محمد ایوب فاروقی صابرؔ نے اپنے شعری مجموعے " آخر شب کے ہمنشیں" کا انتساب اپنے والد مرحوم محمد اسمٰعیل فاروقی کے نام کیا اور لکھا کہ والد کی تربیت نے انہیں ادب کو زندگی میں اور زندگی کو ادب میں برتنے کا سلیقہ سکھایا۔شعری مجموعے کا تعارف سید واحد علی واحدؔ ڈپٹی کمنشر آف لیبر مہاراشٹرا نے لکھا۔ جو صابرؔ فاروقی کے ماموں ،یوسف ناظم کے رفیق کار اور نظام آباد کے سینئیر شاعر سمجھے جاتے ہیں۔ سید واحد علی واحدؔ صابرؔ کی شاعری کے بارے میں لکھتے ہیں کہ " انہوں نے روایت اور جدت کے امتزاج کے ساتھ شاعری کی۔ اور اپنی شاعری میں سیاسی ،سماجی اور معاشرتی عوامل کا بھی اظہار کیا"۔ صابرؔ فاروقی کے کلام پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا کلام کلاسکیت اور جدیدیت کا حسین امتزاج ہے۔ انہوں نے پابند اور بلینک ورس نظمیں کہیں ہیں۔ ان کی نظموں میں عصری حسیت اور معاشرتی شعور ملتا ہے۔ میر ؔ کی طرح چھوٹی بحروں میں انہوں نے بہت اچھی نظمیں اور غزلیں کہی ہیں۔ اپنی نظموں میں قومی یکجہتی،وطن سے محبت،اور سماجی نشیب و فراز کو پیش کیا۔ ان کی شاعری میں رومانیت اور عصر حاضر کا شعور دیکھا جاسکتا ہے۔شعری مجموعہ" آخر شب کے ہمنشیں " کا آغاز روایتی انداز میں حمد اور نعت سے ہوتا ہے۔ اپنی حمد میں صابرؔ اللہ کا شکر بجا لاتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ ان کے قلم،خیال اور فکر کو مزید جلا عطا کرے۔
قلم سے علم سکھایا ہے تو نے صابرؔ کو
قلم کو جز مرے کس نے دیا ہے زور بیاں
نعتیہ نظم" ذکر خیر البشر" میں صابرؔ نے نعت گوئی کے آداب کا لحاظ کرتے ہوئے خیر البشر ہستی پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی ﷺ کے اوصاف حمیدہ بیان کئے ہیں۔
پار کشتی ہوئی ساحل نور تک
بحر ظلمات میں ناخدا آپ تھے
رحمتوں کا احاطہ کوئی کیا کرے
ابتداء آپ تھے انتہا آپ تھے
وطن سے محبت کے نغمے اقبال اور چکبست نے بہت خوب پیش کئے۔ حب وطن کی شاعری نے ہرزمانے میں لوگوں میں وطن سے محبت کا جذبہ پروان چڑھایا ہے۔ صابرؔ نے اردو شاعری کی اسی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک نظم" نذر وطن " لکھی۔ نظم کا ہر مصرعہ وطن کی محبت سے سرشار ہے۔ صابرؔ کہتے ہیں:
رنگ سے نور سے نکہت سے ہے پر صحن چمن
عید نظارہ ہوتی جاتی ہے پھر صبح چمن
نظم "وشال آندھرا" میں آندھرا پردیش کے قدرتی وسائل اور اس کے کھیت کھلیانوں کی تعریف کی گئی ہے۔شاعر نے آندھرا کے چاول کو گودام اور سونے کی چڑیا کہا ہے۔ اور یہاں کے فطری و قدرتی حسن و رعنائی کو موضوع بنایا ہے۔ صابرؔ کہتے ہیں:
مرے وطن کو حسیں خوش جمال کہتے ہیں
یہ آندھرا ہے جسے سب وشال کہتے ہیں
اسے زمانے میں چاول کا تھال کہتے ہیں
سنہرے خوشوں کا سر سبز بالیوں کا چمن
وشال دیس ہے میرا وشال میرا وطن
نظم یو این او میں شاعر نے بین الاقوامی ادارے کی حقیقی تصویر پیش کی ہے کہ اس ادارے کے قیام کا مقصد عالمی امن کو یقینی بنانا ہے لیکن کیسے اس ادارے میں قول و فعل کا تضاد پایا جاتا ہے۔ صابرؔ کہتے ہیں:
اصولوں کی باتیں
دل میں لیکن وہی مصلحت کوشیاں
زخم انسانیت ہے ہرا کا ہرا
سب کے سب معتبر
ہاتھ میں سب کے سب زیتون کی ٹہنیاں
آستینیں بھی اپنی الٹ کر بتائیں تو جانیں
نظم "تیری میری آس وہی ہے " میں صابرؔ نے ہندوستان میں پائے جانے والے ذات پات کے نظام اور ہریجنوں سے ہونے والے بھید بھاؤ کو جذباتی انداز میں یوں پیش کیا ہے۔
سورج سونا بکھراتا ہے تیرے گھر بھی میرے گھر بھی
خوشبو کا جھونکا آتا ہے تیرے گھر بھی میرے گھر بھی
چاند آنگن میں اتراتا ہے تیرے گھر بھی میرے گھر بھی
انسان جانے کوئی نہ جانے یہ دوجا وہ ہرجائی ہے
یہ اپنا ہے وہ بیگانہ ہے یہ ہے پرایا وہ بھائی ہے
صابرؔ کی دیگر نظموں کے عنوانات تو کیا ہے۔مسافت۔چپ کا پہرہ۔ واپسی۔ کتبے۔ پندرہ اگسٹ۔UNO۔کراس روڈ۔برادر نامہ۔ مفہوم۔ تیری میری آس وہی ہے۔ آخر شب کے ہمنشیں۔رقص شرر۔مشورہ۔ نیا موڑ۔ عکس بھی قصہ۔ وجہہ ندامت۔ بوڑھی آیا۔لقمہ تر۔ دوسرا سفر وغیرہ ہیں۔صابر ؔ کی نظموں میں فنی ارتقاء محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اور اپنے دور کے تاریخی اور تہذیبی حالات سے آگہی محسوس کی جاسکتی ہے۔ نظموں کی طرح صابرؔ کی غزلیں بھی فکر و فن کا حسین امتزاج ہیں۔ اور ان میں جدیدیت اور کلاسیکیت کا عنصر پایا جاتا ہے۔غزلوں میں اردو غزل کے روایتی عشقیہ موضوعات کے ساتھ سیاسی و سماجی مسائل کی عکاسی ملتی ہے۔ غزلوں کا اسلوب رومانی ہے۔محبوب کی تڑپ اور اس کے دیدار کا کرب پایا جاتا ہے۔ فیض کی طرح یایہاں محبوب کی آرزو روایتی نہیں۔ سماجی اور معاشرتی مسائل کا ادراک وصل محبوب بن جاتے ہیں۔ صابر ؔ کے ہاں پائے جانے والے عشق کے کچھ رویے اس طرح ہیں:
ایسا بھی راہ شوق میں اک سانحہ ہوا
خود سے گذر گیا ہوں انہیں پوچھتا ہوا
پردہ رخ سے جو سرک جائے تو خیر
چاند آنکھوں میں جھمک جائے تو خیر
پھر آپ کے آجانے کا امکان ہوا روشن
پھر میرے تصور نے دروبام تراشے
صابرؔ کی غزلوں سے منتخب یہ متفرق اشعار ان کے مختلف شعری رویوں کی عکاسی کرتے ہیں۔
یہ شہر کیسا شہر ہے یہ قہر کیسا قہر ہے
جس شہر میں بدنام میں اس شہر میں شہر ترا
ڈبو بھی دیتا ہے وہ کشتی ساحلوں سے قریب
پھر اپنے آپ کو وہ ناخدا بھی کہتے ہیں
سب جسے قابل گردن زدنی کہتے ہیں
کیا عجب ہم میں وہ ایک شخص ہی سچا ہوگا
جس بات کا گماں تھا بالآخر وہی ہوا
تاریکیوں کا نام یہاں روشنی ہوا
بارش کے اس بہتے پانی کی ہو یارب عمر دراز
اس میں کاغذ کی کشتی چھوڑ گیا کوئی بچہ
صابرؔ کے بعض اشعار میں اشاروں کنایوں میں بات ملتی ہے۔ صنعت تضاد اور مراء ۃ النظیر کو انہوں نے فنکاری سے برتا ہے۔ صابرؔ فاروقی مشاعروں کے شاعر نہیں ہیں۔ نظام میں منعقدہ یادگار کل ہند مشاعرے میں انہوں نے مقامی شاعر کے طور پر کلام سنایا تھا۔ اور کیفی اعظمی نے ان کے کلام پر بھر پور داد دی تھی۔ ان کی غزلوں کو مقامی گلوکاروں نے اپنی آواز دی۔ صابرؔ فاروقی کو فن عروض پر مہارت حاصل ہے۔ نوجوان شعرا ان سے اپنے کلام کی اصلاح لیتے ہیں۔ صابرؔ فاروقی اپنی شاعری کا سلسلہ جاری رکھیں تو ان کے کلام سے نئی نسل فیضیاب ہوسکتی ہے۔ کیونکہ ان کی شاعری میں مسرت کے ساتھ بصیرت بھی ہے۔
***
ڈاکٹر محمد ناظم علی
پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج موڑتاڑ نظام آباد
ڈاکٹر محمد ناظم علی
پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج موڑتاڑ نظام آباد
ڈاکٹر محمد ناظم علی |
Mohammad Ayoub Farooqi Sabir - a poet. Article: Abid Anwar
بہت بہت شکریہ جناب مکرم نیاز صاحب شہر نظام آباد کے ایک سینیر شاعر کا آپ نے تعارف کروائا-
جواب دیںحذف کریںبہت بہت شکریہ جناب مکرم نیاز صاحب شہر نظام آباد کے ایک سینیر شاعر کا آپ نے تعارف کروائا-
جواب دیںحذف کریں