ضبط نفس سے مراد یہ ہے کہ آدمی کی خودی جسم اور اس کی طاقتوں پر اچھی طرح قابو یافتہ ہو اور نفس کی خواہشات و جذبات پر اس کی گرفت اتنی مضبوط ہو کہ وہ اس کے فیصلوں کے تابع ہو کر رہیں۔ انسان کے وجود میں خود کا مقام وہی ہے جو ایک سلطنت میں حکمراں کا مقام ہوا کرتا ہے۔ جسم اور اس کے اعضاء خودی کے آلہ کار ہیں۔ تمام جسمانی اور دماغی طاقتیں خودی کی خدمت کیلئے ہیں۔ نفس کی حیثیت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ وہ خودی کے حضور اپنی خواہشات کو درخواست کے طورپر پیش کرے۔ فیصلہ خودی کے اختیار میں ہے کہ وہ ان آلات اور طاقتوں کو کس مقصد کیلئے استعمال کرے اور نفس کی گزارشات میں سے کسے قبول اور کسے رد کرے۔
اگر کوئی خودی اتنی کمزور ہوکہ جسم کی مملکت میں وہ اپنا حکم اپنے منشا کے مطابق نہ چلا سکے اور اس کیلئے نفس کی خواہشیں اور مطالبات احکام کا درجہ رکھتی ہو تو وہ ایک مغلوب اور بے بس خودی ہے۔
اس کی مثال اس سوار کی سی ہے جو اپنے گھوڑے کے قابو میں آ گیا ہو۔ ایسے کمزور انسان دنیا میں کسی قسم کی کامیاب زندگی بسر نہیں کر سکتے۔ تاریخ انسانی میں جن لوگوں نے اپنا کوئی نقش چھوڑا ہے، وہ وہی لوگ تھے جنہوں نے اپنے وجود کی طاقتوں کو بزور اپنا محکوم بنا کر رکھا ہے۔ جو خواہشات نفس کے بندے اور جذبات کے غلام بن کر نہیں، بلکہ ان کے آقا بن کر رہے ہیں، جن کے ارادے مضبوط اور عزم پختہ رہے ہیں۔ لیکن۔۔۔ فرق اور بہت فرق ہے اس خودی میں جو خود خدا بن جائے اور اس خودی میں جو خدا کے تابع فرمان بن کر کام کرے۔
کامیاب زندگی کیلئے خودی کا قابو یافتہ ہونا تو بہرحال ضروری ہے مگر خودی اپنے خالق سے آزاد اور دنیا کے مالک سے بے نیاز ہو، جو کسی بالاتر اخلاقی قانون کی پابند نہ ہو، کسی کو کسی حساب لینے والے کی باز پرس کا اندیشہ نہ ہو وہ اگر اپنے جسم و نفس کی طاقتوں پر قابو پاکر ایک پرزور خودی بن جائے تو وہ دنیا میں فرعون اور نمردو، ہٹلر اور مسولینی جیسے بڑے بڑے مفسد ہی پیدا کر سکتی ہے۔
ایسا ضبط نفس نہ قابل تعریف ہے اور نہ وہ اسلام کو مطلوب ہے۔ اسلام جس ضبط نفس کا قائل ہے وہ یہ ہے کہ پہلے انسان کی خودی اپنے خدا کے آگے سر تسلیم خم کر دے، اسکی رضا کی طلب اور اس کے قانون کی اطاعت کو اپنا شعار بنالے، اس کے سامنے اپنے آپ کو جواب دہ سمجھ لے پھر اس مسلم و مومن خودی کو اپنے جسم اور اس کی طاقتوں پر حاکمانہ اقتدار اور اپنے نفس اور اس کی خواہشوں پر قاہرانہ تسلط حاصل ہو تاکہ وہ دنیا میں ایک مصلح قوت بن سکے۔
یہ ہے اسلامی نقطہ نظر سے ضبط نفس کی اصل حقیقت۔ آئیے ۔۔۔ اب ہم دیکھیں کہ روزہ کس طرح انسان میں طاقت پیدا کرتا ہے۔
اگر آپ نفس و جسم کے مطالبات کا جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان میں تین مطالبے اصل بنیاد کا حکم رکھتے ہیں اور وہی سب سے زیادہ طاقتور مطالبے ہیں۔
ایک: غذا کا مطالبہ جس پر بقائے حیات کا انحصار ہے ، دوسرا صنفی مطالبہ: جس پر بقائے نوع کا انحصار، تیسرا: آرام کا مطالبہ جو قوت کارکردگی کی بحالی کیلئے ضروری ہے۔
یہ تینوں مطالبے اپنی حد کے اندر ہیں تو عین منشائے فطرت ہیں لیکن نفس و جسم کے پاس یہی تین پھندے ایسے ہیں کہ ذرا سی ڈھیل پاتے ہی وہ ان کے جال میں پھانس کر آدمی کی خود کو الٹا اپنا غلام بنا لیتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک مطالبہ بڑھ کر مطالبات کی ایک فہرست بن جاتا ہے اور ہر ایک زور لگاتا ہے کہ انسان اپنا مقصد زندگی، اپنے اصول اور اپنے ضمیر کے فتوے بھول کر بس اسی کے تقاضے پورا کرنے میں لگا رہے۔
ایک کمزور خودی جب ان تقاضوں سے مغلوب ہو جاتی ہے تو غذا کا مطالبہ اسے بندۂ شکم بنا دیتا ہے۔ صنفی جذبہ اس کو حیوانیت کے اسفل السافلین میں پہنچا دیتا ہے اور جسم کی آرام طلبی اس کے اندر ارادے کی کوئی طاقت باقی رہنے نہیں دیتی۔ پھر وہ اپنے نفس و جسم کی حاکم نہیں بلکہ ان کی محکوم بن کر رہتی ہے اور اس کا کام بس یہ رہ جاتا ہے کہ اس کے احکام کو بھلے اور برے، جائز اور ناجائز تمام طریقوں سے بجا لایا کرے۔
روزہ نفس کی ان ہی تین خواہشوں کو اپنے ضابطہ کی گرفت میں لیتا ہے اور خودی کو ان پر قابو پانے کی مشق کراتا ہے۔ وہ اس خودی کو جو خدا پر ایمان لاچکی ہے، یہ خبر دیتا ہے کہ تیرے خدا نے آج دن بھر کیلئے تجھ پر دانہ پانی حرام کر دیا ہے، اس مدت کے اندر تیرے مالک نے آج تیری صنفی خواہشات پر بھی پابندی عائد کر دی ہے، صبح صادق سے غروب آفتاب تک تیرے لئے حلال طریق سے بھی ان خواہشات کو پورا کرنا حرام ہے۔
وہ اسے یہ اطلاع بھی دیتا ہے کہ تیرے رب کی خوشی اسی میں ہے کہ دن بھر کی بھوک پیاس کے بعد جب تو افطار کرے تو نڈھال ہو کر لیٹ نہ جا بلکہ اٹھ کر عام دنوں سے زیادہ اس کی عبادت کر۔ وہ اس کو یہ حکم بھی پہنچاتا ہے کہ نماز کی لمبی رکعتوں سے فارغ ہو کر جب تو آرام لے تو صبح تک مدہوش ہوکر نہ پڑ جا، بلکہ معمول کے خلاف سحری کے لیے اٹھ اور صبح سے پہلے اپنے جسم کو غذا دے۔
یہ سارے احکام پہنچادینے کے بعد وہ ان کی تعمیل کا معاملہ خود اسی پر چھوڑ دیتا ہے۔ اس کے پیچھے کوئی پولیس، کوئی سی آئی ڈی، کوئی خارجی دباؤ ڈالنے والی طاقت نہیں لگائی جاتی۔ وہ چھپ کر کھائے، پئے یا صنفی خواہشات پوری کر لے تو خدا کے سوا کوئی اسے دیکھنے والا نہیں ہے۔ وہ تراویح سے بچنے کیلئے کوئی شرعی حیلے کرے تو کوئی دنیوی طاقت اس پر گرفت نہیں کر سکتی۔ سب کچھ اس کے اپنے اوپر منحصر ہے اگر مومن کی خودی واقعی خدا کی مطیع ہو چکی ہے اور اگر اس کے ارادے میں اتنا زور ہے کہ نفس پر قابو پا سکے تو وہ خود ہی غذا کی مانگ کو، صنفی خواہش کو اور آرام کی طلب کو اس ضابطہ میں کس دے گا جو آج خلاف معمول اس کیلئے مقرر کر دیا گیا ہے۔
یہ صرف ایک دن کی مشق نہیں ہے ، ایسی مشق کیلئے ایک دن کافی بھی نہیں ہو سکتا۔ مسلسل 30 دن تک یہی مشق کرائی جاتی ہے۔ سال بھر میں پورے 720 گھنٹے کیلئے یہ پروگرام بنا دیا گیا ہے کہ رات کے آخری حصہ میں اٹھ کر سحری کھاؤ، صبح پو پھٹتے ہی کھانا پینا بند کر دو، دن بھر ہر قسم کی غذا سے پرہیز کرو، غروب آفتاب کے بعد ٹھیک وقت پر افطار کرو، پھر رات کا ایک حصہ تراویح کی غیر معمولی نماز میں کھڑے ہو کر گزارو اور چند گھنٹے آرام لینے کے بعد پھر دوسرے دن کیلئے یہی پروگرام شروع کر دو، اس طرح مہینے بھر تک پے در پے نفس کے ان تین سب سے بڑے اور سب سے زیادہ طاقتور مطالبوں کو ضابطے میں کستے رہنے سے خودی کے اندر یہ طاقت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ خدا کی مرضی کے مطابق اپنے نفس و جسم پر حکومت کر سکے اور یہ عمر بھر میں صرف ایک ہی مرتبہ کا پروگرام نہیں ہے بلکہ سن بلوغ کو پہنچنے کے بعد سے مرتے دم تک ہر سال میں ایک مہینہ اسی مشق کیلئے وقف کیا گیا ہے تاکہ نفس پر خودی کی گرفتار بار بار تازہ اور سخت ہوتی رہے۔
یہ ساری مشق محض اس غرض کیلئے نہیں ہے کہ مومن کی خودی صرف اپنی بھوک، پیاس، شہوت اور آرام طلبی پر قابو پالے اور اس کی غرض ہے کہ اس کو نفس و جسم پر قابو صرف ایک رمضان ہی کے مہینے میں حاصل رہے۔
دراصل اس کا مدعا یہ ہے کہ نفس کے ان تین سب سے زیادہ زور دار حربوں کا مقابلہ کر کے وہ اس کے سارے ہی جذبات اور ساری ہی خواہشات پر قابو یافتہ ہو جائے اور اس میں اتنی طاقت پیدا ہو جائے کہ محض رمضان ہی میں نہیں بلکہ رمضان کے بعد بھی باقی گیارہ مہینوں میں وہ ہر اس خدمت کیلئے اپنے جسم اور اس کی طاقتوں سے کام لے سکے جو خدا نے اس پر فرض کی ہو، ہر اس بھلائی کیلئے کوشش کر سکے جس میں خدا کی رضا ہو، ہر اس برائی سے رک سکے جو خدا کو ناپسند ہو اور اپنی خواہشات و جذبات کو ان حدود کا پابند بنا کر رکھ سکے جو خدا نے اس کیلئے مقرر کر دی ہیں۔
اس کی باگیس نفس کے قبضے میں نہ ہوں کہ جدھر جدھر وہ چاہے اسے کھینچے کھینچے پھرے، بلکہ عنان اقتدار اس کے اپنے ہاتھ میں رہے اور نفس کی جن خواہشوں کو، جس وقت جس حد تک اور جس طرح پورا کرنے کی خدا نے اجازت دی ہے، انہیں اسی ضابطہ کے مطابق پورا کرے، اس کا ارادہ اتنا کمزور نہ ہو کہ فرض کو فرض جانتا بھی ہو، ادا بھی کرنا چاہتا ہو مگر جسم پر اس کا حکم ہی نہ چلتا ہو۔ نہیں، جس کی مملکت میں وہ اس زبردست حاکم کی طرح رہے جو اپنے ماتحت عملے سے ہر وقت اپنے حسب منشا کام لے سکتا ہو، یہی طاقت پیدا کرنا روزے کا اصل مقصد ہے، جس شخص نے روزے سے یہ طاقت حاصل نہ کی اس نے خواہ مخواہ اپنے آپ کو بھوک پیاس اور رت جگے کی تکلیف دی۔
قرآن اور حدیث دونوں میں اس بات کو صاف صاف واضح کر دیا گیا ہے۔ قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ روزے تم پر اس لئے فرض کئے گئے ہیں کہ تمہارے اندر تقویٰ کی صفت پیدا ہو۔ حدیث میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا اس کا پانی اور کھانا چھڑوا دینے کی خدا کو کوئی حاجت نہیں۔ نیز آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جو روزے سے بھوک پیاس کے سوا کچھ نہیں پاتے۔
Fasting and self control. Article: Maulana Maudoodi
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں