نفسیاتی خوف کی سیاست اور ہندوستان کا مستقبل - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-09-22

نفسیاتی خوف کی سیاست اور ہندوستان کا مستقبل

Politics of Psychological fear
ہندستان میں صاف ستھری اورتعمیری سیاست پر نفسیاتی خوف کی تخریبی سیاست حاوی ہوتی جارہی ہے جو جمہوریت کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ملک کی سیاسی پارٹیاں تعمیروترقی اورملک کے مفادات کوسیاسی ایجنڈہ بنانے کی بجائے فرقہ پرستی کوہوادے کر اقتدارتک پہنچے کا راستہ ہموارکرنے میںلگی ہوئی ہیں،ملکی مفادات کا تحفظ ،آئین کی پاسداری اور عوام کی فلاح وبہبودکے نعرےمحض نمائشی بورڈ بن کررہ گئے ہیں اورسیاست کی چکی کے دوپاٹوں میں ملک کی سب سے بڑی اقلیت پس رہی ہے۔

ہندستان میں خوف کی سیاست کا آغاز تقسیم کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھاجب سرحد کے دونوںطرف انسان اورانسانیت کی لاشوںسے سرحدکی دیواریں مضبوط کی جارہی تھیں لیکن جن سنگھ(موجودہ نام بی جے پی ) کے وجودمیں آنے کے بعد اس میں شدت آتی گئی اورشہادت بابری مسجد کے بعد اس میں حیرت انگیز طورپر پختگی آگئی اوراب پورے طورپر یہاں کی پارٹیاں رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموارکرنے کیلئے عوام کو خوف میں مبتلاکرنے کی پالیسی پر منحصرہوگئیں۔ملک کے سیاسی منظرنامے پرنگاہ ڈالئے کہ جب جب انتخابات کا موسم آیاہے فرقہ وارانہ فسادات کے نام پر مسلمانوںسے جان ومال کی قربانی لی گئی ہے اورایک بارپھر عام انتخابات کے پیش نظرمسلمانوںکو خوف کی نفسیات میں مبتلاکرکے ان کا ووٹ لینے کیلئے اسے دوہرانے کاعمل شروع ہوگیا ہے۔ یوپی میں سوسے زائد فسادات اوربہارکے ایک درجن فرقہ وارانہ واقعات کو مثال کے طورپر پیش کیے جاسکتے ہیں۔

ملک میں ہونے والےپیہم فرقہ وارانہ فسادات نے مسلمانوںکو فطری طورپرعدم تحفظ کے احساس میں مبتلا کردیا ، جان ومال اورعزت وآبروکی حفاظت اس کی سب سے پہلی ترجیح بن گئی پھرسیاسی پارٹیوں کا نظریہ بھی اپنی اصل سے بہت دورہٹ کر دوحصوںمیں منقسم ہوگیا گوکہ اقتدارکے حصول کیلئے مسلمانوںکو محض ووٹ بینک تک محدود رکھنے پرسبھی سیاسی پارٹیاں متفق رہیں۔ایک نے مسلمانوںکی جان ومال لوٹ کر سیاسی استحصال کیا تودوسرے نے شیرآجائے گاکا خوف دکھاکر انہیں سیاسی خودکشی کا سامان فراہم کیااسے بالفاظ دیگرخوف کی نفسیات میں مبتلاکرنے کی سیاست کہتے ہیں ۔آج پھر وہ وقت آن پڑا ہے ،ایک طرف بی جے پی نے ہزاروںمسلمانوںکے قاتل نریندرمودی کو وزیراعظم کے عہدہ کا امیدواربنایا ہے تودوسری جانب سیکولرازم کا لیبل لگانے والی سیاسی پارٹیاں ایک بارپھر مسلمانوںکو مودی کا خوف دکھاکر ان کا سیاسی استحصال کرنے کے فراق میںہیں۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہرگز نہیںکہ مسلمانوں بی جے پی کی حمات کرے بلکہ میں یہ کہنا چاہتا ہوںکہ خوداحتسابی کے بعدفیصلہ کریں خودفریبی سے کب تک کام لیتے رہیںگے ۔کسی بھی پارٹی کی حمایت کریںان کے سامنے اپنی پوزیشن اخیراخیرتک مستحکم رکھیں ۔ اس کیلئے مسلمانوںکو دوراندیشانہ فیصلہ لینے کےساتھ ساتھ مضبوط قوت ارادی کی ضرورت ہے۔اس لئے مسئلہ صرف آپ کے اپنے وجود اوراپنے سیاسی مستقبل ہی کا نہیں ،ملک وقوم کے مستقبل کا بھی ہے کہ اس کی سمت ورفتارکیاہوگی۔

یہ صحیح ہے کہ تقسیم ہندکے بعدسیاسی استحصال نے مسلمانوںکی دفاعی قوت کو کمزورکردیا اورصالح قیادت کے فقدان نے انہیں احساس کمتری کا شکاربنادیاجس کی وجہ سے مسلمانوںکی اقتصادی پوزیشن بھی غیر مستحکم ہوکر رہ گئی نتیجتاً مسلمان خوف کی نفسیات میں مبتلا ہوتے گئے۔سیاسی پارٹیوںنے مسلمانوںکی سب سے بڑی کمزوری کے طورپر اسے اپنا ہتھیاربنالیا۔ابراہم لنکن نے کہاتھاکہ آپ سبھوںکوبے وقو ف نہیں بناسکتے یا پھرہمیشہ کیلئے سبھوںکو بے قوف نہیں بناسکتے لیکن ہندستانی مسلمان اوریہاںکی سیاسی پارٹیاں اسے غلط ثابت کرنے پرتلے ہوئے ہیں ۔مسلمانوں کو65/سالوںسے یہاں بے وقوف بنارہی ہیں۔مسلمانوںکے پاس نہ توکوئی اپنا ایجنڈہ ہے اورنہیں کوئی پالیسی بس گھنے جنگل میں بکریوںکی طرح میں ادھر ادھر بھٹک رہی ہے جس کا لازمی نتیجہہے کہ ہرپارٹی آسانی کے ساتھ اس کا سیاسی استعمال کرلے رہی ہے۔ دنیا کوقیادت وحکمرانی کا درس دینے والی اس قوم یہ حالت یوںنہیں ہوگئی بلکہ فرقہ پرست طاقتوںکے علاوہ قائد کی شکل میں کے اعتمادکا سوداکرنے والے میرجعفرجیسے ضمیرفروش کی کرمائی بھی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کب تک قوم مسلم اپنے بھولے پن کی بدولت سیاسی بازیگروںکے ہاتھوں کا کھیلونا بنتی رہے گی؟

اس سے انکارنہیں کیاجاسکتاکہ فرقہ وارانہ فسادات کے نام پر مسلمانوں کو بے دست وپاکرنے کی سیاست نے ان کا سب کچھ چھین لیا ہے لیکن ایک بہادرقوم ہونے کے ناطےقوت فیصلہ اوردوراندیشی کا سرمایہ توان کے پاس ہے ہی ،ووٹ کی شکل میں مسلمانوںکے پاس سب سے بڑا اورمضبوط ہتھیارہے جس کا مثبت اورمؤثراستعمال کرکے ہوا کے رخ کو اپنے موافق کیاجاسکتا ہے ہاں ہوسکتا ہے کہ اس کے فوری نتائج حوصلہ افزا نہ ہوں لیکن یہ مسلمانوںکے سیاسی استحکام کیلئے سنگ میل ضرورثابت ہوگا۔اس کے لئے مضبوط حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔

یہ کتنی افسوسناک بات ہے کہ آج اس قوم کے پاس کوئی قائد نہیں جس کے یہاں قائد کی مذہبی اہمیت مسلم ہے ۔ بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جب تم تین آدمی کہیں جاؤ تو ان میں کسی کو اپنا قائد بنالو،آج انہیں کی امت قیادت سے محروم ہے۔آج کل مسلم قیادت کےنام پرکچھ صاحبان جبہ ودستار جوکچھ کررہے ہیں اسے غیر مہذب زبان میں دلالی کہاجاتا ہے اوریہی ان کی حقیقت بھی ہے۔ جب تک ذاتی مفادات سے اوپر اٹھ کرقوم کیلئے کچھ کرگزرنے کا جذبہ نہ ہوگا اس وقت تک قیادت کے فرائض انجام نہیں دئے جاسکتے ۔حالات کا رونارونے سے مسائل حل نہیں ہوں گے اس کیلئے جہدمسلسل ،صالح قیادت اورمضبوط حکمت عملی کی ضرورت ہے۔عام انتخابات قریب سے قریب تر ہوتا جارہے جس کے لئے ہرطبقہ کیلئے تیاریاں شروع کردیں ہیں دیکھناہے کہ قوم مسلم کس طرح اپنی حکمت عملی کو بروے کارلاتی ہے۔

***
sabirrahbar10[@]gmail.com
موبائل : 9470738111
صابر رہبر

Politics of Psychological fear and the future of India. Article: Sabir Rahbar

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں