اساتذہ پر قوم کا مستقبل سنوارنے کی اہم ذمہ داری - اردو یونیورسٹی میں یوم اساتذہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-09-06

اساتذہ پر قوم کا مستقبل سنوارنے کی اہم ذمہ داری - اردو یونیورسٹی میں یوم اساتذہ

manuu teachers day
مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی کا قیام جس مقصد کے حصول کیلئے عمل میں آیا ہے اُس پر یہ جامعہ رواں دواں ہے۔اِس میں یونیورسٹی سے وابستہ مخلص انتظامیہ اور اساتذہ کا رول بھی قابل تحسین ہے۔ جناب نوید مسعود ( آئی اے ایس) سکریٹری‘ وزرات برائے کارپوریٹ امور‘ حکومت ہند نے آج اُردو یونیورسٹی میں یوم اساتذہ لکچر بعنوان ’’اُردو یونیورسٹی : چند تاثرات‘‘ کے دوران ان خیالات کا اظہار کیا۔ پروفیسر محمد میاں‘ وائس چانسلر نے صدارت کی۔ ڈائریکٹر جنرل آف پولیس آندھرا پردیش و نائب صدر نشین و ایم ڈی پولیس ہاؤزنگ کارپوریشن جناب سید انوارلھدیٰ ، پرو وائس چانسلر ڈاکٹر خواجہ محمد شاہداور پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ نے بھی اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔ جناب نوید مسعود نے کہا کہ میں خوش قسمت ہوں کہ میرے والدین بھی پیشہ تدریس سے ہی وابستہ تھے۔ اُردو یونیورسٹی کے قیام کے سلسلے میں اُردو دوست شخصیات کے تعاون اور مرحلوں پر طویل خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جس یونیورسٹی میں آج میں موجود ہوں یہاں جب میں اپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ کیمپس اراضی دیکھنے کیلئے آیا تھا تب سے آج تک سب کچھ بدل گیا ہے۔ (جناب نوید مسعود نے بحیثیت عہدیدار وزارت برائے فروغ انسانی وسائل 1996ء میں یونیورسٹی کے لیے مختص کی جانے والی اراضی کا معائنہ کیا تھا) ۔انہوں نے کہا کہ یوں سمجھئے کہ تب یہاں خالی پہاڑیاں تھیں اور آج خوبصورت عمارتیں ہر سو دکھائی دے رہی ہیں۔ جناب نوید مسعود نے زبانوں کے فروغ پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ 1948 میں دستور ہند کے ذریعہ یہ کہا گیا کہ مقامی زبانوں میں تعلیم دیکر زبانوں کو فروغ دیا جائے مگر وہ اقدام کارآمد ثابت نہ ہوا۔ انہوں نے کہا کہ عثمانیہ یونیورسٹی میں اُردو ذریعہ تعلیم کو ختم کردیئے جانے کے بعد اُردو یونیورسٹی کے قیام کی ضرورت اُجاگر ہوئی۔ 1992میں جناب عزیز قریشی جو آج اتراکھنڈ کے گورنر ہیں‘ نے اُردو یونیورسٹی کے قیام کا مطالبہ کیا۔ قریشی صاحب چاہتے تھے کہ اُردو یونیورسٹی کا قیام بھوپال میں ہو مگر اراضی کی عدم دستیابی کی وجہ سے وہاں اِس کا قیام نہ ہوسکا۔ اس کے بعد یونیورسٹی کا حیدرآباد میں قیام عمل میں آیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے حیدرآباد میں یونیورسٹی کے قیام کیلئے جناب جلیل پاشاہ کی مساعی اورنمائندگی کا تذکرہ کیا۔ یونیورسٹی کا مینڈیٹ اُردو یونیورسٹی کمیٹی کے ممبران جناب امریت سنگھ ‘ جناب سید حامد اور خود انہوں نے تیار کیا۔ انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی کے قیام کیلئے کمیٹی بنائی گئی اور کمیٹی کی سفارشات پر 1996میں پارلیمنٹ کے اجلاس میں بل پاس ہوا۔ انہوں نے کہا کہ یہ فخر کی بات ہے کہ تب ایوان میں تمام ممبران نے یونیورسٹی کے قیام کے حق میں تائید کی اور ایک ہی دن میں نہ صرف بل پاس ہوا بلکہ صدر جمہوریہ کے دستخط کے ساتھ قانون بھی بن گیا۔ انہوں نے کہا کہ خوش قسمتی سے یونیورسٹی کو مخلص وائس چانسلر حضرات بھی ملے جنہوں نے یونیورسٹی کی ترقی کیلئے انتھک محنت کی۔ جناب نوید مسعود نے کچھ تجاویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ حیدرآباد کیمپس کے طرز پر ملک کے دیگر مقامات پر قائم کیمپس اور اداروں میں بھی درس و تدریس کا متوازی انتظام کیا جائے ، زیادہ سے زیادہ پروفیشنل کورسز متعارف کئے جائیں ، زنانہ کالجس قائم کئے جائیں اور جدید ہندوستان کی تاریخ اُردو میں تحقیق کی جائے ۔ ان کی تجاویز میں طبیہ کالج‘ ہومیوپیتھی ‘ ہوم سائنس‘ تقابلی لسانیات کی تعلیم‘ اُردو انسائیکلوپیڈیا کی تیاری اور یونیورسٹی پریس کا قیام شامل تھے۔ انہوں نے بطور خاص یونیورسٹی ایکٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی‘ اُردو تعلیم سے متعلق کسی بھی کام میں اپنا رول ادا کرسکتی ہے ۔ تقریب کے مہمان اعزازی جناب سید انوارلھدیٰ نے اپنے خطاب میں کہا کہ میں جب بھی یونیورسٹی آتا ہوں تو لگتا ہے کہ اپنوں کے ساتھ ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اِس کی اصل وجہ یہی ہے کہ ایک تو اُردو زبان کی محبت اور دوم اپنے جاننے والوں سے ملاقات۔ انہوں نے کہا کہ اساتذہ کی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اصل میں مستقبل کی بنیاد ڈالنے والے استاد ہی ہوتے ہیں۔ جناب انورالھدیٰ نے اخباری رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اب نوجوان بڑے بڑے عہدے چھوڑ کر ٹیچنگ لائن اپنارہے ہیں۔ انہوں نے اپنی اسکولی زندگی کی یادیں دلچسپ انداز میں بیان کیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے والدین، ہمارے حالات اور اردگرد کا ماحول بھی ہمارے اساتذہ ہیں۔ انوارلھدیٰ نے کہا کہ یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ کون سی یونیورسٹی کس معیار کی ہے بلکہ طالب علم اپنی صلاحیتوں کے بنیاد پر اپنی ذہانت کا لوہا منوا سکتا ہے۔ انہوں نے طالب علموں سے مخاطب ہوکر کہا کہ صرف کلاسوں میں شریک رہنا کافی نہیں ہے بلکہ دوسرے ذرائع سے بھی مستفید ہونا چاہیے۔ لائبریریوں میں مطالعہ کرنا‘ آپس میں مباحثوں کا اہتمام اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی سطح کی تعلیم ہی طالب علموں کے کیرئیر بناتی ہے۔ وائس چانسلر پروفیسر محمد میاں نے امید ظاہر کی کہ استاد اور طالب علم کا رشتہ ہر موڑ پر قریبی رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ اساتذہ بے شک اپنے ٹیچر ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ انہوں نے نوید مسعود کے والد صاحب کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے مجھے علی گڑھ میں انگریزی پڑھائی تھی۔ وائس چانسلر صاحب نے کہا کہ یونیورسٹی اپنے مشن پر گامزن ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ترقی کیلئے یہاں کوئی حدیں متعین نہیں کی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی میں چلائے جارہے سائنس اور پرفیشنل کورسز سے ہمیں بہتر نتائج برآمد ہورہے ہیں اور طالب علموں کو اُردو میں مواد کی دستیابی کی طرف کوششیں جاری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب بچوں کی فہم میں بھی تبدیلیاں دیکھی جارہی ہیں اور میرا ماننا ہے کہ ہر پانچ سال کے بعد نصاب میں تبدیلیاں لانی چاہئے۔ وائس چانسلر نے کہا کہ یونیورسٹی کا حیدرآباد کیمپس اِس کا قلب ہے اور جو ملک کے مختلف ریاستوں میں کیمپس ہے وہ اعضا ہیں۔ قلب مضبوط رہے گا تو بدن خود بہ خود تندرست رہے گا۔ انہوں نے یونیورسٹی میں مختلف پروفیشنل کورسس کے ساتھ ساتھ تعلیم دینیات کا مرکز کھولنے کے ارادے کا بھی اظہار کیا۔ انہوں نے معزز مہمانوں کا بھی شکریہ ادا کیا۔ پرو وائس چانسلر ڈاکٹر خواجہ محمد شاہد نے دونوں مہمانوں کا تعارف پیش کیا ۔ تقریب کے اختتام پر یونیورسٹی رجسٹرار پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ نے مہمانوں، اساتذہ ، طالب علموں اور دوسروں کا شکریہ ادا کیا۔ نظامت کے فرائض عابد عبدالواسع انجام دے رہے تھے۔ تقریب کا آغاز حافظ و قاری محمد سبحان شریف کی تلاوت کلام اللہ سے ہوا اور اِس کے بعد شعبہ نظم ونسق سے وابستہ پی ایچ ڈی اسکالر ریاض النساء نے یوم اساتذہ اور سروے پلی رادھا کرشنن کی خدمات پر مختصر روشنی ڈالی۔ اس موقع پر پدم شری مجتبیٰ حسین‘ جناب ضیاء الدین احمد شکیب ‘ پروفیسر عبدالستار دلوی اور دیگر معززین شہر موجود تھے۔

عابد عبدالواسع ۔ اسسٹنٹ پبلک ریلیشنز آفیسر

Teachers day celebration at MANUU

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں