روزہ کے 4 اہم بنیادی مقاصد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-07-24

روزہ کے 4 اہم بنیادی مقاصد

primary objectives of fasting
روزہ کا پہلا مقصد: تقویٰ
اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے ( مفہوم) اے ایمان والو! تم پر روزہ فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلی امتوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم متقی بن جاؤ۔ قرآن کریم کے اس اعلان کے مطابق روزہ کی فرضیت کا بنیادی مقصد لوگوں کی زندگی میں تقویٰ پیدا کرنا ہے۔ تقویٰ اصل میں اللہ تبارک و تعالیٰ سے خوف و رجاء کے ساتھ حضور اکرمؐ کے طریقہ کے مطابق ممنوعات سے بچنے اور امر پر عمل کرنے کا نام ہے۔ روزہ سے خواہشات کو قابو میں رکھنے کا ملکہ پیدا وتا ہے اور یہی تقویٰ یعنی اللہ کے خوف کی بنیاد ہے۔ روزہ کے ذریعہ ہم عبادات، معاملات، اخلاقیات اور معاشرت غرض یہ کہ زندگی کے ہر شعبہ میں اپنے خالق، مالک ورازق کائنات کے حکم کے مطابق زندگی گذارنے والے بن سکتے ہیں۔ اگر ہم روزہ کے اس اہم مقصد کو سمجھیں اور جوقوت اور طاقت روزہ دیتا ہے اس کو لینے کیلئے تیار ہوں اور روزہ کی مدد سے اپنے اندر خوف خدا اور اطاعت امر کی صفت کو نشوونما دینے کی کوشش کریں تو ماہ رمضان ہم میں اتنا تقویٰ پیدا کرسکتا ہے کہ صرف رمضان ہی نہیں بلکہ اس کے بعد بھی گیارہ مہینوں میں زندگی شاہراہ پرخاردار جھاڑیوں سے اپنے دامن کو بچاتے ہوئے چل سکیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو روزہ کے اس اہم مقصد کو اپنی زندگی میں لانے والا بنائے۔ آمین۔

روزہ کا دوسرا مقصد : گناہوں سے مغفرت:۔
حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے ینعی خالصۃ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے روزہ رکھا اس کے گذشتہ تمام گناہ معاف فرمادئیے جاتے ہیں۔ حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ جو ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے یعنی ریا، شہرت اور دکھاوے کیلئے نہیں بلکہ صرف اور صرف اللہ کی رضا کیلئے رات میں اللہ کی عبادت کیلئے کھڑا ہوا یعنی نماز تراویح اور تہجد پڑھی تو اس کے گذشتہ تمام گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں۔ حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے عبادت کیلئے کھڑا ہوا یعنی نماز تراویح و تہجد پڑھی، قرآن کی تلاوت فرمائی اور اللہ کا ذکر کیا تو اس کے گذشتہ تمام گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں۔ ایک مرتبہ حضور اکرمؐ نے صحابہ کرامؓ سے ارشاد فرمایا کہ منبر کے قریب ہوجاؤ، صحابہ کرام قریب ہوگئے۔ جب حضور اکرمؐ نے منبر کے پہلے درجہ پر قدم رکھا تو فرمایا آمین۔ جب دوسرے درجہ پر قدم مبارک رکھا تو فرمایا آمین۔ جب تیسرے درجہ پر قدم رکھا تو فرمایا آمین۔ جب آپؐ خطبہ سے فارغ ہوکر نیچے اترے تو صحابہ کرام نے عرض کیا کہ ہم نے آج آپ سے منبر پر چڑھتے ہوئے ایسی بات سنی جو پہلے کبھی نہیں سنی تھی۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: اس وقت حضرت جبرئیل علیہ السلام میرے سامنے آئے تھے۔ جب پہلے درجہ پر میں نے قدم رکھا تو انہوں نے کہاکہ ہلاک ہو وہ شخص جس نے رمضان کا مبارک مہینہ پایا پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوسکی، میں نے کہا آمین۔ پھر جب دوسرے درجہ پرچڑھا تو انہوں نے کہاکہ ہلاک ہو وہ شخص جس کے سامنے آپؐ کا ذکر مبارک ہو اور وہ درود نہ بھیجے، میں نے کہا آمین۔ جب میں تیسرے درجہ پر چڑھا تو انہوں نے کہا ہلاک ہو وہ شخص جس کے سامنے اس کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک بڑھاپے کو پہنچے اور وہ اس کو جنت میں داخل نہ کراسکیں۔ میں نے کہا آمین، (بخاری، صحیح ابن حبان، مسند حاکم، ترمذی، بیہقی) غرض یہ کس قدر فکر اور افسوس کی بات ہے کہ ماہ مبارک کے قیمتی اوقات بھی غفلت اور معاصی میں گذار دئیے جائیں جس سے سابقہ گناہوں کی مغفرت نہ ہوسکی۔ لہذا ہمیں رمضان کے ایک ایک لمحہ کی حفاظت کرنی چاہئے تاکہ ایسا نہ ہو کہ ہم حضرت جبرئیل علیہ السلام اور حضور اکرمؐ کی اس دعا کے تحت داخل ہوجائیں۔ حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ بہت سے روزہ رکھنے والے ایسے ہیں کہ ان کو روزہ کے ثمرات میں بجز بھوکا رہنے کے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتااور بہت سے شب بیدار ایسے ہیں کہ ان کو رات کے جاگنے کے سوا کچھ بھی نہیں ملتا۔ یعنی روزہ رکھنے کے باوجود دوسروں کی غیبت کرتے رہتے ہیں یا گناہوں سے نہیں بچتے یا حرام مال سے افطار کرتے ہیں۔ لہذا ہمیں ہر ہر عمل خیر کی قبولیت کی فکر کرنی چاہئے۔ حضور اکرمؐ نے عرض کیا کہ کیا یہ شب مغفرت شب قدر ہی تونہیں ہے؟ آپؐ نے فرمایا نہیں بلکہ دستور یہ ہے کہ مزدور کا کام ختم ہوتے ہی اسے مزدوری دے دی جاتی ہے۔ معلوم ہوا کہ ہمیں عید کی رات میں بھی اعمال صالحہ کا سلسلہ جاری رکھنا چاہئے تاکہ رمضان میں کی گئی عبادتوں کا بھرپور اجر و ثواب مل سکے۔

روز کا تیسرا مقصد: قرب الہی۔
روزہ دار کو اللہ تعالیٰ کا خاص قرب حاصل ہوتا ہے۔ روزہ کے متعلق حدیث قدسی میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں خود ہی روزہ کا بدلہ ہوں۔ نیز حضور اکرمؐ کا ارشاد ہے کہ تین شخص کی دعا رد نہیں ہوتی ہے۔ ان تین اشخاص میں سے ایک روزہ دار کی افطار کے وقت کی دعا ہے۔ حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ خود اللہ تبارک و تعالیٰ اور اس کے فرشتے سحری کھانے والوں پر رحمت نازل فرماتے ہیں۔

روزہ کا چوتھا مقصد: عنداللہ اجر عظیم کا حصول۔
اس برکتوں کے مہینے میں ہر نیک عمل کا اجر و ثواب بڑھادیا جاتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر عمل خیر کا دنیا میں ہی اجر بتادیا کہ کس عمل پر کیا ملے گا مگر روزہ کے متعلق حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ روزہ میرے لئے ہے اور میں خود اس کا بدلہ دوں گا۔ اللہ ﷲ کیسا عظیم الشان عمل ہے کہ اس کا بدلہ ساتوں آسمانوں و زمینیوں کو پیدا کرنے والا خود عطا کرے گا یا وہ خود اس کا بدلہ ہے۔ روزہ میں عموماً ریا کا پہلو دیگر اعمال کے مقابلہ میں کم ہوتا ہے اسی لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے روزہ کو اپنی طرف منسوب کرکے فرمایا روزہ میرے لئے ہے۔ لہذا ہمیں ماہ رمضان کی قدر کرنی چاہئے کہ دن میں روزہ رکھیں، پنچ وقتہ نماز کی پابندی کریں کیونکہ ایمان کے بعد سب سے زیادہ تاکید قرآن و حدیث میں نماز کے متعلق وارد ہوئی ہے۔ حضور اکرمؐ کی آخری وصیت بھی نماز کے اہتمام کی ہے۔ کل قیامت کے دن سب سے پہلا سوال نماز ہی کے متعلق ہوگا۔ نمازتراویح پڑھیں گے اور اگر موقع مل جائے تو چند رکعات رات کے آخری حصہ میں بھی ادا کرلیں۔ فرض نمازوں کے علاوہ نماز تہجد کا ذکر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے قرآن کریم میں متعدد مرتبہ فرمایا ہے۔ رمضان کے آخری عشرہ میں تہجد پڑھنے کا اہتمام کریں کیونکہ حضور اکرمؐاقوال و افعال کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرہ میں پائی جاتی ہے جس میں عبادت کرنے کو اللہ تعالیٰ نے ہزار مہینوں یعنی پوری زندگی کی عبادت سے زیادہ افضل قرار دیا ہے۔ اسی اہم رات کی عبادت کو حاصل کرنے کیلئے 2ہجری میں رمضان کے روزے کی فرضیت کے بعد سے حضور اکرمؐ ہمیشہ آخری عشرہ کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔

the four primary objectives of fasting. Article: Mohammad Najeeb Qasmi Sambhali

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں