برصغیر میں ہندو مسلم دراڑ کے لیے کون ذمہ دار - گاندھی یا جناح ؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-10-13

برصغیر میں ہندو مسلم دراڑ کے لیے کون ذمہ دار - گاندھی یا جناح ؟

Gandhi and Jinnah
ان دنوں میں ایک کتاب پڑھ رہا ہوں ، جس کا عنوان ہے :
Jinnah - A corrective reading of Indian History
اور اس کتاب کے مصنف ہیں : ایشیانندا [Asiananda]۔ یہ کتاب صرف ایک کتاب نہیں بلکہ جدید ہندوستان کی تاریخ سازی میں ایک بت شکن تصنیف ہے کیونکہ جدید ہندوستان کی تاریخ اور بالخصوص ہندوستانی آزادی اور ملک کے بْٹوارے کی تاریخ اس بنیادی تصور پر منحصر ہے کہ گاندھی جی "مہاتما" تھے جبکہ محمد علی جناح ایک "ویلن" تھے جنہوں نے ہندوستان کا بٹوارا کروا کر ہندوستان کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا تھا۔
حیرت ناک بات یہ ہے کہ میں نے جس کتاب کا ذکر کیا وہ کتاب اس تصور کے بالکل برعکس ہے۔ اس سے بھی زیادہ حیرت ناک بات یہ ہے کہ یہ کتاب بہت حد تک جناح کے بجائے گاندھی جی کو بٹوارے کی ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔ لیکن کیوں اور کیسے؟
اس کے لیے اس کتاب کا نچوڑ پیش کرنا ضروری ہے جو کم و بیش یوں ہے :

مصنف کی رائے میں 1920 میں جبکہ جنگ آزادی پر گاندھی جی کی گرفت مضبوط ہو گئی تب تک ملک میں انگریزوں کے خلاف چلنے والی تحریک کے بنیادی ستون محمد علی جناح تھے۔ اس کا ثبوت مصنف نے کانگریس اور مسلم لیگ کا 1916 کا کانگریس - لیگ لکھنؤ مہاول پیش کیا ہے۔ لیکن 1920 کے بعد گاندھی جی نے خلافت تحریک اور Non-Cooperation تحریک چلا کر ہندو-مسلم اتحاد میں ایک کھائی پیدا کر دی۔ خلافت تحریک سے مسلمان جناح سے ہٹ کر کانگریس کے قریب ہو گئے تھے لیکن چوری چورا واقعہ کے بعد گاندھی جی نے خلافت تحریک اور نان-کوآپریشن تحریک کو یکایک ختم کر کے مسلمانوں کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔ اس طرح مصنف کے بقول گاندھی جی اور جناح کے درمیان نااتفاقی کی شروعات ہوئی جو بڑھتے بڑھتے 1947 میں بٹوارے کی شکل میں اختتام کو پہنچی۔
مصنف کا خیال ہے کہ گاندھی جی اور جناح کے درمیان ذاتی اختلافات نہیں تھے بلکہ یہ ایک نظریاتی خلیج تھی۔ مصنف کتاب کی رائے میں جب جنگ آزادی نے زور پکڑا تو ہندو مسلم دونوں حلقوں میں یہ سوال پیدا ہوا کہ آزادی کے بعد اقتدار کس کے ہاتھوں میں منتقل ہونا چاہیے؟ مسلم مفکرین کا خیال تھا کہ آزادی سے قبل ملک پر مسلم حکمرانی تھی اس لیے اقتدار مسلمانوں کو ملنا چاہیے یا پھر اقتدار میں ان کی حصہ داری ہونی چاہیے۔
مصنف کے بقول محمد علی جناح اس نظریہ کے حامی تھے۔ جبکہ دوسری جانب ہندوؤں کا ایک گروہ مانتا تھا کہ مسلمان انگریزوں کی طرح اس ملک میں باہر سے آئے تھے اور یہ ملک ہندوؤں کا ملک ہے اس لیے آزادی کے بعد اقتدار پر محض ہندوؤں کا حق ہے۔ بقول مصنف گاندھی جی نے کھل کر یہ بات تو نہیں کہی لیکن بقول مصنف :
"گاندھی اولاً ہندو ، دوم ہندو اور سوم ہندو" تھے اور یہی ان کی سیاست تھی۔ اس لیے بقول مصنف آزادی کے بعد اس ملک کے اقتدار میں مسلمانوں کا کوئی حصہ ہو یا نہ ہو یہ بات آخر تک گاندھی جی نے طے ہونے نہیں دی۔ نتیجتاً آخرکار جناح نے بٹوارے کی مانگ پیش کر دی جس نے آخرکار پاکستان کی شکل لے لی اور اس طرح ملک کیا اس پورے برصغیر میں ہندو مسلم کھائی پیدا ہو گئی جو آج تک برقرار ہے اور مصنف اس "دراڑ" کے لیے جناح کو کم اور گاندھی جی کو زیادہ ذمہ دار قرار دیتا ہے۔

ظاہر ہے کہ اس ملک میں بٹوارے کا جو تصور ہے یہ کتاب اس تصور کے بالکل برعکس ہےلیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ جناح نے جو سوال اٹھایا تھا وہ یہی تھا کہ تقریباً 800 برس تک اس ملک پر حکومت کرنے والی مسلم قوم کا آزادی کے بعد اس ملک کے اقتدار پر کوئی حق یا حصہ ہوگا یا نہیں؟ گاندھی جی نے اس مسئلہ پر کبھی خاطر خواہ کوئی بحث ہونے ہی نہیں دی بلکہ بہت خوبصورتی سے "سوراج" اور "رام راجیہ" جیسے نعرے کھڑے کر کے یہ اشارہ دے دیا کہ آزادی کے بعد اس ملک کے اقتدار پر محض ہندوؤں کا حق ہوگا۔ دراصل اس نظریہ کے بانی گاندھی جی نہیں تھے۔ 1857 کے غدر کے بعد اور ملک پر پوری طرح انگریزوں کے قبضے کے بعد جلد ہی بنگال میں یہ نظریہ گھر کر گیا تھا جس کی عکاسی کھل کر بنکم چندر چٹوپادھیائے کے ناول "آنند مٹھ" میں ملتی ہے۔ بعد میں یہی نظریہ ہندو مہا سبھا کی شکل میں سیاسی سطح پر ظاہر ہوا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ آزادی سے قبل ہندو مہا سبھا پر کانگریس کا گہرا اثر تھا۔ غالباً اسی خیال کی غمازی گاندھی جی کے رام راجیہ نظریہ میں ابھر کر سامنے آئی ہے۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ گاندھی جی نے کبھی کھل کر یہ بات نہیں کہی کہ اس ملک پر مسلمانوں کا کوئی حق نہیں ہے۔ لیکن عملی طور پر گاندھی جی نے آزاد ہندوستان کا جو خاکہ پیش کیا وہ تہذیبی اعتبار سے ہندو تہذیب پر مبنی خاکہ تھا۔ یہی سبب ہے کہ اس وقت مسلمانوں کے ایک بڑے حلقے میں یہ سوال اٹھ کھڑا ہوا کہ آیا آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کا کوئی حق یا حصہ ہوگا یا نہیں؟
اس سوال کو ہمیشہ جمہوریت کے نام پر رد کر دیا گیا۔
جبکہ یہی سوال جب امبڈیکر نے دلتوں کے تعلق سے اٹھایا تو پھر گاندھی جی اور کانگریس نے ہر جگہ دلتوں کو 25 فیصد ریزرویشن دے کر امبیڈیکر کی مانگ منظور کر لی جبکہ مسلمانوں کی مانگ کو "فرقہ پرستی" کہہ کر مسترد کر دیا گیا۔ جس کتاب کا یہاں ذکر ہو رہا ہے ، اس کتاب کے مصنف کے بقول اس کا نتیجہ ملک کے بٹوارے کی شکل میں ہوا۔

الغرض گاندھی جی تہذیبی سطح پر جس ہندو ملک کے خواہاں تھے وہ ہندوستان اب پوری طرح شرمندہ تعبیر ہو چکا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں کہ آج کا ہندوستان تہذیبی اعتبار سے اب بنیادی طور پر ایک ہندو ملک ہے بلکہ اب نریندر مودی کی قیادت میں 2014 میں اس ہندوستان کو باقاعدہ ایک ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کی سازش رچی جا چکی ہے۔
آنند مٹھ سے نریندر مودی تک ایک نظریاتی سلسلہ ہے جو 1857 کے بعد سے آج تک جاری و ساری ہے اور جس کا بنیادی خیال یہ ہے کہ یہ ملک محض ہندوؤں کا ملک ہے اور اس میں مسلمانوں کا کوئی حصہ نہیں ہے بلکہ بقول آر۔ایس۔ایس : مسلمان اس ملک میں محض دوسرے درجے کے شہری بن کر ہی رہ سکتے ہیں۔
2014 کا لوک سبھا چناؤ اس نظریاتی سوال کو حتمی طور پر طے کر سکتا ہے لیکن اس ملک کی ایک خوبی یہ ہے کہ یہاں جمہوریت ہے اس لیے وہ تمام طاقتیں جو ہندوستان کو ایک ملی جلی گنگا جمنی تہذیب کا مرکز مانتی ہیں ان کو چاہیے کہ اس ْخیال کی ووٹ کے ذریعے نہ صرف مخالفت کریں بلکہ اس خیال کو شکست فاش سے دوچار کریں۔

قاری اس کتاب کو اگر پڑھنا چاہتے ہیں تو اس ایمیل پر رابطہ کر سکتے ہیں :
jnpind[@]rediffmail.com


ظفر آغا

Who is responsible for Hindu-Muslim divide in the subcontinent - Gandhi or Jinnah? Article: Zafar Agha

2 تبصرے:

  1. جناب مکرم!!!
    سارے ہی ہندو قائدین کی دور اندیشی تھی کہ عام ہندو اور مسلمان کے درمیان منافرت ہو- وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ ہندو مسلم اختلاط کے نتیجہ مین اسلام کا ہندوستان مین پھیلنا ظاہر ہے جو زات پات کا نظام ہے ہندووں مین اور جو تفریق انسانی ہے وہ ایک نفرت کی دیوار کے بغیر نہین چل سکتی تھی ہندوستان کے ہندوون کو آپس مین متحد رکھنے کیلئے ان اک ایک مستقل دشمن چاہئے تھا اور یہی اج تک ہندوستان کی حفاظت کر رہا ہے ورنہ پاکستان کی طرح ہندوستان مین بھی ٹوٹ پھؤٹ ہو چکی ہوتی

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. حضور! آپ کا قول بلین ڈالر کا قول ہے۔ ایک سو ایک فیصد اتفاق ہے مجھے بھی اس قول سے۔
      بہت شکریہ۔

      حذف کریں