نریندر مودی اور کتے کی موت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-07-16

نریندر مودی اور کتے کی موت

Modi muslims puppy
نریندرمودی نے مسلمانوں کو کتوں سے تشبیہ دی یانہیں، یہ سوال وادئ سیاست کی ہوا کو گرم کرنے کا سبب بن گیا ہے اور فطری طور پروزیر اعلیٰ گجرات پر ملامت کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔برطانوی خبررساں ایجنسی "رائٹرز" کو دیئے گئے انٹر ویومیں2002کے گجرات فسادات کے دوران ہلاکتوں کے بارے میں دریافت کردہ سوال کے جواب میں مودی نے نہایت خوبصورتی کے ساتھ ہندوستانی مسلمانوں اور کتوں کا موازنہ کیا ہے جس سے اگر ایک طرف مسلمانوں کے تئیں ان کے" دلی جذبہ" کی عکاسی ہوتی ہے تو دوسری جانب ایک" دردمنددل" کی تڑپ اور کسک کا بھی اظہار ہوتا ہے۔ مودی نے اپنے سینہ میں تڑپنے والے دل کو "دردمند" ثابت کرنے کیلئے استعاراتی زبان کا استعمال کیا اور کہا کہ "اگر میں کار چلا رہا ہوں اور میری کار کے نیچے ایک کتے کا پلا بھی دب جائے تو مجھے تکلیف ہو تی ہے۔ میں وزیراعلی ہوں۔اگر کہیں پر بھی کچھ برا ہوتا ہے تو تکلیف ہونا فطری ہے"۔بہ ظاہر یہ مختصرجملہ مودی کی در مندی کو عیاں تو کرتا ہے کہ وہ اس قدرحساس ہیں کہ ایک کتے کے بچہ کی موت بھی ان کے دل کو آزار پہنچانے کا سبب بن جاتا ہے مگرحقیقت تو یہ ہے کہ مودی نہایت خوبصورتی کے ساتھ مسلمانوں کو کتے کے بچہ کے مماثل قرار دے گئے ہیں۔اپنی شبیہ کو بے داغ قرار دینے کیلئے وہ یہ بھی کہنا نہیں بھولتے کہ"مجھے احساس جرم تب ہوگا جب میں نے کوئی غلط کام کیا ہو۔ مجھے مایوسی تب ہوگی جب میں نے چوری کی ہو اور وہ پکڑی گئی ہو۔ میرا کیس وہ نہیں ہے"۔رائٹرز سے گفتگو کے دوران مودی نے کتے کے بچہ کی مثال دے کر جس خردماغی کامظاہرہ کیاہے،اس کی تشریح صاحبان سیاست الگ الگ ڈھنگ سے کر رہے ہیں اور یوں مودی پر لعنتوں کی بارش کاایک سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔بھارتیہ جنتا پارٹی نے مودی کا فطری طورپر دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے قائد کے بیان کا غلط مطلب نکالا جارہاہے جبکہ حقوق انسانی کے رضا کاروں اور سیاستدانوں کا اس امر پر تقریباًاتفاق ہے کہ مودی نے مسلمانوں کا کتے سے موازنہ کیا ہے۔ مودی کے خلاف صف آرا قوتوں کا اس بات پر بھی اصرار ہے کہ وزیر اعلیٰ گجرات کو اس تضحیک آمیز بیان کیلئے قوم سے معافی مانگنی چاہئے،جبکہ بی جے پی مودی کے متنازعہ بیان کی تشریح کچھ الگ انداز میں کررہی ہے ۔ خود مودی اپنے متنازعہ بیان پروضاحت میں کچھ الگ ہی راگ الاپ رہے ہیں۔

ویسے یہ تو ایک کڑوی سچائی ہے کہ مودی نے2002کے گجرات فسادات کے دوران مسلمانوں کے قتل عام پر نہ تو کبھی معافی مانگی اور نہ ہی آئندہ اس کی اُمید کی جاسکتی ہے۔رہی بات اخلاقی ذمہ داریاں قبول کرتے ہوئے اظہار تاسف کرنے کی تو یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جس شخص کا ضمیر مردہ ہو اورجو عملاًبے حس بھی ہو،اس سے افسوس کی اُمید کی ہی نہیں جاسکتی۔مودی گناہ گاروں کے اس طبقہ کے آئیڈیل کہلاسکتے ہیں جنہیں"احساس جرم "ہے ہی نہیں۔ بڑا اور شریرقسم کا گنہگارایسا ہی ہوتا ہے ۔ اُسے احساس ندامت کاموقع ہی نہیں ملتا یا پھر اس کی انااُسے شرمندگی پر مجبور نہیں ہونے دیتی۔مودی کی حکمرانی میں انسانیت کی تاراجی کا کون سا مرحلہ آکر نہیں گزرا؟کیا وہاں قتل عام کے دوران مظلوم مسلمانوں کو بچاتے ہوئے کبھی کسی نے مودی یاان کی حکومت کو دیکھا؟فسادات کے دوران تحفظ کی فراہمی کے مسئلہ کو جانے دیجئے،بعد از فساد کبھی آپ نے یہ سناکہ مودی نے ہزاروں میں سے کسی ایک مظلوم کے زخم پر مرہم رکھاہو؟ نہیں۔ ہرگزنہیں۔تو پھر مودی کویہ کہنے کا حق کیسے رہ جاتاہے کہ انہوں نے فسادات کے دوران یا خون کی ہولیاں کھیلے جانے کے بعد"بالکل صحیح کام"کام کیا۔مودی اگر ہندوستان کو یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ گجرات کے مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کرکے انہیں نے "بالکل صحیح کام"کیا ہے تب تو اس لحاظ سے مودی کا دعویٰ سچ کہلاسکتا ہے مگراس کیلئے تشبیہ و استعارہ کی زبان استعمال کرنے کی ضرورت انہیں کیوں پڑ گئی؟کیوں اُن میں یہ حوصلہ نہیں کہ وہ اگر مسلمانوں کے قتل عام کو جائز تصور کرتے ہیں تو اس کا وہ برملا اظہار بھی کردیں؟ حقیقت تو یہ ہے کہ مودی نے رائٹرز سے گفتگو کے دوران گجرات کے فسادات میں اپنے رول کو جائز ٹھہرایا ہے۔بالفاظ دیگرمودی کی اِس لفاظی کویوں سمجھاجانا چاہئے کہ" مسلمانوں کی نسل کشی پر مبنی مسلم کش فسادات"وزیر اعلیٰ گجرات کی نظرمیں ایک "صحیح کام" تھا۔مودی نے اِسی پر اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے اس بات پر بھی اظہار مسرت کیا ہے کہ "چوری نہیں پکڑی گئی"۔ یعنی نریندر مودی کو خوشی اس بات کی ہے کہ مسلم دشمنی کے نقطۂ عروج پر پہنچ جانے کے باوجود ان کا ایک بھی گناہ ثابت نہیں ہوسکا۔نریندر مودی کے اس خیال سے اتفاق کر نے کی گنجائش بہر حال موجود ہے کہ لاکھوں گھروں کو اُجاڑنے اور ہزاروں مسلمانوں کو مروانے کے بعد بھی وہ اب تک ہندوستانی قانون کی نگاہ میں" بے داغ " ہیں۔قانون مجبور محض ہے کیونکہ مودی کا کچھ بھی نہیں بگاڑاجاسکاہے۔ایسے میں مودی کا غروراِسی طرح کی لفظی موشگافیوں کو جنم دے گا،جس طرح کی بدزبانی کاانہوں نے اظہار کیا ہے۔

حالانکہ مودی کی یہ خوش امیدی کب تک برقرار رہے گی،یہ بھی ایک اہم سوال ہے ،کیونکہ گجرات کے مظلومین کیلئے انصاف کی راہیں بڑی تیزی کے ساتھ کھلتی چلی جارہی ہیں۔11سال قبل رونماہونے والے فرقہ وارانہ فسادات سے گجرات کی جس قدر بدنامی ہوئی تھی، اس کے بعد انصاف کی سربلندی کاسلسلہ شروع ہو جانے سے اُسی قدریہ امید پیدا ہوگئی ہے کہ خدا کے گھر میں دیر ہے،اندھیر نہیں۔اب یہ امید پیدا ہوگئی ہے کہ ایک ایک کرکے فسادی گرفت میں آئیں گے اور انہیں عبرتناک سزائیں دی جائیں گی۔ ماضی میں یہ حقیقت سامنے آچکی ہے کہ مودی حکومت نے نہ صرف یہ کہ ریاست میں فساد برپاکرنے والے عناصر کی ہرطرح سے مدد کی بلکہ جب متاثرین کی جانب سے حصول انصاف کی لڑائی لڑنے کاعمل شروع ہوا تو انسانیت کے ان علمبرداروں کے خلاف انتقامی کارروائی سے بھی ریاستی حکومت باز نہیں آئی جنہوں نے انسان دوستی کے تقاضوں کو ملحوظ نظررکھتے ہوئے فسادات کے شکار بننے والے متاثرین کوقانونی مدد فراہم کرانے کی کوشش کی۔گزشتہ برس سماجی خدمت گزار تیستا سیتلواڈ کے خلاف دائر کئے گئے مقدمہ کو ملک کی سب سے بڑی عدالت نے 100 فیصد جھوٹ قرار دے کر اس سچائی پر مہرتوثیق ثبت کردی تھی کہ مودی حکومت انتقام کے تحت حصول انصاف کی جنگ لڑنے والوں کے خلاف جھوٹے مقدمے قائم کررہی ہے۔

ہمیںیہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ وہی گجرات ہے، جہاں انصاف کی لڑائی جب بے موت مر گئی تو ملک کی سب سے بڑی عدالت یعنی سپریم کورٹ نے پیش رفت دکھائی تھی اور خصوصی سراغ رساں ٹیم کوفسادات سے متعلق10مقدموں کی ا زسر نو غیرجانبدارانہ تحقیق کاذمہ سونپا۔اگر گجرات میں سب کچھ ٹھیک ہوتا اور مودی مسلمانوں کیلئے موذی ثابت نہ ہوتے تو سپریم کورٹ کو مداخلت کی ضرورت ہر گز نہ پیش آتی اور نہ ہی ریاست سے کلین چٹ حاصل کرنے والے فسادیوں کو سزا مل پاتی ۔ بہرحال اطمینان کی بات یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ نے جن مقدموں کی از سر نو تحقیق کا حکم صادر کیا تھا،ان میں سے متعد د مقدمے فیصل ہو چکے ہیں اور گنہگاروں کیلئے سزاؤں کا تعین ہو چکا ہے جبکہ متعدد معاملوں میں ہمیں انصاف کا انتظار ہے۔یہ صورتحال اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ مودی حکومت کی تمام تر شرارت انگیزیوں کے باوجود انصاف کا جھنڈا بلند ہوگا۔ یہی نہیں بلکہ خودوزیراعلیٰ نریندر مودی کے گردبھی گھیرا تنگ ہوتادکھائی دے رہا ہے۔ انصاف کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں دھیرے دھیرے دم توڑتی جارہی ہیں اور خطاکار سزا کے مستحق قرار پارہے ہیں۔

جہاں تک مودی کے ذریعہ گجرات کے فسادات کی اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے معافی مانگنے کا تعلق ہے تو ہم بلاخوف تردد یہ کہہ سکتے ہیں کہ قانون کی نگاہ میں بے داغ قرار پانے والا یہ شخص انسانیت کی نگاہ میں ایسا مجرم ہے جس کا گنا ہ قابل معافی ہے ہی نہیں۔چنانچہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مودی کی شخصیت نہ صرف مسلمانوں کیلئے ، بلکہ پوری دنیا کے سیکولر اور امن پسند لوگوں کی نگاہوں میں ایک نفرت انگیز شخصیت کا نام ہے۔مودی کو قتل و غارت گری، ظلم و استبداد اور تشدّد و بربریت کی ایک علامت کی حیثیت سے دیکھنے والوں کی کمی نہیں،جن کا عام خیال یہی ہے کہ مودی نے درندگی اور انسانیت سوز حرکت و عمل سے مہاتما گاندھی کی اس ریاست کوفرقہ واریت کا ایک تجربہ گاہ بنا دیا ۔ جو لوگ مودی کو بھگوان کا اوتار قر اردینے اور انہیں گجرات کی ترقی کا نقیب کہہ کر یاد کرنے پر مصر ہیں وہ آج بھی گجرات فسادات کے اُن متاثرین سے جاکر مل لیں اور اندازہ کرلیں جو11برسوں بعد بھی اپنوں کو کھو دینے کے غم میں نڈھال تو ہیں ہی،دہشت کا عالم یہ ہے کہ وہ مظالم کو بھول کر اب تک اپنے گھروں کو واپس نہیں ہو سکے ہیں۔

جھوٹی عاجزی و انکساری میڈیا میں سستی شہرت کی فراہمی کا ذریعہ تو بن سکتی ہے لیکن حقیقی معنوں میں ایسی وضاحتیں انصاف پسند طبقہ اور متاثرین دونوں میں سے کسی کو بھی مطمئن کرانے کا وسیلہ نہیں بن سکتیں کیونکہ نہ صرف یہ کہ مودی نے فسادات کے ایام میں راج دھرم نہیں نبھایا بلکہ مابعد فسادات بھی ان کی حکومت نے قدم قدم پر مسلمانوں کو آزار پہنچایا اور ان کیلئے تفریق کی مرحلہ وار طریقے سے دیواریں بھی کھڑی کیں۔ان دیواروں کو منہدم کئے بغیرنہ توانصاف کی فراہمی ممکن ہے اور نہ ہی ظلم و جبر کا خاتمہ،چنانچہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ مودی اُس وقت عام مسلمانوں اور انصاف پسند غیر مسلموں کی نگاہ میں یکساں طورپر قابل نفرت بنے رہیں گے جب تک کہ گجرات کے بے کس مسلمانوں کے تعلق سے ان کی حکومت کا عملی رویہ تبدیل نہیں ہوجاتا اور جب تک گجرات کے فسادات میں شہید ہونے والے مسلمانوں کے اہل خانہ کو انصاف نہیں مل جاتا۔نریندرمودی سے بہرحال ہم یہ امید کرہی نہیں سکتے کہ وہ فسادیوں کو کیفرکردارتک پہنچانے میں کسی طرح کی دلچسپی کا مظاہرہ کریں گے کیونکہ جس شخص کا اپنا دامن خود ہی داغدار ہو وہ کیا داغداروں کو سزا دلائے گا۔بہرحال!حرف آخر کے طور پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ظالموں کو قانون سزا دے یا نہ دے،قدرت یقیناًانہیں سبق ضرور سکھائے گا۔
ویسیہمیں یقین ہے کہ فسادات میں اپنا سب کچھ لٹادینے والے مظلومین کی بد دعاؤں کے اثر سے وزیر اعلیٰ گجرات بڑی آفت میں گھریں گے کیونکہ مظلومین کی آہیں بڑے عذاب کا پیش خیمہ ثابت ہوا کرتی ہیں۔ہم نریندر مودی کیلئے کتے کی موت مرنے کی دعاء تو نہیں کرسکتے لیکن یہ کہنے کاحق ضرور رکھتے ہیں کہ جو جیسا کرے گا،اُسے ویسا بھگتناہی ہوگا۔


(مضمون نگار روزنامہ "ہندوستان ایکسپریس" کے نیوز ایڈیٹر ہیں )
موبائل : 08802004854 , 09871719262
شاہد الاسلام

Narendra Modi and puppy's death. Article: Shahidul Islam

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں