ماہ رمضان المبارک وشو شانتی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-07-27

ماہ رمضان المبارک وشو شانتی

ramdhan month of world peace
رمضان المبارک وشو شانتی، برائیوں سے بچنے اور غریبوں کی مدد کا مہینہ

رمضان اسلامی کیلنڈر کا ،نواں مہینہ ہے ، یہ مہینہ اللہ تعالی کی طرف سے بہت ہی برکت اور رحمت والا مہینہ ہے ۔ نبی اسلام محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ رمضان کیا چیز ہے ،تو میری امت یہ تمنا کرے گی کہ پورا سال، رمضان ہی ہوجائے ۔ یہ بہت اہم بات ہے کہ امن وشانتی کا پیغام لانے والا پاک قران بھی اسی مہینے میں نازل ہوا ہے ، خود قران کے اندر کہا گیا ہے کہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قران نازل کیا گیا ، جو سیدھی راہ دیکھانے والی ، برائی اور اچھائی کا فرق بتانے والی اور انصاف کرنے والی کتاب ہے ۔اللہ تعالی نے اس مہینے میں قران نازل کرکے یہ پیغام بھی دیا کہ روزہ رکھ کر بندے کو کٹھن سے کٹھن حالات میں اس کتاب کا پالن کرنا چاہیے ۔

اس مہینے میں قران مقد س کے مطابق اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر تیس روزے فرض کیے ہیں۔ روزہ کے لیے عربی زبان میں "صوم " کا لفظ آیا ہے ، جس کا مطلب ہے صبح صادق سے سورج غروب ہو نے تک روزہ کی نیت سے کھانے ، پینے اور جنسی تعلقات سے رکنا ۔ دنیا بھر میں مسلمان، اللہ کے حکم کے مطابق کھانے،پینے اورجماع کرنے سے باز رہتے ہیں اور پھر شام کو کھا پی کر دوبار ہ اللہ کو یاد کرنے کے لیے مسجد کا رخ کرتے ہیں جہاں تراویح کی نماز پڑھی جاتی ہے۔ لیکن اللہ کا مقصد اپنے بندے کو بھوکا پیاسا رکھنا نہیں ہے اور نہ ہی محض بھوکا پیاسا رہنے سے کوئی پیغام ومقصد پورا ہو سکتا ہے ۔ حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بہت سے روزے دار ایسے ہیں جنھیں اپنے روزہ سے بھوک، پیاس کے علاوہ او رکچھ حاصل نہیں او ربہت سے تہجد گزار ایسے ہیں جن کی رات کی نماز وں سے سوائے جاگنے کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ اس لیے وہ شخص بڑا ہی نادان ہے کہ جو دن بھر جائز چیزوں کو چھوڑ دے اور حرام او رغلط چیزوں کو کررہا ہو ، جب وہ حرام سے بچنا ہی نہیں چاہتا ہے تو حلال سے بچ کر خدا کو خوش نہیں کرسکتا۔

اب سوال یہ ہے کہ آخر روزے کا حقیقی مقصد کیا ہے اورایک مسلمان پر ا س کیا اثر ہونا چاہیے اور سماج اور ملک کے لیے اس کا کیا فائد ہے ، پوتر قر آن نے روزہ کا مقصد بتاتے ہوئے کہا ہے کہ
" اے ایمان والو! پر تم روزہ فرض کیا گیاہے جس طرح تم سے پہلے انبیا کے ماننے والوں پر روزہ فرض کیا گیا تھا تاکہ تم تقوی حاصل کرو۔"
یعنی روزہ کا مقصد تقوی حاصل کرنا ہے ۔ تقوی کیا ہے ؟ تقوی دراصل اس احساس کا نام ہے جس میں نیکی اور اچھے کام کی طرف شدید رغبت ہوتی ہے او ربرائی سے نفرت ہوجاتی ہے۔ جب اس مقام کو بندہ حاصل کرلیتا ہے تو اسے متقی کہا جاتا ہے۔ اگر آج کے سماج کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ ایک طبقہ ملک میں عیش وعشرت کی زندگی گزار رہا ہے تو دوسرا طبقہ بھکمری اور دانے دانے تو ترس رہا ہے ۔ اسلام نے بندوں پر روزہ فرض کرکے یہ پیغام دیا ہے کہ وہ بھوک اور پیاس سے تڑپنے والوں کے درد کا بھی احساس کرو ، تقوی ، غم خواری اور رمضان میں ہی زکوۃ اور رمضان کے اخیر میں فطرہ کے طور پر غریب لوگوں میں مال کی تقسیم ا سی پیغام کو یاد دلاتے ہیں اس کی دلیل رمضان سے قبل محمد صاحب نے اپنے ساتھیوں کے سامنے رمضان کا جو نقشہ پیش کیا تھا ، اس میں غم خواری کا خاص طور سے ذکر ہے ، اس حدیث میں ہے کہ :
"اے لوگو!ایک عظیم مہینہ ، ایک مبارک مہینہ تم پر سایہ فگن ہے ۔ یہ صبر کا مہینہ ہے او رصبر کا ثواب جنت ہے ،یہ ہمدردی کرنے کا مہینہ ہے اور ایسا مہینہ ہے جس میں مومن کے رزق میں اضافہ کردیا جاتا ہے ۔ "
یہ وہ مہینہ ہے جس کے پہلے دس دن رحمت کے ہیں ، دوسرا عشرہ مغفرت اور آخری دس دن جہنم سے آزادی کے ہیں ۔ جس شخص نے ایک غلام یا خادم کی ذمہ داریاں اس مہینے میں کم کردیں ، اللہ تعالی اس کی بخشش فرمادے گا اور اسے آتش دوذخ سے نجات دلائے گا ۔

محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مہینے کی چار اہم صفات کا ذکرکیا ہے
(1) عظمتوں والا مہینہ
(2)برکتوں والا مہینہ
(3) صبر کا مہینہ
(4) غم خواری کا مہینہ
یعنی ایسا مہینہ جس میں ہم جب دوسروں کے غم میں شریک ہوں، بھائی چارہ او رامن کو فروغ دیں۔صبر کے بعد غم خواری کا ذکر ظاہر کرتا ہے کہ کھانے پینے سے صبر کے نتیجے میں جو غریبوں کی پریشانی کا احساس ہوتا ہے ، اس کا رد عمل یہ ہوناچاہیے کہ روزہ دار کے اندر، مدد کا جذبہ بڑھ جائے۔ اس لیے آج کے معاشی دور میں روزہ کی بڑی اہمیت ہے او راس کا مقصد اسی وقت پورا ہو گا جب کہ دولت مند حضرات بھی روزہ رکھیں او راپنے گھروں سے نکل کر روڈ پر آئیں اور غریبوں کے غم میں اور ان کی دشواریوں میں ہر طرح سے شریک ہوں۔
کچھ دولت مند طبقو ں اور مسلمان کا نام ہونے کے باوجود دین وشریعت سے دور افراد میں یہ مشہور ہے کہ روزہ تو غریب لوگوں کے لیے ہے، یہ سراسر غلط ہے، روزہ کا تعلق اصلاح سے ہے اور اس میں مالدار اور غریب میں فرق نہیں ہے ، ساتھ ہی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ روزے سے کئی بیماریاں او رپریشانیاں پیدا ہوتی ہیں، اس سلسلے میں وکی اسلام نام کی ایک ویب سائٹ نے بہت ہی گمراہ کن مضمون شائع کیا ہے ، جس میں ثابت کیا ہے کہ روزے کی وجہ سے مائیگرین ، ڈی ہائیڈریشن وغیرہ کی بیماری ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے ، جب کہ حقیقت میں یہ بات میڈیکل سائنس کے عام اصول کے خلاف ہے ، یہ بیماریاں اسی وقت ہوسکتی ہیں جب کہ غذائیت nutrition کی کمی ہوجائے یا روزہ پورے مہینہ میں دن و رات رکھا جائے جب کہ مسلمان صبح اور شام کافی غذا لیتے ہیں، جس سے ان میں نیوٹریشن میں کوئی کمی نہیں ہوتی ہے ۔

میڈیکل سائنس کا ماننا ہے کہ ہائپر ٹینشن اور ہائی شوگر کے مریض کے لیے روزہ فائدہ مند ہے ، روزے کے سلسلے میں 1996ء میں مراقش Morroco میں ایک بین الاقوامی کانفرنس ہوئی تھی جس میں روزے کے میڈیکل فوائد اور نقصان medical merits and demerits of fastsing پر کافی بحث و مباحثہ ہوا تھا ، اردن کے ڈاکٹر سولیمن ، ایران کے ڈاکٹر عزیزی وغیرہ بھی شریک ہوئے تھے ، جس میں متفقہ طور پر یہ بات کہی گئی تھی کہ روزے کا blood glucose, blood pressure, lipid profile and weigh پر بہت ہی مثبت اثر ہوتا ہے اور اسلامی طریقہ روزے کا کوئی بھی منفی اثر نہیں ہے ۔
تاہم یہ بات بھی واضح کردی جائے کہ بیماروں کے لیے روزہ نہیں ہے اگر کوئی شخص ان بیماریوں میں مبتلا ہونے کا خطرہ محسوس کرے تو بھی وہ دوسرے دنوں میں روزہ رکھ سکتا ہے ، اسی طرح سے دودھ پلانے والی ماں کے لیے بھی روزہ لازم نہیں ہے۔

روزہ کا جہاں ایک مقصد غریبوں کا درد سمجھنا ہے وہیں تپسیا کے ذریعے اللہ کی قربت حاصل کرنا بھی اہم مقصد ہے ، تپسیا کر کے خدا کی قربت اور اس سے شرف ہم کلامی کا تصور تقریبا سارے مذاہب میں موجود ہے ، اسلام کے علاوہ عیسائیت، ہندو ازم ، جین ازم ، یہودیت تقریبا سارے دھرم و مذاہب میں اس کا تصور بڑی گہرائی سے موجود ہے ۔
تپسیا کرکے بہت سارے رشی منیوں نے ہندو دھرم کے مطابق بھگوان سے گیان حاصل کیا ہے ۔ خود قران میں موجود ہے کہ جب اللہ تعالی نے اپنے ایک نبی موسی (علیہ السلام) کو کتاب ہدایت توریت دینے کا فیصلہ کیا ،تو اللہ تعالی نے حکم دیا کہ انسانی آبادی سے کٹ کر کوہ طور پر چالیس دن روزہ رکھ کر قرب حاصل کرے ، اسی طرح آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہفتوں تک مکہ سے دور غار حرا میں روزہ رکھتے اور عبادت کرتے رہے یہاں تک کہ فرشتہ اللہ کا پیغام لے کر ان کے پاس آیا، اس لیے روزہ ایک قسم کا تپسیا بھی ہے جس کے بعد بندہ اللہ سے قریب ہو جاتا ہے ۔

روزہ اور امن عالم :
حدیث میں ہے " جب تم میں کوئی شخص روزہ سے ہو تو فحش گفتگو (sexual conversation) نہ کرے او رلڑائی جھگڑا نہ کرے اور اگر کوئی شخص بدزبانی کرے یا جھگڑا کرے تو کہہ دیجئے کہ میں روزہ دار ہوں
( بخاری جلد 1 ، ص 255)

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ کے نتیجے میں جو چیز انسان کو حاصل ہوتی ہے وہ سکون اور امن عام ہے ، حدیث میں عربی میں رفث وصخب کا لفظ بدامنی اور جھگڑے کے لیے استعمال کیا گیا ہے ۔رفث شہوت ہے اور صخب کا معنی غضب ہے ، یہی وہ دو جذبات ہیں جو انسان کے تمام تر اخلاق کی بنیاد ہیں ، یہ جذبات جب بے قابو ہوتے ہیں تو معاشرہ فساد سے بھر جاتا ہے ۔ایسی صور ت میں امن کی بقاکا واحد سبب یہ ہے کہ انسان اپنے ان جذبات کو دبا کر رکھے اور جنسی خواہشات کا لفظی اظہار سے بھی بچا جائے تا کہ معاشرہ جنسی بحران اور عصمت دری جیسے سنگین جرائم سے پاک ہو ۔
اسی طرح اگر کوئی غلط باتیں کرتا پھرے تو روزہ حکم دیتا ہے کہ نفرت کا جواب نفرت سے دینے کے بجائے اسے نظر انداز کردیا جائے اور خود کو جوابی کارروائی سے بچالے تاکہ دنیا میں بدامنی نہ پھیلے او ر دنیا امن وشانتی کا گہوار بن جائے ۔یقیناًبدامنی کا جواب بدامنی اور خون خرابے کا جواب خون خرابے سے دینا غلط اور غیر انسانی ہے ، روزہ ہمیں اس کا ہی مشق کراتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ
"روزہ ڈھال ہے "
یعنی برائیوں اور گالی گلوچ اور بدچلنی کے لیے ایک ڈھال بن جاتا ہے ۔
اس لیے ہمیں بہتر انسان بننے کے لیے روزہ رکھنا چاہیے اور اس کے پیغام کو ضرور اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہیے ۔

***
Azeemullah Siddiqi
موبائل : 9958760089 ، ای-میل : azeem.juh[@]gmail.com
jamiat Ulam e hind 1- Bahadurshah Zafar Marg ITO, New Delhi-02

Ramadhan- a month of world peace. Article: Azeemullah Siddiqi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں