World powers condemn Egypt bloodshed
مصر میں فوجی کارروائی کے دوران اخوان المسلمین کے مطابق تقریباً 4ہزار افراد شہید ہوگئے ہیں۔ زخمیوں کی تعداد ہزاروں میں بتائی جارہی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار میں 525 افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق ہوگئی ہے۔ فوجی حکومت کے اس قتل عام‘ جبر و استبداد کے خلاف عالم اسلام میں غیظ و غضب کی لہر پھیل گئی ہے۔ ساری دنیا میں مصر کے موجودہ حکمرانوں کی سخت مذمت کی جارہی ہے۔ صدر امریکہ بارک اوباما نے مصر میں جاری قتل عام کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ انہوں نے جاریہ ماہ امریکہ اور مصر کے درمیان ہونے والے مشترکہ فوجی مشقوں کو منسوخ کردیا ہے۔ اوباما نے جو اس وقت تعطیلات منارہے ہیں بیان جاری کرتے ہوئے کہاکہ مصر کے ساتھ امریکہ کا تعاون موجودہ حالات میں دشوار ہوگیا ہے‘ کیونکہ عام شہریوں کو اس ملک میں بے دریغ ہلاک کیا جارہا ہے۔ امریکہ تشدد کی پرزور مذمت کرتا ہے۔ واشنگٹن ہمیشہ سے ہی انسان وقار کے تحفظ کیلئے پرامن احتجاج اور مظاہروں کی تائید کرتا رہا ہے۔ مصری حکام کو امریکہ کے فیصلہ سے واقف کرایا جاچکا ہے۔ لندن نے بھی مصر کے قتل عام کی مذمت کرتے ہوئے دفتر خارجہ میں مصری سفیر کو طلب کیا اور اپنا احتجاج درج کرایا۔ اقوام متحدہ انسانی حقوق کمیشن کے سربراہ نوی پلئی نے مصری افواج کی کارروائیوں میں بے دریغ ہلاکتوں کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہاکہ سکیورٹی فورسس کی کارروائیوں کی غیر جانبدارانہ مؤثر اور قابل اعتماد تحقیقات انجام دی جانی چاہئے‘ جو کوئی ظلم و زیادتی کا مرتکب پایا گیا‘ اس کا احتساب کیا جانا چاہئے۔ ایران کے صدر حسن روحانی نے مصری حکام سے پرزور مطالبہ کیا کہ وہ عوام پر جبر و استبداد سے گریز کریں۔ پارلیمنٹ میں بیان دیتے ہوئے حسن روحانی نے کہاکہ مصر کی عظیم عوام حریت پسند رہی ہے‘ انہیں ظلم اور جبر سے کچل دینا اس ملک کی روایت نہیں ہے۔ عوام کی جدوجہد‘ جمہوریت اور اسلامی حکومت کیلئے ہے۔ دنیا کو مصری عوام کے خواہشات کا احترام کرنا چاہئے۔ فرانس کے صدر فرنکوئس نے مصر کے سفیر کو طلب کرتے ہوئے ایمرجنسی ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہاکہ سب سے پہلے قیدیوں کو رہاکیا جانا چاہئے‘ تاکہ مذاکرات شروع کئے جائیں۔ اخوان المسلمین نے باغیانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے عرب بہار کے بعد کے انتہائی خونریزدن کے مصر میں رونما ہونے کے بعد فوجی تائیدی حکومت کو گرا دینے کا عہد کیا ہے۔ اخوان المسلمین کے ترجمان جہاد الحداد نے اپنے ٹوئیٹر میں بتایاکہ ہم ہمیشہ تشدد سے پاک اور پرامن رہیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم فوجی بڑاوت کے خاتمہ تک آگے بڑھتے رہیں گے۔ سکیورٹی فورسس نے دو احتجاجی کیمپس سے مرسی کے حامیوں کا جبری تخلیہ کروانے کی کوشش کی تھی‘ جبکہ دریں اثناء کل ملک میں ہوئی جھڑپوں میں کم ازکم 525 افراد ہلاک اور دیگر 3500 سے زائد زخمی ہوئے۔ وزارت صحت نے یہ بات بتائی۔ اس بات کا اظہار سرکاری ایجی نیوز سائٹ نے کیا۔ مہلوکین میں 43 پولیس عہدیداران بھی شامل ہیں۔ وزارت داخلہ نے یہ بات بتائی۔ اخوان المسلمین کا یہ دعویٰ ہے کہ پرتشدد واقعات میں تقریباً 4000 سے زائد افراد شہید ہوگئے ہیں۔ فوجی تائیدی کارگذار وزیراعظم نے رابعۃ الاوضاویہ اور النہضۃ میں مرسی کے حامیوں کے کیمپ کے خلاف سکیورٹی فورسس کی ہلاکت خیز کارروائی کی مدافعت کی۔ مصری وزیراعظم حازم البیلاوی نے بتایاکہ احتجاجی مظاہروں کو منشتر کرنے کا فیصلہ آسان کام نہیں تھا جبکہ حکومت نے مصالحانہ کوششوں کا موقف دینے کے بعد ہی یہ فیصلہ کیا تھا۔ انہوں نے بتایاکہ ہم نے دیکھا کہ حالات ایک ایسے مرحلہ پر پہنچ گئے ہیں جسے عزت نفس کا حامل کوئی بھی ملک قبول نہیں کرسکتا ہے۔ انہوں نے ہاسپٹلس اور پولیس اسٹیشنوں پر حملوں نراج کے پھیل جانے کا حوالہ دیا۔ بتایا گیا ہے کہ زخمیوں کو ہٹانے اور احتجاجیوں کو نکال باہر کرنے کیلئے بلڈوزرس کا استعمال کیاگیا‘ جو 3 جولائی کو فوجی بغاوت میں معزول کردہ 62 سالہ اسلام پسند سابق صدر کی بازماموری کا مطالبہ کررہے تھے۔ حکومت نے کل ایک ماہ طویل ایمرجنسی نافذ کردیا ہے۔ اس سے قبل بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ انسداد فساد پولیس نے موافق مرسی حامیوں کے دو کیمپس کو برخواست کردیا تھا جن میں بلڈوزرس اور ہیلی کاپٹرس کا استعمال کیا گیا۔ سکیورٹی فورسس نے کیمپ پر حملہ کے دوران متعدد افراد کو ہلاک کرتے ہوئے مرسی کے اخوان المسلمین کے حامیوں کے ساتھ تنازعہ سے پیدا شدہ 6 ہفتے طویل تعطل کے بعد ضبط و تحمل کے مظاہرے کی بین الاقوامی اپیل کو نظر انداز کردیا تھا۔ الجزیرہ نیوز چینل رپورٹ میں یہ بات بتائی گئی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں