ایسا ہی ایک کارنامہ اس نے حالیہ دنوں نام نہاد "مولانا جوہر یونیورسٹی" کو اقلیتی کردار کا درجہ دے کر کیا ہے جس سے رام پور سمیت پوری یوپی میں جشن کا سا ماحول ہے۔میں یہاں تمام اہل بصیرت سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اس کی زیادہ مستحق نہیں تھی کہ اس کا اقلیتی کر دار بحال کیا جاتا؟کیا یہ مناسب نہیں تھا کہ اعظم خاں کی منہ بھرا ئی سے پہلے ان طلبا اور اساتذہ کی بات سنی جاتی جو ایک طویل مدت سے علی گڑھ کا اقلیتی کردا ربحال کر انے کے لیے جدو جہد کر رہے ہیں ؟کیا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اقلیتی کردارکی حق دار نہیں ہے ؟ مجھے امید ہے ان سوالوں کا جواب ہاں میں ہوگا .........مگرافسوس علی گڑھ کو ایک مرتبہ پھر محروم کر دیا گیا اور ایک غیر معروف یونیورسٹی ،جس کی دیوارو ں میں ابھی تک نمی باقی ہے اور اس میں تعلیم کا آغاز بھی نہیں ہوا ہے ،اقلیتی کردار سے نوازدی گئی اورعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جس کی خدمات کا کو ئی احاطہ ہی نہیں، آج تک اقلیتی کردار اور اپنے چھنے ہو ئے "حق" کے لیے ترس رہی ہے ۔
کانگریس جیسی حراف جماعت سے تو خیر ہمیں کو ئی امید نہیں تھی مگر مسلمانوں کا غرور کہے جانے والے اعظم خاں نے بھی ملت فروشی کا کارنامہ انجام دے دیا۔میرا احساس ہے ،ان کے اندر اگر ذرا بھی غیرت و حمیت ہوتی تو وہ بر ملا کہتے کہ حکومت ہند پہلے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کر دا ربحال کر ے میری یونیورسٹی تو ابھی نئی ہے اور اسے تو پھر کبھی اقلیتی کردار کا درجہ مل جا ئے گا ۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اقلیتی کر دار کی زیادہ مستحق ہے......مگر ا نھوں نے ایسا نہیں کیا اور یہ کہہ کر ملت فروشوں کی صف میں شامل ہو گئے کہ "حکومت ہند نے ان کے بارے میں بہت صحیح فیصلہ کیا ہے اور میری یونیورسٹی پہلی یونیورسٹی ہے جسے بن مانگے اس کا حق مل گیا۔"
اعظم خاں کے لیے یہ ایسی خوشی ہے جو سمائے نہیں سما رہی ہے ۔یہی نہیں سماج وادی پارٹی کے کارکنان اس فیصلے کو 21ویں صدی کا نادر و نایا ب اورتاریخ ساز فیصلہ مان رہے ہیں ۔ آج پوری یوپی خوشی و مسرت کا گہوارہ بنی ہو ئی ہے ،حرافہ کانگریس یہی چاہتی تھی اور اس کا تیر صحیح نشانے پر لگا ہے۔
یہ ایک گہری چال ہے جو کانگریس نے چلی اور ایک پانسہ ہے جو اس نے پھینکا۔ذرا انداہ کیجیے !وہ اعظم خاں جو کل امریکہ میں اپنے ساتھ ہونے والی بدسلوکی کا ٹھیکرا کانگریس کے سر پھوڑرہے تھے وہ آج کانگریس کے مداح ہو گئے اور اس قدر کہ اسے اپنا اورمسلمانان ہند کا نجات دہندہ سمجھنے لگے ۔ان کی طرح کتنے لوگوں کی سوچ بدلی ہو گی اورجب انتخابات منعقد ہوں گے اس وقت کانگریس کا پلڑا بھاری رہنا لازمی ہے ۔یعنی ملت فروشوں نے ذرا بھی نہیں سوچا کہ ان سے انجانے میں کیسی خطا ہو رہی ہے اور وہ کیسے گناہ عظیم کا ارتکاب کررہے ہیں ۔یہی نہیں !دیکھنا وہ دن دور نہیں جب ملائم سنگھ ،تیسرے محاذ کے قیام کا دعوا کر نے والے کانگریس کی حمایت میں پیش پیش نظر آئیں گے اور ایک بار پھر پوری یوپی کو کانگریس کے جہنم میں جھونک دیں گے۔
مولانا جوہر یونیورسٹی کو اقلیتی کردار کا درجہ دے دینا وقت کی ضرورت بالکل نہیں ہے بلکہ ایس پی حکومت کی منہ بھرائی ہے ۔ہاں !کانگریس کے لیے وقت کی ضرورت ہوسکتا ہے چو نکہ اب اس کا چل چلاؤ قریب آگیا ہے اوراس مرتبہ بیدار عوام ،زخموں پے زخم کھائے عوام اورمہنگائی کے جہنم میں جلنے والے عوام نے کانگریس کا تختہ پلٹ کر نے کا منصوبہ بنالیا ہے اور اس مرتبہ وہ آر پار کی جنگ کے لیے تیار ہیں اس لیے وہ بھر پور مسلم کارڈ کھیل رہی ہے اور ایسے لوگوں کو اپنے مایاجال میں پھنسارہی ہے جو آسان شکار ہیں۔افسوسناک بات تو یہ ہے کہ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ کانگریس کو آج بھی اپنا نجات دہندہ سمجھتا ہے ۔کر ناٹک کے مسلمانوں نے یہی سب کیا اورریاست میں تبدیلی لانے کے لیے سیکولر حکومت کو چھوڑ کر قاتل حکومت کے ساتھ سودے بازی کر لی۔پورے ملک میں کانگریس کی بدولت ایک مسلسل انارکی کا ماحول ہے ۔مسلمانوں کے بچے خوف سے سہمے رہتے ہیں ۔انھیں ڈر لگارہتا ہے کہ کہیں کو ئی اے ٹی ایس کا غنڈہ انھیں بلاوجہ دہشت گرد،دہلی میں تباہی کر نے والا اور نہ جانے کیسے کیسے الزامات لگا کر جیل میں بند کر دے گا۔وہ اپنی بے گناہی کی گہار لگائیں گے مگر عدالت تک ان کی بات نہیں سنے گی اور آٹھ دس سال بعد اگر ان کی ضمانت ہو بھی جا ئے گی تو بے رحم پولیس انھیں بیچ راہ میں جان سے ماردے گی ......اور پھر ان کے پاس حربے ،حیلے ،بہانے ایک سے ایک ہیں ۔
مجھے حیرت ہے ایسے دانشوروں پر،مسلمان سیاست دانوں پر جو یہ جانتے ہو ئے بھی کانگریس سے دل و جان کے ساتھ وابستہ ہیں کہ وہ ہمارے اسلامی تشخص کی دشمن ہے ۔ہماری مسجدو ں کی تباہی میں کو ئی دقیقہ نہیں چھوڑتی ۔بابری مسجد سے لے کر قلندری مسجد تک کانگریس کے ایسے سیاہ ناموں کی ایک طویل فہرست ہے جن میں مساجد کے مٹانے اورانھیں زمیں بوس کر نے کی سازشیں کی گئیں ہیں۔ دہلی میں آج بھی ایسی 70مساجد ہیں جو عیاشوں،نشہ بازوں اورغیر سماجی عناصر کے لیے تو کھلی ہیں مگر مسلمانوں کو ان میں نماز ادا کر نے کی اجازت نہیں ہے ۔نام نہاد ڈی ڈی اے دہلی کی تمام زمینوں کا مالک ہے او روقف بورڈ کے اختیار میں کچھ نہیں ہے ۔اگر ہے بھی تو اس کی چیرمین شپ ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہے جنھیں کلمہ تک یاد نہیں۔......... اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود بھی مسلمان اس کے تلوے چاٹنے کے فراق میں رہتے ہیں۔تف ہے ایسے مسلمانوں پر ،لعنت ہے ایسے مسلمانوں پر۔کیا ایسی دغاباز کانگریس مسلمانوں کا بھلا کر سکتی ہے ۔کیا اس سے بہتری اوراچھا ئی کی امید یں کی جاسکتی ہیں۔کیا وہ ہمارا درد سمجھ سکتی ہے.........ان سوالوں کا جواب ہر کو ئی صاحب بصیرت نا میں دے گا۔مگر کانگریس کی گر دن کو ئی نہیں مروڑتا جو ملک کو آگ و خون کا نمونہ بنا نے کے باوجود انتہا ئی بے حیائی اور ڈھٹائی سے ملک کے تخت و تاج پر قابض ہے اور اسے ذرا بھی خیال نہیں آتا کہ اخلاقیات کی بنیاد پر تو وہ تاج وتخت سے علاحدہ ہو جائے ۔
***
imranakifkhan[@]gmail.com
موبائل : 9911657591
85 ، ڈیگ گیٹ گلپاڑہ، بھرت پور (راجستھان)۔
imranakifkhan[@]gmail.com
موبائل : 9911657591
85 ، ڈیگ گیٹ گلپاڑہ، بھرت پور (راجستھان)۔
عمران عاکف خان |
minority status to Mohammad Ali Jauhar University, a congress game. Analysis: Imran Akif Khan
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں