رسم الخط کی ترویج اردو کا سب سے بڑا مسئلہ
کونسل کو انٹرمیڈیٹ اسکول کے قیام کے سمت میں کوشش کرنی چاہیے: علی اشرف فاطمی
ہندوستان اردو کے بغیر سیکولر ہو ہی نہیں سکتا: وبھوتی نرائن رائے
قومی اردو کونسل بلا شبہ اردو کے فروغ کا سب سے بڑا ادارہ ہے:عطا ء الحق قاسمی
قومی اردو کونسل نے ساری دنیا سے اردو پرستاروں کو جمع کرکے عظیم کارنامہ انجام دیاہے : ڈاکٹر تقی عابدی
NCPUL کی بین الاقوامی کانفرنس کے دوسرے دن مقررین کا اظہار خیال
اردو رسم الخط کی ترویج وتربیت آج اردو زبان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس شاندار زبان کو نئی ٹیکنالوجی سے جوڑنے میں قومی اردو کونسل نے بے حد اہم کردار ادا کیا ہے اور وہ صحیح معنوں میں آج دنیا میں اردو کو فروغ دینے والا سب سے بڑا ادارہ بن چکا ہے۔ ان خیالات کا اظہار بین الاقوامی اردو کانفرنس کے دوسرے دن کے اجلاس میں کیا گیا۔ یہ کانفرنس نہ صرف کونسل کی تاریخ میں اہمیت کی حامل ہے بلکہ اردو زبان و ادب کی تاریخ میں بھی اسے سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔’اکیسویں صدی میں اردو :فروغ اور امکان‘ کے موضوع پر قومی اردو کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ذریعہ منعقد کی گئی بین الاقوامی کانفرنسمیں آج پہلے سیشن کا موضوع اردو کے فروغ میں سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں کا کردار تھا، جس میں نسیم عارفی، خوشتر نورانی اور پروفیسر عبد الحق نے اپنے وقیع مقالات پیش کیے۔ اس سیشن میں کونسل کے ڈائرکٹر ڈاکٹر خواجہ محمد اکرام الدین نے کونسل کی تمام کار گزاریوں پر مشتمل ایک پاور پوائینٹ پریزیٹیشن پیش کیا۔
پاکستان کے معروف کالم نگار جناب عطا ء الحق قاسمی نے کونسل کی خدمات کی ستائش کی اور کہا کہ کونسل واقعی اردو کی خدمت کر رہی ہے۔ا نجمن ترقی اردو کے جنرل سکریٹری جناب اطہر فاروقی نے نے انجمن ترقی اردو ہند کی خدمات کا جائزہ لیتے ہوئے انجمن کے دائرہ کار کی توسیع پر زور دیا۔ڈاکٹر ظفر محمود نے اپنے مقالے میں ہندوستانی آئین کی مختلف دفعات کا حوالہ دیتے ہوئے ملک میں اردو کی صورتحال بیان کی اور ملکی و عالمی سطح پر اردو کے فروغ کا ایک منظم و مربوط لائحہ عمل مرتب کرنے کی درخواست کی۔ انھوں نے حکومت کی اسکیموں کا جائزہ لیا اور کہا کہ اردو والوں کو بھی اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم خود اردو کے فروغ کی کتنی سنجیدہ کوششیں کر رہے ہیں۔ اس اجلاس میں معروف ادیب جناب غلام نبی خیال نے جموں کشمیر کے وزیر اعلی عمرعبداللہ کا کونسل کی اس کانفرنس کے لیے خصوصی پیغام بھی پڑھ کر سنایا۔ اپنے پیغام میں وزیراعلیٰ نے کونسل کی ستائش کرتے ہوئے کانفرنس کی کامیابی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
مجلس صدارت میں شامل سابق مرکزی وزیر مملکت جناب علی اشرف فاطمی نے صدارتی کلمات میں کہا کہ اردو ہندوستان کی ملٹی نیشنل زبان ہے ، اسے عالمی زبان کا درجہ حاصل ہے۔ قومی اردو کونسل کو بنیادی تعلیم پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے اور اس ادارے کو انٹرمیڈیٹ کی سطح پر سی بی ایس سی کے اردو اسکولوں کے قیام کی سمت میں کوششیں کرنی چاہئیں۔مجلس صدارت کے رکن جناب وبھوتی نرائن رائے نے کہا کہ اردو اور ہندی کا غم ایک جیسا ہے، ہمیں مل جل کر ان زبانوں کے فروغ کی کوششیں کرنی ہوں گی۔ ہندوستان اردو کے بغیر سیکولر ہو ہی نہیں سکتا۔جناب ولی رحمانی نے صدارتی کلمات میں کہا کہ جمہوریت میں زبان کی سب سے بڑی قیمت ہے اگر سرکار ہماری بات نہیں سنے گی تو ہم مضبوطی سے اپنا احتجاج درج کرائیں گے۔ حکومتوں کے کندھوں پر زبانیں چلا کرتی ہیں، زندہ نہیں رہتیں۔کونسل کے وائس چےئرمین اور مجلس صدارت کے رکن پروفیسر وسیم بریلوی نے مختصراً اس سیشن میں پڑھے گئے 6 مقالوں کا جائزہ لیا اور کہا کہ ان مقالوں میں دردمندی تھی اور ہمیں اردو کے فروغ کی سمت میں مزید سنجیدہ کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔
سیمینار کے دوسرے اجلاس کی مجلس صدارت میں ڈاکٹر تقی عابدی ، عطاء الحق قاسمی، پروفیسر عبدالحق اور پروفیسر وسیم بریلوی شامل تھے۔ نظامت پروفیسر ابن کنول نے کی۔ اجلاس کا موضوع تھا ’اردو کا عالمی تناظر تہذیب و ادب کے حوالے سے‘ ۔ سیشن کا پہلا مقالہ ماریشس کے ڈاکٹر احمد رحمت علی نے پڑھا۔ انھوں نے ماریشس میں اردو زبان و ادب کی تعلیم و تربیت پر اظہارِ خیال کیا۔ قاہرہ سے آئے ڈاکٹر احمد محمد احمد عبدالرحمن نے اپنے وقیع مقالے میں خلیجی ممالک میں اردو کے استعمال پر روشنی ڈالی اور یہ بتایا کہ وہاں عرب لوگ بھی اپنی بات چیت میں اردو کے ڈھیروں الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ مصر ہی نہیں بلکہ تمام خلیجی ممالک میں اردو کا مستقبل روشن ہے۔ اِ س سمت میں یہاں کے اداروں کو وہاں کی درس گاہوں میں کتابوں کی فراہمی کو یقینی بنانا چاہیے۔
پاکستان کی مجلس ترقی ادب لاہور کے ڈائرکٹر اور معروف ادیب و ناقد ڈاکٹر تحسین فراقی نے مجلس ترقی ادب لاہور کی خدمات پر گفتگو کی اور کہا کہ مجلس نے ادب کے ساتھ دیگر موضوعات پر ہزاروں کتابیں شائع کی ہیں۔ پاکستان کے معروف کالم نگار عطاء الحق قاسمی نے اپنے شگفتہ انداز میں برصغیر میں اردو کی صورتِ حال پر روشنی ڈالی۔ماسکو سے تشریف لائیں ڈاکٹر لڈمیلا واسیلیوا نے روس میں اردو زبان کے آغاز و ارتقا پر اظہارِ خیال کیا۔ استنبول کے ڈاکٹر خلیل طوقار نے ترکی میں اردو کی صورتِ حال پر روشنی ڈالی اور کہا کہ زبان کو ختم کرنے کے کئی مجرب نسخے ہیں جنھیں آج برصغیر میں آزمایا جارہا ہے۔ اِس سمت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
مجلس صدارت کے رکن معروف ناقد و محقق ڈاکٹرتقی عابد ی نے پڑھے گئے مقالوں پر مختصراً اظہارِ خیال کرتے ہوئے اردو کی تاریخ پر خوبصورت نثریہ شاعری کی اور اردو کے رسم الخط کے تحفظ، بنیادی تعلیم، اردو کو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنے، اردو ریڈرشپ کی توسیع اور اردو کتابوں کو اغلاط سے پاک کرنے کے لیے اردو میں پروف ریڈنگ کورس وضع کرنے پر زور دیا۔ انھوں نے کونسل کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ قومی اردو کونسل نے ساری دنیا سے اردو پرستاروں کو جمع کرکے عظیم کارنامہ انجام دیاہے تاکہ یہ اسکالرس یہاں بیٹھ کر اردو کی ترقی کی سمت میں غور و خوض کرسکیں۔ دوسرے اجلاس کے اختتام کے بعد بین الاقوامی مشاعرے کا انعقاد کیا گیا جس میں پروفیسر وسیم بریلوی، مظفر حنفی، فرحت شہزاد، عطاء الحق قاسمی، محمد علوی، ڈاکٹر زبیر، عزیز نبیل، نسیم نکہت، انورجلال پوری، راحت اندوری، جاوید اختر، تقی عابدی، جلیل نظامی، سریندر شجر ، ڈاکٹر نسیم نگہت، مہتاب عالم اور نواز دیوبندی وغیرہ نے اپنے خوبصورت کلام سے محفلِ مشاعرہ کو رونق بخشی۔
(رابطہ عامہ سیل)
NCPUL Int'l Urdu Conference , 2nd day
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں