakifkhan[@]gmail.com
موبائل : 9911657591
85 ، ڈیگ گیٹ گلپاڑہ، بھرت پور (راجستھان)۔
عمران عاکف خان

Urdu language and the challenges of modern age. Article: Imran Akif Khan

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں