Batla House encounter case verdict on July 25
عدالت بٹلہ ہاوس انکاونٹر معاملے کا فیصلہ 25 جولائی کو سنائے گی۔ اس معاملہ میں واحد ملزم مبینہ انڈین مجاہدین کے شہزاد احمد کی جانب سے آج آخری جرح مکمل کی گئی۔ جرح کے دوران پولیس کے وکیل کا دعویٰ تھا کہ شہزاد کے انکاونٹر کے وقت فلیٹ میں ہونے کے کافی ثبوت موجود ہیں اور وہ وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا تھا، جبکہ دوسری جانب شہزاد احمد کے وکیل نے دلیل پیش کی تھی کہ شہزاد واردات کے دن اس فلیٹ پر موجود نہیں تھا اور سرکاری گواہوں نے اس فلیٹ میں رہنے والے لوگوں کی کسی طرح کی کوئی پہچان نہیں بتائی ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج راجندر کمار شاستری نے جرح مکمل ہونے کے بعد کہاکہ اس معاملہ کا فیصلہ 25جولائی کو سنایا جائے گا۔ شہزاد کے وکیل نے اپنی جرح میں کہاکہ انکاونٹر کے وقت ان کا موکل اس فلیٹ میں موجود نہیں تھا اور بیلسٹک رپورٹ سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ انسپکٹر موہن چندر شرما کے جسم سے جو گولیاں نکالی گئی وہ ان ہتھیاروں کی تھیں جو ضبط کئے گئے تھے نہ کہ اس پستول کی جو شہزاد کے پاس بتایا جارہا ہے۔ انہوں نے اپنی دلیل میں یہ بھی کہاکہ واردات کے وقت پبلک کے کسی بھی شخص یا راہگیر کو گواہ نہیں بنایاگیا اور نہ ہی ایف آئی آر میں فلیٹ میں رہنے والے کسی شخص کا حلیہ ہی بیان کیا گیا۔ وکیل کا کہنا تھا کہ اگر شہزاد اس فلیٹ میں رہتا تھا تو اس کے کپڑے اور دیگر سامان وغیرہ ہے کہاں ہے۔ دوسری جانب پولیس کا کہنا ہے کہ شہزاد اس وقت فلیٹ پر تھا اور فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ پولیس کے مطابق 2008ء میں سلسلہ وار بم دھماکوں میں بھی شامل تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ وہ اس فلیٹ میں محمد عاطف کے ساتھ رہتا تھا۔ واضح ہوکہ اس فرضی انکاونٹر میں محمد عاطف اور محمد ساجد شہید ہوگئے تھے۔ بٹلہ ہاؤس انکاونٹر معاملہ کافی متنازع رہا ہے۔ اس معاملہ میں عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا لیکن اس وقت کے وزیر داخلہ شیوراج پاٹل نے اس انکاونٹر کو درست قرار دیتے ہوئے انکوائری کرانے سے انکار کردیا تھا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں